انھیں یاد کرنا کیوں ضروری ہے

اپنے ادیبوں کو بھولنے بھلانے میں ہم طاق ہیں، اسی لیے جب یہ خبر نظر سے گزری کہ ہمارے شہر میں عصمت چغتائی کو یاد۔۔۔


Zahida Hina June 29, 2013
[email protected]

اپنے ادیبوں کو بھولنے بھلانے میں ہم طاق ہیں، اسی لیے جب یہ خبر نظر سے گزری کہ ہمارے شہر میں عصمت چغتائی کو یاد کیا گیا تو خوشی ہوئی۔ کسی کو یاد نہ آیا کہ عصمت چغتائی 1911ء میں بدایوں میں پیدا ہوئی تھیں اور 24 اگست 1994ء کو ممبئی میں اس جہان سے گزری تھیں۔ وجہ؟ کیا اس لیے کہ وہ برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں اور آزاد ہندوستان میں جان دی؟

نہیں... شاید اس لیے کہ انھیں قبر کے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا اس لیے وصیت کی کہ انھیں برقی بھٹی میں رکھ کر راکھ کر دیا جائے۔ ہندوستان میں رہتی تھیں، اس لیے یہ ممکن ہو سکا۔ لیکن وصیت تو ن م راشد نے بھی کی تھی اور وہ بھی برقی بھٹی میں جلائے گئے لیکن ...... لیکن اس بارے میں بحث کیوں کی جائے؟

عصمت آپا کے قدم چھونے کا اعزاز مجھے کئی بار حاصل ہوا اور یہ بھی کہ میرے گھر میں ان کے قدم آئے اور ان کے ساتھ ایک شام افسانہ ہوئی جس میں انھوں نے کتنی بہت سی باتیں کیں۔ وہ جیسے تیکھے افسانے لکھتی تھیں، ویسی ہی کاٹ دار ان کی باتیں تھیں۔ ہم سے ان کا حق ادا نہ ہوا لیکن ہندوستان میں ان پر بہت کام ہوا۔ اردو میں کم، ہندی اور انگریزی میں زیادہ۔ افسانہ نگار جوگندر پال کی بیٹی سکریتا پال کمار جو انگریزی کی معروف شاعرہ ہیں، وہ اردو والوں کو اپنے پتا جی یا ہندی اور انگریزی ترجموں کے وسیلے سے خوب جانتی ہیں۔ انھوں نے عصمت آپا پر ایک کتاب مرتب کی جس میں صادق ان کے شریک تھے۔

'کتھا' کی گیتا دھرم رانجن نے سکریتا پال کمار کی اس کتاب کو بہت اہتمام سے شائع کیا۔ اس میں عصمت آپا کا شجرۂ نسب بھی ہے جس کا آغاز چنگیز خان سے ہوتا ہے جو چغتائی تھا۔ سکریتا کی مرتب کی ہوئی اس کتاب میں عصمت آپا کی نادر تصویریں ہیں، ان کی اپنی ترجمہ شدہ تحریریں ہیں۔ دوسروں نے ان کے بارے میں جو لکھا اور خود وہ جو اپنے باب میں لکھ گئیں۔ تحریر و تصویر کا ایک نادر مجموعہ ہے جو فروری2000ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا اور دوسرا ایڈشن صرف 3 مہینے کے اندر مئی 2000ء میں شائع ہوا۔

اس کا آغاز ان کی آپ بیتی 'غبار کارواں' سے ہوتا ہے۔ جو اردو میں کئی مختلف ناموں سے شائع ہوئی۔ اس کی ابتدائی سطریں پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ضدی اور منہ پھٹ عصمت کی روش ابتدا سے وہی تھی جس کا اختتام ان کی وصیت پر ہوا۔ لکھتی ہیں۔ ''ہمارے گھر میں ایک سفید گھوڑی تھی میرے سب ہی بھائی اس پر باری باری سیر کرتے۔ سائیس انھیں گھما کر لاتا۔ میں للچائی نظروں سے انھیں دیکھتی اور گھوڑی پر چڑھنے کی ضد کرتی لیکن اماں کی اجازت نہ تھی وہ کہتیں، لڑکیاں گھڑ سواری نہیں کرتیں۔ گھوڑی پر چڑھیں تو ٹانگیں توڑ دوں گی۔ لیکن جب میں اپنے کسی بھائی کو سفید گھوڑی پر اکڑ کر بیٹھے ہوئے دیکھتی تو مچل اٹھتی۔ ایک بار میں گھوڑی کے پیچھے روتے ہوئے جا رہی تھی۔ بھائی گھوڑی پر شان سے بیٹھا تھا۔ اسی وقت میرے والد کچہری سے لوٹے۔ سائیس سے انھوں نے پوچھا ''یہ کیوں رو رہی ہے؟'

