پروفیسر سید محمد نصیر اب ایسے استاد کہاں
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے یہاں آدرش وادی دانشور، ادیب، سیاسی رہنما، کارکن اور مزدور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد...
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے یہاں آدرش وادی دانشور، ادیب، سیاسی رہنما، کارکن اور مزدور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو انیسویں اور بیسویں صدی کے نصف اول میں ہندوستان کی تحریک آزادی کا ایندھن بن گئی۔ ان لوگوں نے آزادی کے بعد بھی پاکستانی اور ہندوستانی سماج کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔
پروفیسر محمد نصیر ایک ایسے ہی آدرش وادی انسان تھے۔ ادب سے گہری وابستگی ان کا تہذیبی اور خاندانی شعار تھی جس نے ان کے وجود میں چھپے ہوئے ادیب اور دانشور کو صیقل کیا،کمیونسٹ ہونے کے جرم میں جیل گئے۔ چار برس پس دیوارِِ زنداں رہ کر باہرآئے۔ تدریس کا شعبہ اختیارکیا اورپھر اسی میں زندگی بسر کردی۔ ہمارے یہاں ایسے لوگ اب خال خال نظر آتے ہیں جن کی نظریاتی اساس اتنی مستحکم ہوکہ آخری سانس تک قدم نہ ڈگمگائیں اور وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس جہان سے گزریں۔
میں ان کے نیاز مندوں میں سے تھی اور ہمیشہ ان لوگوں پر رشک کرتی رہی جن کے وہ استاد رہے۔ انھیں ایک بے بدل استاد اور ماہر تعلیم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کیسی اعلیٰ اور شگفتہ تحریریں لکھتے تھے اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہوں نے ان کے لکھے ہوئے لفظ پڑھے ہیں۔ میں ان کی صفت بیان کرنا شروع کروں گی تو لغت میں لفظ کم پڑ جائیں گے اور شاید آپ کو یہ میری مبالغہ آرائی محسوس ہو۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میں نے ان ایسا خندہ رو' نرم خو' صاحبِ علم اور عالم باعمل ' روادار' متحمل مزاج ' شیریں گفتار اور صاحب کردار نہیں دیکھا اور کیوں نہ ہوتے کہ وہ ایسے باپ کے بیٹے تھے جس نے ایک کامیاب وکیل کی زندگی گزارتے ہوئے ایک روز اچانک محسوس کیا کہ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں قانون دان کی ہنر مندی اور زور بیان قاتلوں کو رہائی دلاتا ہے جب کہ بہت سے بے گناہ سزا پاتے ہیں۔ ان بزرگ پر جس دن یہ حقیقت منکشف ہوئی وہ وکالت کے پیشے سے تائب ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے جو مصائب اٹھائے ہوں گے اسے سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ ایک ایسے باپ کے بیٹے سید محمد نصیر نے زندگی کے ہر فیصلے کو ضمیر کی ترازو میں تولا اور ہنستے کھیلتے عمر کے 82 برس گزار دیے۔
وہ کسی ایسے سماج میں زندگی گزارنے کے اہل نہیں تھے جہاں چوہا دوڑ لگی ہو۔ انھوں نے کیسے کیسے ثقہ لوگوں کو اس دوڑ میں شریک ہوتے دیکھا' ایک دوسرے کو کہنی مار کر آگے بڑھتے اور گرجانے والوں کو کچلتے اور پھلانگتے ہوئے' مرتبے اور منصب کی چاہ میں ہانپنے والے لوگ ۔ وہ ایسے لوگوں پر مسکراتے رہے۔ سربلندی سے اپنی سفید پوشی نباہتے رہے۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی' ایک مختصر سے فلیٹ میں نرجس بھابھی کے ساتھ انھوں نے آن بان کے ساتھ زندگی گزاری۔ اچھے کھانوں کے شوقین تھے لیکن شاید وہ دن بھی گزرے ہوں جب ان کے دستر خوان پرصرف چاول' دال اور پودینے کی چٹنی ہوتی ہو۔ شاید ان کے گھر میں وہ بہت سی سہولتیں نہ ہوں جو ان کے بعض دوستوں کے گھروں میں تھیں لیکن وہ جب بھی اپنے گھر سے باہر نکلے تو ان کے لباس کا کلف اور اس کا اجلا پن لوگوں کی آنکھوں میں کھب گیا۔ بچے جب ان کے قامت کے برابر ہوئے تو مشکلیں بھی کچھ کم ہوئیں۔ راحتیں بھی ملیں لیکن عمر کے آخری دہے میں تنویر نے زندگی کی دوڑ میں ان سے اور بھابھی سے آگے نکل کر دونوں کی کمر توڑ دی۔ جوان بیٹے کا گہوارہ اٹھانے کا غم صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس عذاب سے گزرے ہوں۔
تعلیم و تدریس اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ہی وہ''ارتقاء'' کتابی سلسلے سے ابتداء سے جڑے رہے ' کبھی تعلیم پر سیمینار کا اہتمام ہورہا ہے' کبھی فراق اور جوش کی محفل آرائی میں پیش پیش ہیں۔ میں نے انھیں کبھی کسی سے ناراض ہوتے نہیں دیکھا' اگر دوستوں سے شکایت بھی ہوئی تو زیر لب گلہ کرکے رہ گئے۔
وہ جس عہد کی پیداوار تھے اس نے ہمیں نصیر صاحب جیسے آدرش وادی انسانوں سے مالا مال کیا۔ پاکستان آنے کے بعد ان کی ساری زندگی سندھ میں گزری، سندھی ادیبوں سے ان کی گہری دوست داری تھی اور سندھی ادب سے ان کا رشتہ تھا، اس حوالے سے انھوں نے خوب خوب لکھا ۔
پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ا ن کے مضامین کا مجموعہ ان کی رخصت کے بعد مرتب کیا۔ انھیں طالب علموں کے مستقبل، ملکی سیاسیات اور معیشت کے معاملات سے گہری دلچسپی تھی، وہ سماج کے زوال سے کس قدر آزردہ تھے اور اس کو سنوارنے کی کیسی تڑپ رکھتے تھے، ان کا یہ درد دل ان کے مضامین کی ہر سطر میں جھلکتا ہے۔ان کی شخصیت اور تحریری زندگی کا ایک پہلو شگفتہ بیانی اور کسی سنگین مسئلے کے بارے میں چپکے سے چٹکی لے لینا بھی تھا۔ مشاعروں پر لکھنے بیٹھے تو یہ لکھے بغیر نہ رہ سکے کہ:ـ
''اردو غریب ہے... اردو نوکروں کی زبان ہے... ہوگی... لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جب اس غریب زبان میں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں تو وہ بیگمات جو اردو کو نوکروں کی زبان سمجھتی ہیں اپنے سنگھار سے تھوڑا وقت نکال کر کاغذ پنسل ہاتھ میں لے کر مشاعرے کی اگلی صفیں گھیر لیتی ہیں اور ایک ادا کے ساتھ آنکھوں کی پتلیاں گھماتی ہیں اور پیروں سے تال دیتی جاتی ہیں...ہمارے ملک میں فیض کی طرح مشاعروں کو بھی ہمہ گیر مقبولیت حاصل ہے۔ سلیولیس (ابھی ٹاپ لیس ہمارے یہاں نہیں چلا) بلاؤزر پہننے والی محترمہ ہوں یا برقعہ پہننے والی بُوبُو، سول سروس کا افسر ہو یا میونسپل کمیٹی کا سینیٹری جمعدار، سیٹھ ہو یا مزدور غرض کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ محمود اگلی صف میں اپنی بیگم کے ساتھ اسمگل شدہ کریون اے کے مرغولے بناتا رہتا ہے اور ایاز کہیں پیچھے بیٹھا بیڑی کا گندا دھواں پھینکتا رہتا ہے اور جب فیض یہ شعر سناتے ہیں کہ:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
تو دار پر پہنچانے والے اور دار پر پہنچنے والے دونوں ہی مکرر پکار اٹھتے ہیں۔''
اسی طرح دور ایوبی میں پاکستان کے چیف جسٹس رستم الزماں کیانی کے بارے میں قلم اٹھایا تو لکھا کہ ''اگر ہم لفظ کیانی کو آزادی تحریر و تقریر کی جگہ استعمال کرنے لگیں تو اس کے یہی معنی ہوجائیں گے اور ترقی اردو بورڈ مجبور ہوگا کہ Freedom of speech کے معنی'' کیانی'' لکھے۔ اسی مضمون میں آگے چل کر لکھتے ہیں۔ '' جسٹس صاحب تو صرف ہنسنے ہنسانے کے لیے بے پر کی اڑایا کرتے تھے۔ کبھی ایران کی اڑاتے تو کبھی توران کی۔ برٹش المنائی ایسوسی ایشن کے ڈنر میں تقریر کرتے ہوئے برطانوی جمہوریت کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریت کی بات لے بیٹھے۔ کہنے لگے برطانیہ میں بادشاہت ہوتے ہوئے بھی بادشاہ عوام کا محتاج ہے اور جب کبھی بولتا ہے تو عوام کے نمایندے کی حیثیت سے۔ پھر کہنے لگے اسلامی جمہوریت کو بہت ڈھونڈا کہیں نہیں ملی۔ پہلے خلیفہ کا انتخاب ہوا تو صرف دس افراد کا الیکٹورل کالج تھا۔ دوسری بار الیکٹورل کالج کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور نامزدگی سے ہی کام چل گیا''۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ان باتوں کا برٹش الی مونائی ایسوسی ایشن یا پاکستان سے کیا تعلق؟''
اسی طرح کسی محفل میں نصیر صاحب سے کہا گیا کہ عورت پر اقبال کے ظلم و ستم کے بارے میں کچھ کہہ دیجیے تو یہ کہہ آئے کہ''جاوید نامہ' میں اقبال نے تجرد پسند عورت کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس سے بھی یہی بات پتہ چلتی ہے کہ وہ ایسی آزادی کے خلاف تھے جو عورت کی نسوانیت اور معصومیت چھین لے اور یہی بات اقبال نے 'عورت اور تعلیم'' میں کہی کہ:
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب ہنر موت
جب میں نے یہ مضمون اپنی بیوی کو سنایا تو وہ کہنے لگیں کہ مرد پھر مرد ہے۔ وہ عورت پر اقبال کے جوروستم کی کیا داستان لکھے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ضرور ڈنڈی مار جائے گا۔ اقبال تو صرف یہ چاہتا تھا کہ عورت بچے پالے اور باورچی خانے میں گھسی رہے تاکہ وہ مردوں کی ہمیشہ دست نگر رہے ان کے یہ کہتے ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ہٹلر نے بھی یہی کہا تھا کہ
"She must go back to the kitchen"
ایسے کاٹ دار جملے ان کے یہاں جا بجا ملتے ہیں۔
ایسے استاد، ادیب، دانشور اٹھ جائیں تو زندگی مفلس کی قبا ہوجاتی ہے۔ مجھے اور ان کے بہت سے نیاز مندوں کواب اسی مفلسی کا سامنا ہے۔ لیکن یہ غنیمت ہے کہ ہمارے لیے وہ اپنی تحریروں کا توشہ چھوڑ گئے ہیں۔