فتح پور کے دو بیٹے
فرمان صاحب ایک بھری پرُی، علمی، ادبی اور تخلیقی زندگی گزار کر 3 اگست 2013 کو میٹھی نیند سو گئے۔
دریائے گنگا کے کنارے فتح پور اور الہ آباد کے درمیان ایک چھوٹا ساقصبہ ہسوا ہے جسے یہ شرف حاصل ہے کہ وہاں علامہ نیاز فتح پوری اور بہت بعد میں سید دلدار علی المعروف بہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اشراف کے بیشتر گھرانے سادگی اور قناعت کی زندگی بسر کرتے، فخر اس پر کرتے کہ ان کے گھروں کے صندوقوں اور طاقچوں میں کتنے قدیم مخطوطے اور کتنی علمی اور ادبی کتابیں رکھی ہیں۔ ان کے بیٹے کن مدرسوں میں پڑھتے ہیں یا جدید تعلیم انھوں نے کن کالجوں اور یونیورسٹوں سے حاصل کی ہے۔ ان گھرانوں میں مشہور عالم، ادیب اور شاعر مہمان ہوتے۔ ادبی محفلیں جمتیں، جن میں آس پاس کے قصبوں اور چھوٹے شہروں سے باذوق حضرات شریک ہوتے۔ کسی گھر کے لیے یہ بات باعث عزت ہوتی کہ ان کے گھر میں جید علما اور نامی گرامی شعرأ مہمان ہوتے ہیں۔
فرمان صاحب ایک بھری پرُی، علمی، ادبی اور تخلیقی زندگی گزار کر 3 اگست 2013 کو میٹھی نیند سو گئے۔ وہ جس عہد کی پیداوار تھے۔ وہ ختم ہوا، اب ان لوگوں کی جگہ پُر کرنے والا کوئی نہیں۔ یہاں سے وہاں تک سناٹا ہے اور کیوں نہ ہو کہ علم، ادب، تہذیب، متانت اور شرافت اصحاب کہف کے ساتھ طویل نیند سوتی ہے اور سکۂ رائج الوقت دولت اور جھوٹی شہرت ہے۔ دوسروںکے تخلیقی کاموں کو خرید کر اپنے نام سے چھپوانے والوں اور داد بٹورنے والوں کے پرے ہیں جو رسائل و اخبارات کے صفحوں اور ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نظر آتے ہیں۔
فرمان صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا آبائی گائوں ہسوا، فتح پور اور الہ آباد کی سرحد پر نئی تہذیبی زندگی کی روشنی سے بہت دور واقع تھا۔ ڈاک خانہ، مڈل اسکول، تھانہ اور ریلوے اسٹیشن ان کے گائوں سے لگ بھگ چھ میل کے فاصلے پر تھے۔ متوسط طبقے کے زمیندار گھرانے کے مرد اردو کے ساتھ فارسی داں بھی ہوتے تھے۔ آس پاس کے کسی بڑے شہر سے کوئی عزیز آتا تو اپنے ساتھ اخبارات اور اس وقت کے اہم ادبی رسائل کا پلندا بھی لاتا جسے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ ہی کم عمر لڑکے اور نوجوان ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ یہی وہ روش تھی جس نے سید دلدار علی کو شاعری اور ادب کی طرف راغب کیا۔ وہ 1926 میں پیدا ہوئے تھے جب کہ نیاز صاحب کا جاری کردہ رسالہ ''نگار'' 1922 سے ہندوستان کے علمی اور ادبی حلقوں میںدھوم مچا رہا تھا۔
علامہ نیاز فتح پوری اپنے علاقے میں اسی طرح کی شہرت رکھتے تھے جیسے اب ہمارے یہاں کرکٹ کے کھلاڑی رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر اپنے گائوں سے مڈل پاس کرکے آگے پڑھنے کے لیے سید دلدار علی کو فتح پور بھیجا گیا تو وہ نوجوان کیوں نہ اپنے علاقے کے 'آئیکون' کی پیروی کرتا؟
دلدار سے فرمان کی طرف کا سفر اتنا طویل نہ تھا لیکن اس کے بعد ادیب، استاد، محقق اور لغت نویس بننے کا وہ کٹھن سفر شروع ہوا جس نے دریائے گنگا کے کنارے سانس لینے والے ایک چھوٹے سے قصبے کے نوجوان کو اردو ادب کے اہم ترین ناموں میں سے ایک بنادیا۔
تحقیق اور تنقید نے، لغت نویسی کی مشقتوں نے ان کی شگفتگی اور بزلہ سنجی کو ذرا سا بھی نہیں گہنایا تھا۔ گلشن اقبال کی جس سڑک پر ان کا اور پروفیسر کرار حسین مرحوم کا گھر تھا، وہاں سے میری گلی بہ مشکل دس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ دونوں مرحومین کے گھر آنا جانا رہا، فرمان صاحب سے ''نگار'' کے ''خدا نمبر'' اور ''قرآن نمبر'' پر بحثیں رہیں۔ وہ اردو ڈکشنری بورڈ میں رہے، وہاں بھی میں نے بارہا حاضری دی۔ ان کی تحقیق اور تنقید پر لغت نگاری کے باب میں ان کی مہارت پر عالم و فاضل حضرات لکھیں گے لیکن میں ان کے اس عشق کی قائل ہوں جو انھیں علامہ نیاز فتح پوری سے تھا۔ یہ ''عشق'' فتح پور کے مدرسۂ اسلامیہ سے شروع ہوا اور ماہ وسال کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور آخری سانس تک وہ علامہ نیاز اور ان کے ''نگار'' کے ساتھ جڑے ہوئے رہے۔ اسے اپنا خون پلا کر پالتے پوستے رہے۔ ترقی پسندوں نے فرمان صاحب کو اپنے حلقے میں شامل نہ سمجھا اور ان سے غیر ترقی پسند اس لیے ناراض رہے کہ وہ علامہ نیاز فتح پوری ایسے روشن خیال اور خرد افروز عالم کے عاشقِ صادق تھے۔
