شہزاد احمد کی یاد میں

شہزاد احمد جو گزشتہ برس یکم اگست کو حرکت قلب اچانک بند ہو جانے کی وجہ سے اس دنیا سے اٹھ گئے تھے۔۔۔


انور سدید August 03, 2013

شہزاد احمد جو گزشتہ برس یکم اگست کو حرکت قلب اچانک بند ہو جانے کی وجہ سے اس دنیا سے اٹھ گئے تھے' اردو کے ممتاز شاعر اور نامور مترجم ہونے کے علاوہ انسانی زندگی پر نفسیاتی حوالوں سے اور کائنات کے اسرار کو فزکس اور کوانٹم تھیوری سے سمجھنے والے دانشور تھے۔ انھوں نے اپنی دانش کو مطالعے کی کثرت سے فروغ دیا اور نفسیات کو اپنے مزاج کا اس طرح حصہ بنایا کہ یہ علم اشیا' مظاہر اور شخصیات کو کھوجنے کے لیے ان کی عینک بن گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی ابتدائی زندگی کلاسیکی ادب کے گہوارے میں گزری' ان کو ادب کی پہلی گھٹی اپنی والدہ سے ملی جنھیں سعدی شیرازی کی کتاب ''گلستان'' اور ''بوستان'' زبانی یاد تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں انھیں مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ''آب حیات'' نے متاثر کیا اور ''مہتاب داغ'' پڑھی تو ان کے باطن کا شاعر بیدار ہو گیا۔

ان کے بچپن کے دوست صلاح الدین ندیم نے مجھے بتایا کہ بیت طرازی کے مقابلوں میں شہزاد احمد... امیر مینائی' فانی بدایونی' اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی کے اشعار زیاہ پیش کرتے تھے۔ امرتسر کے ایم اے او کالج میں داخل ہوئے تو پرنسپل صاحبزادہ محمود الظفر اور انگریزی کے استاد فیض احمد فیض نے ان کے شوق ذوق کو خصوصی طور پر سنوارا۔ چنانچہ ان کا نام ظہیر کاشمیری' سیف الدین سیف' احمد راہی' عارف عبدالمتین' حسن بخت اور طفیل دارا جیسے شاعروں کے ساتھ لیا جانے لگا۔ سیف الدین سیف نے امرتسر سے رسالہ ''نرگس'' جاری کیا تو اس میں شہزاد احمد کی غزلیں شامل کیں۔ اور ''نرگس'' کے ''نظم نمبر'' میں ان کی دو نظمیں شائع ہوئیں تو ان کی گونج دور دور تک سنی گئی۔ اس وقت شہزاد کی عمر صرف 15 برس تھی۔شہزاد احمد سولہ اپریل 1932 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔آزادی کے بعد شہزاد احمد اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آ گئے۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات میں ایم اے کیا۔ انھوں نے دوسرا ایم اے 1955 میں فلسفے کے مضمون میں کیا۔ مظفر علی سید کی دوستی نے انھیں نئے علوم کے مطالعے کی طرف راغب کیا جو ان کے علمی اور ادبی ارتقاء میں بہت معاون ثابت ہوا۔ شہزاد احمد نے پہلی سرکاری ملازمت تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں بطور پبلک ریلیشنز آفیسر کی۔ لیکن اس دور کے جوہر آباد کے ویرانے انھیں راس نہ آئے۔ بتاتے تھے کہ وہ ہر اتوار کو سرگودھا آ جاتے جہاں ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ مجلس آرائی کر کے اور مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ تعلق اتنا گاڑھا ہو گیا کہ شہزاد احمد کے ساتھ لاہور میں بھی قائم رہا۔ وزیر آغا لاہور آئے تو سب سے پہلے شہزاد احمد کو فون کرتے اور رات گئے تک محفل جمی رہتی۔ شہزاد احمد نے تھل ترقیاتی ادارے کی اعلیٰ ملازمت ترک کی تو سائیکل بنانے والوں کی فرم میں ملازم ہو گئے۔ بھٹو صاحب کے دور میں وہ سوئی پلانٹ پر جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ ٹیلی ویژن پر انھیں اسکرپٹ ڈائریکٹر بنایا گیا لیکن وہ کسی ملازمت کے ساتھ اپنی آزاد اور سیلانی طبیعت کی وجہ سے منسلک نہ رہ سکے۔

