علی سردار جعفری صبحِ فردا کا انتظار

علی سردار جعفری نے جنگ گزیدگی اور جنگ جوئی کے خلاف اپنے قلم سے آخری سانس تک لڑائی لڑی۔


Zahida Hina August 17, 2013
[email protected]

HYDERABAD: ایک ایسے زمانے میں جب برصغیر کی سرحدوں پر جنگ پسندوں نے ایک بار پھر اپنی آتش بار انگلیوں سے خون کی لکیر کھینچ دی ہے، علی سردار جعفری بے اختیار یاد آتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ستمبر 1965 ء کی خونیں جنگ کے فوراً بعد امن کے خوابوں اور خواہشوں کی آرزو میں جو نظمیں لکھیں وہ 1966ء میں ''پیراہنِ شرر'' کے نام سے شائع ہوئیں اور ان ہی میں سے ایک ان کی طویل نظم ''صبحِ فردا'' تھی:

اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہو کے دو ٹکڑے... اسی سرحد پہ کل زخمی ہوئی تھی صبح آزادی... یہ سرحد خون، اشکوں، آہوں کی، شراروں کی... جہاں بوئی تھی نفرت اور تلواریں اُگائی تھیں... یہاں معشوق چہرے آنسوئوں میں جھلملائے تھے... یہاں بیٹیوں سے ماں، پیاری بہن بھائی سے بچھڑی تھی... یہ سرحد جو لہو پیتی ہے اور شعلے اُگلتی ہے... ہماری خاک کے سینے پہ ناگن بن کے چلتی ہے... سجا کر جنگ کے ہتھیار میداں میں نکلتی ہے... میں اس سرحد پہ کب سے منتظر ہوں، صبحِ فردا کا!

اسی سلسلۂ خیال میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ:

ہمارے پاس ہے کیا دردِ مشترک کے سوا... مزا تو جب تھا کہ مل کر علاجِ جاں کرتے... خود اپنے ہاتھ سے تعمیر گلستاں کرتے... ہمارے درد میں تم اور تمہارے درد میں ہم... شریک ہوتے تو پھر جشنِ آشیاں کرتے... تم آئو گلشنِ لاہور سے چمن بردوش... ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر... ہمالیہ کی ہوائوں کی تازگی لے کر... اور اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے؟

یہ وہی نظم ہے جس کے چند مصرعے انھوں نے 1999ء میں پاکستان اور ہندوستان کی سرحد پر اس وقت سنائے تھے جب وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کی دعوت پر ہندوستانی وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ اس نظم پر انھیں دونوں ملکوں میں بہت داد ملی تھی۔ وہ لوگ جو دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کے رشتے پر یقین نہیں رکھتے، جن کا خیال ہے کہ ان دونوں ملکوں کے مجبور اور مفلس کروڑوں بدحال لوگوں کا مقدر صرف اسی وقت بدل سکتا ہے جب ان کے حکمران یہ سمجھیں کہ ہمارے لوگوں کی اور خطے کی خوشحالی جنگ کی تیاریوں سے نہیں، امن کی کار گزاریوں سے وابستہ ہے۔

علی سردار جعفری کا شمار برصغیر کے ان شاعروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے جنھوں نے جنگ گزیدگی اور جنگ جوئی کے خلاف اپنے قلم سے آخری سانس تک لڑائی لڑی۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو سیاست کے عالمی رجحانات سے گہری شناسائی رکھتے تھے۔ انھوں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ فرنگی کی جیل کاٹی تھی اور پھر آزاد ہندوستان میں بھی قید و بند کا ذائقہ چکھا تھا۔ تاریخِ عالم کے مطالعے نے انھیں بتایا تھا کہ ابتدأ سے آج تک انسان نے خواب دیکھے ہیں اور پھر ان خوابوں کو ملیا میٹ ہوتے بھی دیکھا ہے۔ لیکن خوابوں کی اس رائیگانی کے باوجود اس نے آنے والے دنوں میں خواب دیکھنے سے کنارہ نہیں کیا۔ اس کی حسین خواہشیں کبھی برگ و بار لائی ہیں اور کبھی ان پر خزاں کا موسم گزرا ہے۔ انسان نے کبھی فطرت کی ستم رانیوں اور فراعنہ کی حکمرانیوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور وہ کبھی بھی اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوا کہ وہ خواب دیکھے اور اپنی آئندہ نسلوں کی آنکھوں میں ان خوابوں کو کاشت کر دے۔ فطرت کی قہر مانیوں سے لڑنے والا انسان آج اگر کائنات کی سیر کو نکلا ہوا ہے اور مریخ کے بلند و پست کی خبر لا رہا ہے تو اس کا سبب خواب دیکھنے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی انسانی سرشست ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کی کشمکش اور کُشت و خون کی ہوس کے صحرا میں کھڑے ہو کر بھی سردار جعفری ہندو مسلمان، برہمن اور سید، راجپوت اور اچھوت کی تقسیم سے بالا تر ہوکر یہی کہتے رہے کہ