علامہ نیاز کے پاکستان آنے اور کراچی میں ان کے قیام کا ایک سبب فرمان صاحب بھی تھے۔ ''نگار'' جو لکھنؤ سے نکلتا تھا کراچی سے شایع ہونے لگا اور فرمان صاحب اپنے تمام ذاتی مسائل و معاملات کے ساتھ ساتھ ''نگار'' کے لیے قلمی اور علمی معاونت کرنے لگے جب کہ 1950 سے ان کے مضامین نگار میں شایع ہورہے تھے۔ یہ بھی علامہ نیاز فتح پوری تھے جنہوں نے فرمان صاحب کی اس خواہش کو رد کردیا کہ وہ ایل ایل بی کرکے وکالت کریں۔ یہ بھی علامہ تھے جنہوں نے انھیں ایم اے اور بی ٹی کرنے پر اکسایا تاکہ محکمہ تعلیم میں ان کو اچھی جگہ مل سکے۔
فرمان صاحب کی ذاتی، علمی اور تحقیقی زندگی پر علامہ نیاز کے کتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور انھوں نے کس طرح اپنے اس عشق کو اپنی زندگی کا محور بنایا، اس کا اندازہ فرمان صاحب کے اس اداریے سے ہوتا ہے جو انھوں نے علامہ صاحب کی رخصت پر ''نگار'' میں لکھا تھا:
''اردو کا وہ آفتاب جس کی کرنوں سے علم و فکر کے ایک دو نہیں صد ہا پہلو روشن تھے، ڈوب گیا۔ آزادیٔ فکر اور بے لاگ اظہارِ خیال کی قند یلیں بجھ گئیں۔ اب ایوانِ اردو میںد ور تک اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ سرسید، مولانا حالی، محمد حسین آزاد، نذیر احمد اور شبلی کے تبحر علمی اور فکر و فن کی یاد تازہ رکھنے والا اب کوئی باقی نہ رہا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولوی عبدالحق پہلے ہی رخصت ہوچکے تھے۔ نیاز فتح پوری کے نام سے ایوان کی ایک شمع دلیلِ سحر بنی ہوئی تھی۔ سو وہ بھی خاموش ہوگئی اور اردو کے نہ جانے کتنے ادیبوں ، شاعروں اور دانش وروں کو سیہ پوش کرگئی۔
نیاز صاحب اپنی ذات سے ایک ادارہ، ایک مکتبہ فکر اور ایک تحریک تھے۔ ہر چند کہ وہ طبعاً عزلت پسند و گوشہ گیر تھے۔ کم آمیز و کم سخن تھے، لیکن غالب کے اس شعر کے ترجمان تھے کہ:
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
وہ گزشتہ پینسٹھ ستر سال سے مکمل لکھ رہے تھے اور ایسی انفرادیت کے ساتھ کہ ان کی کسی تحریر کو حرفِ مکررکہنا مشکل ہے۔ صحافت، ادبی تنقید، انشائیہ، مکتوب نگاری، تاریخ اسلام،جمالیات، افسانہ، ناولٹ، تحقیق، علوم عقلیہ، مذہبیات، نفسیات اور معلوماتِ عامہ، سب پر انھوں نے قلم اٹھایا اور اپنے مخصوص اسلوبِ وطرز فکر کی بدولت ایسا نقش چھوڑ گئے ہیں کہ اردو میں جب بھی یہ موضوعات و مسائل علمی و فنی انداز سے زیر بحث آئیں گے۔ علامہ مرحوم کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ان کی یہ ہمہ جہتی و ہمہ گیری انھیں بیسویں صدی کے دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتی ہے۔
نیاز صاحب حقیقتاً سرسید اور شبلی کے ملے جلے دبستان فکر و ادب کی آخری یادگار تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عربی ، فارسی، ترکی، انگریزی کے بعض شاعروں اور مفکروں کا اثر بھی ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی عقلیت و مذہب کے باب میں وہ سرسید سے اور شعر فہمی و ادبیت میں شبلی نعمانی سے بہت قریب تھے۔ طرز فکر اور اسلوب تحریر دونوں میں انھوں نے اجتہادی شان پیدا کرلی تھی''۔
فرمان صاحب نے درجنوں کتابیں لکھیں، ان کے مقالات کے تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ''نگار'' کے نادر ونایاب شماروں کو دوبارہ سے شایع کرنا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے موضوعات پر ہیں جو آج کے دور میں گردن زنی سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے نیاز صاھب کی یاد میں سالانہ لکچر ''نیاز و نگار'' کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں ہندوستان اور پاکستان کے نامور ادیبوں نے کلیدی خطبات دیے۔ دنیا کی خواتین کے بارے میں نیاز صاحب نے اب سے دہائیوں پہلے ایک خصوصی شمارہ ''گہوارہ تمدن'' کے عنوان سے شایع کیا تھا۔ آج کے فیمینزم کی رہنمائی کرتی ہوئی علامہ کی ایک بے مثال تحریر۔ ڈاکٹر فرمان کی رخصت کے ساتھ فتح پور کے ان دو بیٹوں کی کہانی ختم ہوئی جو نادر و بے مثال تھی۔ ایسے مرشد اور ایسے مرید اب کہاں پیدا ہوں گے۔ وہ زمانہ رخصت ہوا، اس کے ساتھ ہی وہ شمعیں بھی سیہ پوش ہوئیں جو ہمارے ادبی اور تہذیبی ایوانوں میںاجالا کرتی تھیں۔