مجسم اردو بابائے اردو مولوی عبدالحق…
بابائے اردو ایک ادارہ کے طور پر کام کرتے تھے اور وہ ہر منزل پر اپنے گزشتہ کام کو جانچتے رہتے تھے۔
بابائے اردو کی ذات اپنی تمام تر فکر کے حوالے سے مجسم اردو کے زمرے میں آتی ہے۔ بابائے اردو نے اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آج اگر اردو اپنے مختلف حوالوں سے زندہ ہے وہ چاہے اردو یونی ورسٹی ہو، انجمن ترقی اردو ہو، اکادمی ادبیات پاکستان کی صورت میں ہو یا پھر اردو ڈکشنری بورڈ کے حوالے سے، ہر حوالہ بابائے اردو پر جاکر ختم ہوتا ہے۔
دنیا سوچتی ہوگی کہ میں نے یہ کیا لکھ دیا کہ اردو کے حوالے سے اتنے مستحکم ہوسکتے ہیں اور وہ بھی صرف بابائے اردو کے حوالے سے۔ یہاں مجھے یہ بات لکھتے ہوئے اطمینان ہورہا ہے کہ بابائے اردو نے ولی دکنی، قلی قطب شاہ سے ہوتے ہوئے میر، غالب، ذوق، مومن، ناسخ، آتش، انیس، دبیر، جگر، اصغر، فانی، اقبال، فیض، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پور، ڈاکٹر اسلم فرخی، جمیل الدین عالی تک اردو کو منزل بہ منزل دیکھتے ہیں تو ہم اس بات کو کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر بابائے اردو نہیں ہوتے تو جو شکل آج اردو کی ہے یقیناً وہ کسی طور پر نہ ہوتی اور بنیاد کا پتھر بھی نظر نہیں آتا۔
ایس اے رحمن اپنے مضمون میں بابائے اردو کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
''ڈاکٹر مولوی عبدالحق اپنی ذات میں خود انجمن اردو ہیں، ان کی ساری عمر اردو کی خدمت میں گزری ہے کہ بابائے اردو کا خطاب مولوی عبدالحق کے قامت پر راست آتا ہے''۔
بابائے اردو ایک ادارہ کے طور پر کام کرتے تھے اور وہ ہر منزل پر اپنے گزشتہ کام کو جانچتے رہتے تھے تاکہ اگلے کام کے سلسلے میں کسی بھی ابہام کا سامنا نہ ہو اور راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ بابائے اردو سے ان کے ساتھیوں کو بہت سی شکایتیں بھی ہوئی تھیں، جسے بابائے اردو سمجھتے تھے مگر وہی بات کہ وہ اپنے کام کو ایک تسلسل سے کرنے کے عادی تھے اور جو افراد بابائے اردو سے اختلاف رکھتے تھے وہ بھی سارے اختلافات کے باوجود بابائے اردو کے محاسن اور اردو دوستی پر ان کی قدر کرتے تھے اور اردو زبان و ادب کا محسن مانتے تھے۔ اس سلسلے میں جوش ملیح آبادی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ ''قومی زبان'' کے بابائے اردو نمبر جلد 2، شمارہ 8، 1964 میں جوش ملیح آبادی اداریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
''مولوی صاحب کو اردو سے انس نہیں، محبت تھی۔ محبت نہیں، ان کو اردو سے عشق اور دیوانہ وار عشق تھا، جس کو والہیت کہا جاسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے اردو پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا تھا۔ لیکن ایک راست باز برہنہ گفتار انسان کی حیثیت سے میں یہ بھی عرض کردینا چاہتا ہوں کہ اپنی سی تمام کوششیں کرنے کے باوصف اپنے کو کبھی اس قابل نہ بناسکا کہ عقیدت کے دوش بدوش میں مولوی صاحب کی ذات سے بھی محبت کرسکوں۔ مجھے ان سے اپنے نزدیک بہت سی بجا شکایتیں تھیں اور ان کی بہت سی باتوں سے مجھ کو شدید اختلاف تھا، مولوی صاحب کو بھی میری قلبی کیفیت کا علم تھا اور اسی بنا پر وہ مجھ سے اکثر کھنچے کھنچے رہتے تھے، لیکن اس کے باوجود یہ میری ذہنی بددیانتی ہوگی کہ میں مولوی صاحب کے بے شمار محاسن اور ان کی اردو پرستی کے اظہار میں پس پیش سے کام لوں اور یہ نہ کہوں کہ مولوی صاحب کی موت نے اردو کا سہاگ لوٹ لیا۔
مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ، اردو کی بہترین تمنائیں اور فروغ اردو کے بہترین عزائم دفن ہوکر رہ گئے''۔ مولوی عبدالحق ابتدا ہی سے یہ سمجھتے تھے کہ اردو زبان مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان ہے اور یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا عکس ہے، اسی تہذیب و ثقافت کے باعث ہم لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوگا، مگر بابائے اردو کو اس وقت شدید دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے گاندھی کے یہ الفاظ اکھیل بھاتیہ پریشد موکل ہند ادبی کانفرنس کے ناگپور کے اجلاس میں سنے:
''اردو مسلمانوں کی زبان ہے، یہ قرآن کے حروف میں لکھی جاتی ہے، اسے مسلمان بادشاہوں نے پھیلایا ہے اور مسلمان چاہیں تو اسے زندہ رکھیں''۔
بابائے اردو جن کی ہمیشہ سے یہ سوچ رہی کہ اردو بنانے اور سنوارنے میں برصغیر کے تمام افراد نے ساتھ دیا ہے مگر جب گاندھی کے یہ الفاظ بابائے اردو نے سنے تو فوراً فیصلہ کیا کہ اردو کا مرکزی دفتر جو دکن کے ایک گوشہ اورنگ آباد میں واقع ہے اسے فوراً کسی مرکزی شہر میں منتقل کردیا جائے، چنانچہ 1932 میں بابائے اردو نے اردو کے چاہنے والوں کی ایک کانفرنس علی گڑھ میں بلائی اور اس فیصلے کی توثیق چاہی۔بابائے اردو نے 1947 قیام پاکستان کے وقت محسوس کرلیا تھا کہ انجمن ترقی اردو کا مرکز پاکستان میں ہونا چاہیے اور پھر انھوں نے قیام پاکستان کے بعد انجمن کے دفتر کو کراچی منتقل کردیا۔
اردو یونی ورسٹی کے بن جانے سے بابائے اردو کی روح کو چین نصیب ہوا ہوگا جس کے بنانے میں سابق صدر پرویز مشرف، ڈاکٹر جمیل الدین عالی، عطاء الرحمن اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کے لاکھوں چاہنے والوں کی دعائیں شامل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اردو کی بقا اسی میں ہے کہ ہم بابائے اردو کے اقوال پر غور کریں اور صدق دل سے ان پر عمل کریں تاکہ اردو زبان حقیقت میں اپنی مکمل روح کے ساتھ پاکستان کی قومی زبان کے طور پر پاکستان کے طول و عرض میں رائج ہوجائے کیونکہ یہی ہماری ثقافت، معاشرت، تہذیب اور تمدن کی بقا بھی ہے اور یہی اگلی نسلوں کی فکر کا محور بھی۔
(بابائے اردو مولوی عبدالحق کی 52 ویں برسی پر لکھا گیا خصوصی مضمون)