اس نے بتایا ''گھوڑی پر بیٹھنا چاہتی ہیں۔''
ابا نے کہا ''تو بٹھاتے کیوں نہیں؟''
''جی بیگم صاحبہ کی اجازت نہیں''
ابا نے کہا ''بٹھاؤ''۔

تب سے میں بھی سفید گھوڑی پر بیٹھنے لگی، گھوڑی پر بیٹھ کر مجھے اپنی فتح مندی کا بے پناہ احساس ہوا۔ باغی عصمت کی یہ پہلی فتح تھی۔ اس کے بعد تو والد جب بھائیوں سے نشانہ لگواتے تو میرے ہاتھ میں بھی کارتوس تھما دیتے اور نشانہ لگواتے۔''

انھوں نے کسی انسان پر گولی نہیں چلائی لیکن سماج کی ریت رواج کو نشانے پر رکھ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روتی، جھینکتی اور ظلم سہتی ہوئی عورت ان کو ذرا نہیں بھاتی، اسی لیے وہ قلم سنبھال کر ان روایتوں اور رواجوں کے بخیے ادھیڑنے پر تل گئیں۔ عصمت آپا نے قلم اور کاغذ کے ساتھ لگ بھگ 60 برس گزارے اور اس دوران انھوں نے اردو ادب کو کیسے کیسے یادگار افسانے دیے۔ ان کے ایک افسانے ''لحاف'' کا آج تک چرچا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اس میں کچھ بھی نہیں۔ عصمت نے اس لحاف کا ایک کونہ اٹھا کر دیکھا ہے اور پھر جلدی سے اسے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اس پر کیا کچھ باتیں نہ بنیں۔ فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عصمت اور منٹو دونوں کے دو افسانوں پر ایک ہی عدالت میں یہ مقدمہ چلا اور دونوں اس الزام سے بری ہوئے۔ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان پر تاج برطانیہ کا راج تھا۔

''منٹو میرا دوست، میرا دشمن'' میں عصمت چغتائی نے بمبئی کے آخر دنوں کے منٹو کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

''آپ گنگولی (اشوک کمار) کو نہیں سمجھتیں۔ میں سمجھتا ہوں وہ میری کہانی میں ضرور کام کرے گا۔''

''آپ کی کہانی میں اس کا رول رومینٹک نہیں باپ کا ہے۔ وہ کبھی نہیں کرے گا۔'' اور منٹو سے پھر لڑائی ہونے لگی۔ آخر کار منٹو کی کہانی رہ گئی۔ منٹو کو اس کی امید نہ تھی اور اسے بڑی ذلت محسوس ہوئی وہ سب کچھ جھیل سکتا تھا بے قدری نہیں جھیل سکتا تھا۔ ادھر ملک کے حالات بالکل ہی ابتر ہو گئے۔ اس کے بیوی بچے اسے پاکستان بلانے لگے ... اور ایک دن وہ بغیر اطلاع کیے اور ملے پاکستان چلا گیا۔ پھر اس کا خط آیا کہ وہ بہت خوش ہے۔ بہت عمدہ مکان ملا ہے۔ کشادہ اور خوبصورت قیمتی سامان سے آراستہ۔ ہمیں اس نے پھر بلایا تھا۔ ''ضدی'' ختم ہو گئی تھی۔ اور ہم نے 'آرزو' شروع کر دی تھی۔ برے وقت آئے تھے اور چلے گئے تھے۔ اس کے پھر دو خط آئے اس نے بلایا تھا۔ ایک سینما الاٹ کروانے کی امید دلائی تھی، مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اس کی محبت کا پہلے بھی یقین تھا مگر اب تو اور مان جانا پڑا ... پھر سنا منٹو بہت خوش ہے... مکان چھن گیا مگر دوسرا مکان بھی خاصا اچھا تھا... منٹو کا ایک خط آیا۔ کوشش کر کے مجھے ہندوستان بلوا لو۔ پھر معلوم ہوا کہ منٹو پر مقدمہ چلا اور جیل ہوئی۔ سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔ کسی نے احتجاج بھی نہ کیا۔ بلکہ کچھ لوگوں کا رویہ ایسا تھا کہ اچھا ہوا جیل ہو گئی۔ اب دماغ درست ہو جائے گا۔ نہ کہیں جلسے ہوئے، نہ میٹنگیں ہوئیں، نہ ریزولیشن پاس ہوئے۔ پھر معلوم ہوا کہ دماغ چل نکلا اور یار دوست پاگل خانے پہنچا آئے ہیں۔ مگر ایک دن منٹو کا خط آیا۔ بالکل ہوش و حواس میں لکھا تھا کہ اب بالکل ٹھیک ہوں، اگر مکرجی سے کہہ کر بمبئی بلوا لو تو بہت اچھا ہو۔ اس کے بعد عرصے تک کوئی خیر خبر نہیں ملی۔ نہ میرے خط کا جواب آیا۔ پھر سنا کہ دوبارہ پاگل خانے چلے گئے۔ اب منٹو کی خبروں سے ڈر سا لگتا تھا۔ پوچھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ خدا جانے اس کا اگلا قدم کہاں پڑا ہو۔ مگر پاگل خانے سے آگے جو قدم پڑتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ پاکستان سے آنے والے لوگوں سے بھی اتنی کڑوی خبریں سنیں کہ جی ڈوب گیا۔''