میرا آدرش انساں ہیں

وہ مرا دین و ایماں ہیں

ان کے ناموں سے اخبار و تاریخ واقف نہیں

ان کے ماتھوں پہ عظمت کی کلغی نہیں

سر پہ ادبار ہے

پیٹھ پر بوجھ ہے

ان کو شہرت کی کوئی ہوس نہیں

نہ عزت کی خواہش

نہ انعام و اکرام کی جستجو

ان کا یہی آدرش تھا جس نے انھیں سرحدوں سے ماورا ہو کر امن کے خواب دیکھنے کی جستجو میں سرگرم رکھا۔ اسی تناظر میں ایک جگہ انھوں نے لکھا کہ ''نئے خواب دیکھنا انسان کا ایک ایسا حق ہے جس سے کوئی طاقت، کوئی مقتدر اسے محروم نہیں کر سکتا اور شاید یہی انسان اور انسانیت کے مستقبل کی ضمانت ہے۔''

لاشوں سے پٹے ہوئے میدانوں میں خواب نہیں دیکھے جا سکتے۔ یہ پرُ امن بستیاں اور پرُ رونق بازار ہوتے ہیں جہاں انسانوں کے ہاتھ خواب کاشت کرتے ہیں۔ علی سردار خاک سے خواب کشید کرتے ہوئے انسانی ہاتھوں کی حمد و ثنا کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ان ہاتھوں کی تعظیم کرو

ان ہاتھوں کی تکریم کرو

ان ہاتھوں کو تسلیم کرو

تاریخ کے اور مشینوں کے پہیوں کی روانی ان سے ہے

تہذیب کی اور تمدن کی بھرپور جوانی ان سے ہے

آج برصغیر کے کروڑوں ہاتھ گیہوں اور دھان کے پودے بوتے ہیں، باغوں سے رس بھرے پھل توڑتے ہیں، کارخانوں میں لگی ہوئی کلیں چلاتے ہیں، ملتانی مٹی سے لپی ہوئی تختی پر اور کاغذ کے سادہ ورق پر حرف لکھتے ہیں، کمپیوٹر کے 'کی بورڈ' پر ان ہاتھوں کی انگلیوں تھرکتی ہیں۔ یہ ہاتھ مریضوں کو شفا بخشتے ہیں، مصوری اور مجسمہ سازی کرتے ہیں، شعر لکھتے ہیں، کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ ان ہاتھوں سے دنیا میں حسن و رعنائی اور زندگی کی ہمہ ہمی ہے۔ ان ہاتھوں کی تعظیم کیوں نہ کی جائے لیکن اس بات سے بھی خبردار رہا جائے کہ ان ہی میں سے کچھ ہاتھ بندوق چلاتے ہیں، بم گراتے ہیں، بستیاں جلاتے ہیں اور دیوانگی کے ساز پر تباہی و بربادی کا راگ تخلیق کرتے ہیں۔

ایسا کرنے والے لوگ چند لاکھ ہیں، انھیں کروڑوں اور اربوں ہاتھ شکست دے سکتے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے زندگی کے خواب کاشت کر سکتے ہیں۔ علی سردار جعفری برصغیر کے سوا ارب انسانوں کے لیے اور ساری دنیا کے لیے اپنے سینے میں یہ خواہش پرورش کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دو عالم گیر جنگوں کے بعد سرد جنگ کی آگ تمام خوبصورتیوں اور خوابوں کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سفاک عالمی قوتوں کی قہرمانیوں سے لڑنا دنیا کے مٹھی بھر دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے لیے کس قدر کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن انھیں ''انسان'' پر ایمان تھا۔

آج برصغیر انتہا پسندی اور جنگی جنون کے جس گرداب میں گھرا ہوا ہے اس سے وہ عظیم المرتبت ''انسان'' ہی اسے نجات دلا سکتا ہے جو ہماری سرحدوں کے دونوں طرف آباد ہے، جو خواب دیکھتا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی بستیوں اور بازاروں میں امن کاشت کرتا ہے۔

علی سردار جعفری بہت دنوں پہلے ہمارے درمیان سے اٹھا لیے گئے لیکن آج بھی ان کا خواب جنگ پسندوں کی کھینچی ہوئی خون کی لکیر کے اوپر سایہ کرتے ہوئے ہمیں آواز دیتا ہے کہ:

یہ سرحد جو لہو پیتی ہے اور شعلے اُگلتی ہے

سجا کر جنگ کے ہتھیار میداں میں نکلتی ہے

میں اس سرحد پہ کب سے منتظر ہوں صبح فردا کا!

مقبول خبریں