تاہم ادب اور شاعری کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ مضبوط تھی اور یہی ان کی پہچان بن گئی۔شہزاد احمد کی شاعری کی پہلی کتاب ''صدف'' 1958 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد چھپنے والی کتابوں میں ''جلتی بجھتی آنکھیں،ادھ کھلا دریچہ،خالی آسمان،بکھر جانے کی رت،دیوار پر دستک،ٹوٹا ہوا پل،کون اسے جاتا دیکھے،پیشانی میں سورج،اترے مری خاک پر ستارہ اورمٹی جیسے لوگ'' بہت مشہور ہیں۔ پنجابی شاعری کی کتابیں اس سے الگ ہیں۔ شہزاد احمد پر 1984 میں دل کا پہلا دورہ پڑا تو وہ کراچی کے ایک ادبی جلسے میں شامل تھے۔ انھیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی کلینکل ڈیتھ ہو چکی ہے' لیکن بجلی کے جھٹکے لگانے سے ان کی حرکت قلب جاری ہو گئی اور کچھ عرصے کے بعد وہ ادویات پر انحصار کر کے معمول کی زندگی گزارنے لگے۔موت کے اس تجربے کا ذکر آیا تو شہزاد احمد نے بتایا کہ انھیں اس فضائے مرگ میں اچانک آواز آئی ''شہزاد اٹھو اور اڑو'' میں نے کہا ''میں اڑ نہیں سکتا' میرے پر نہیں ہیں''۔

پھر آواز آئی ''پروں کے بغیر اڑنے کی کوشش کرو'' اور میں نے کوشش کی تو واقعی اڑنے لگا لیکن اس لمحے مجھے جھٹکا لگا اور میں اپنے پلنگ پر پڑا تھا۔'' شہزاد بتاتے ہیں کہ انھیں اس علالت کے دوران کئی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ مدینے کی گلیوں میں پھر رہے ہیں اور خاک مدینہ کو بوسے دے رہے ہیں۔ جب صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نعت کہنی شروع کر دی۔ ان کے کمرے میں مسجد نبویﷺ کی ایک بڑی تصویر آویزاں ہو گئی۔دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ شاعری کے ساتھ شہزاد احمد نثر اور ترجمے کی طرف آ گئے۔ انھوں نے بیکاری کا یہ کڑا دور دیکھا لیکن کسی کو اپنی معاشی پریشانی کا پتہ نہیں لگنے دیا۔ اس دور میں انھوں نے انگریزی کتابوں کے تراجم سے رزق حلال پیدا کیا اور اپنی خودی اور خودداری کو قائم رکھا۔ شہزاد احمد کی نثر کی کتابوں میں ''مذہب' تہذیب اور موت'' ...''ذہن انسانی کا حیاتیاتی پس منظر''... ''سائنسی انقلاب'' اور ''دوسرا رخ'' وغیرہ شامل ہیں۔

نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی ایک کتاب ان سے ترجمہ کرائی جو ''ارمان اور حقیقت'' کے نام سے شائع ہوئی۔ ''تخلیقی رویے'' ''سائنس کے عظیم مضامین'' اور ''نفسی طریق علاج میں مسلمانوں کا حصہ'' ان کے تراجم کی دیگر کتابیں ہیں۔ انگریزی میں علامہ اقبال کے خطبات کا ترجمہ بھی شہزاد احمد نے رواں اردو میں کیا تھا۔ ان کی ترجمہ شدہ کم از کم دس کتابیں اب بھی زیر اشاعت ہیں۔شہزاد احمد کو 2006 میں مجلس ترقی ادب کا ناظم مقرر کیا گیا۔ قائداعظم لائبریری کے ادبی مجلہ ''مخزن'' کا مدیر بنایا گیا۔ شہزاد احمد نے یہ دونوں خدمات اپنے پیش روؤں سے بہتر انجام دیں اور مجلس ترقی ادب کو منافع بخش ادارہ بنا دیا جس کی لائبریری سے اب سیکڑوں طلبا استفادہ کرتے ہیں۔ شہزاد احمد کو ان اعلیٰ خدمات پر صدر پاکستان کا تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ اس کے علاوہ شاعری کی کتابوں پر آدم جی ایوارڈ' علامہ اقبال پرائز اور نقوش ایوارڈ بھی دیے گئے۔ مجلسی مزاج کے شہزاد احمد کشادہ نظر ادیب اور روشن خیال دانشور تھے۔ انھوں نے نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ سرپرستی کی اور ان کے ذوق کو سنوارنے میں گراں قدر حصہ لیا۔ میں ان کی پہلی برسی پر انھیں یاد کر رہا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے ساتھ باتیں کر رہے ہیں اور اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

مقبول خبریں