عصمت آپا کو سمجھنے میں ان کی وہ تحریریں بہت مدد دیتی ہیں جو انھوں نے اپنے بارے میں لکھیں۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ ''جب ابا نے میٹرک کے بعد آگے پڑھانے سے انکار کر دیا تب میں نے انھیں یہ کہہ کر بلیک میل کیا تھا کہ اگر آپ نے مجھے نہیں پڑھایا تو میں مشن جا کر عیسائی ہو جاؤں گی۔ ابا نے پوچھا تھا کہ 'وہاں کیسے جاؤ گی؟'' میں نے جواب دیا تھا کہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلی جاؤنگی، راستہ مجھے معلوم ہے وہ لوگ فوراً مجھے عیسائی کر کے لے جائیں گے اور اسکول میں داخل کر لیں گے۔'' ابا مجھے آگے پڑھانے پر راضی ہو گئے۔'' ان کی دبنگ طبیعت سے ان کے ابا تک خوف کھاتے تھے۔

ان دنوں جب میں سیاہ اور کشمشی برقعوں کی بہاریں دیکھتی ہوں تو عصمت آپا کے لکھے ہوئے یہ جملے یاد آتے ہیں کہ ''ایک بار ہم ریل گاڑی پر جا رہے تھے۔ منزل آنے سے پہلے بیبیوں نے اپنے اپنے برقعے سنبھال لیے۔ میں نے سوچا کہ اترتے ہی مجھے بھی اپنا برقعہ پہننا پڑیگا۔ جب نوکر بستر باندھنے لگے تو میں نے اس میں اپنا برقعہ چھپا دیا۔ سات آٹھ بستروں میں سے کسی ایک میں بندھ گیا۔ جب ٹرین رکی تو میں نے بہت بھولی بن کر اپنا برقعہ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ سب نے پوچھا کہ آخر گیا کہاں؟ اماں نے طلب کیا ۔ ''کہیں چلتی ٹرین سے پھینک تو نہیں دیا کم بخت؟'' جب پیٹھ پر ایک دو دھموکے پڑے تو میں نے جیسے بہت سوچ کر جواب دیا۔ ''ہو سکتا ہے بستر میں بندھ گیا ہو، میں نے تکیے کے نیچے رکھ دیا تھا۔'' اب تو کوئی چارہ نہ تھا۔ بستر باندھنے میں دو گھنٹے لگے تھے۔ کھولنے میں ایک تو لگتا ہی لہٰذا میں بغیر برقعہ پہنے ہی باہر نکل آئی'' اور اس کے بعد انھوں نے کبھی برقعہ نہیں پہنا۔ یہ 1920ء کی دہائی کا قصہ ہے جب برقعہ نہ پہننا بغاوت کی علامت تھی۔ لگ بھگ ایک صدی بعد مسلمان لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے بے پردہ ہونے پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے شمالی علاقوں میں اور دور افتادہ قصبوں میں عصمت چغتائی کی ہیروئن قتل کی جا رہی ہے' اس کے اسکول بارود سے اڑائے جا رہے ہیں اور پیدائش سے پہلے ہی اس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اسی لیے ہمیں عصمت چغتائی جیسی ہستیوں کو بار بار یاد کرنا چاہیے۔

مقبول خبریں