صاف پانی کا مسئلہ اور اس کا بہترین حل

شکیل فاروقی  جمعـء 30 اگست 2013
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

خالق کائنات نے اشرف المخلوقات انسان کے لیے دنیا میں بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب، ہر نعمت ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جب اپنی بہترین تخلیق کو اس دنیا میں بھیجا تو اس کے لیے اس سے پہلے ہی تمام ضروریات اور وسائل کا بندوبست کردیا۔ سانس لینے اور زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری شے یعنی ہوا کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے جس نعمت کو پیدا کیا وہ پانی ہے۔ چنانچہ پانی کا میسر ہونا تمام جانداروں کے لیے لازم قرار پایا، حتیٰ کہ نباتات کی زندگی کا انحصار بھی پانی پر ہی ہے۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو ہر ذی روح ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر مرجائے۔ اگر کسی انسان کو پانی میسر نہ ہو تو وہ پیاس کی حالت میں زیادہ سے زیادہ سات دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ہمارے جسم کا مجموعی طور پر 60 فیصد حصہ اور ہمارے خون کا 90 فیصد حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پھیپھڑوں کا 90 فیصد، جلد کا 80 فیصد، پٹھوں کا 75 فیصد، ہڈیوں کا 22 فیصد اور ہمارے دماغ کا 80 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔

غرض یہ کہ انسانی جسم کا ہر عضو پانی کا محتاج ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا جسم پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے جب کہ ہمارے جسم سے روزانہ پیشاب، پسینے اور عمل تنفس کے ذریعے تقریباً چار لیٹر پانی خارج ہوتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جسم سے خارج ہونے والے اس پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اتنی ہی مقدار میں پانی پینا چاہیے۔ جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے ہمارا خون گاڑھا ہونے لگتا ہے اور اس کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ آہستہ آہستہ خون کی نالیاں تنگ ہونے لگتی ہیں ہارٹ فیل ہوجانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص مطلوبہ مقدار میں پانی نہ پیے تو اس کے جسم کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے چکر آنے لگتے ہیں اور دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں شدت کی وجہ سے انسان پر بے ہوشی کا دورہ بھی پڑسکتا ہے۔ پانی کی کمی کے اسی عمل کو طبی اصطلاح میں ڈی ہائیڈریشن کہا جاتا ہے۔

گردوں میں پتھری اور گردوں کی دوسری بیماریاں بھی پانی ہی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ پیشاب کا جل کر آنا، نظام ہاضمہ کا خراب ہونا اور جلد کی خشکی بھی جسم میں پانی کی کمی کا ہی نتیجہ ہے۔ پانی کی کمی ہی کی وجہ سے جوڑوں اور پٹھوں کی نمی ختم ہوجاتی ہے جو جوڑوں اور پٹھوں کی بیماریوں اور تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ چونکہ انسانی دماغ کا 80 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے سوچنے اور تخلیقی عمل کے دوران ہونے والی کیمیائی سرگرمی کا انحصار پانی کی مناسب مطلوبہ مقدار پر ہوتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن سمیت مزاج کے بیشتر عارضے مناسب مقدار میں پانی پینے سے ختم ہوسکتے ہیں۔ دمہ سے لے کر ذیابیطس تک ہر بیماری پانی کی کمی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ الرجی کا بنیادی سبب بھی پانی کی کمی ہے۔ اسی طرح جسم کو پانی کی کمی سے بچا کر سر درد، کھانسی، لقوہ، جگر کے امراض، قبض اور معدہ کے امراض اور سانس کی بیماریوں سے تحفظ دیا جاسکتا ہے۔

یہ پانی ہی ہے جو غذائی اجزا کو جسم کے تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے اور جسم سے فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے۔ مناسب مقدار میں پانی پینے سے وزن میں کمی بھی آتی ہے اور انسان موٹاپے سے بھی بچ سکتا ہے۔ پانی انسان کو صحت مند اور چاق و چوبند رکھتا ہے اور جسم کو درکار نمی کی کمی کو پورا کرکے چہرے اور جسم کی جلد پر جھریاں پڑنے کے عمل میں مدافعت کرتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ مناسب مقدار میں پانی پیتے ہیں وہ زیادہ عرصے تک جھریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ پانی کی مناسب مقدار کا تعین مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ دراصل انسان کو اپنے وزن اور کام کی نوعیت کے لحاظ سے پانی پینا چاہیے۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کو پانی کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے انھیں دن میں کم سے کم دو لیٹر پانی ضرور پینا چاہیے۔ جو لوگ جسمانی مشقت کرتے ہیں اور دھوپ اور گرمی میں کام کرتے ہیں انھیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ پانی پینا چاہیے جس کی اوسط مقدار کم ازکم تین لیٹر ہے تاکہ پسینے کے ذریعے خارج ہونے والے پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

صرف وطن عزیز ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں سافٹ ڈرنکس اور مشروبات کو پانی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرنے کی روایت عام ہے۔ یہ مشروبات شکر اور نمکیات سے لبریز ہوتے ہیں۔ شکر نہ صرف وزن بڑھاتی ہے بلکہ مختلف امراض کو جنم بھی دیتی ہے جب کہ مشروبات میں استعمال ہونے والے سوڈیم کی اضافی مقدار بھی انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے جسم کو یومیہ صرف 2 ملی گرام سوڈیم کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مصنوعی مشروب کے صرف ایک کپ میں 80 ملی گرام نمک شامل ہوتا ہے۔ کولا اور دیگر مشروبات میں جو کیمیکلز شامل ہوتے ہیں وہ کس قدر مضر صحت ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آپ اس میں ناخن یا ٹوٹا ہوا دانت ڈال دیں تو وہ دو روز کے اندر گل جائے گا۔ قصہ مختصر، پانی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ آب حیات ہے اور آب حیات کا تصور بھی پانی کی اسی بنیادی اہمیت سے مستعار لیا گیا ہے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پانی کا صاف اور شفاف ہونا انسانی صحت کے لیے سب سے پہلی شرط ہے۔گندے اور آلودہ پانی پینے سے بہتر ہے کہ انسان پیاسا رہنا برداشت کرلے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو پینے کا صاف پانی تو درکنار پانی کی شدید قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ صحرائی علاقوں میں تو پانی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پینے کے پانی کی دستیابی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ ادھر ہمارے اپنے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقوں بشمول تھرپارکر میں بھی پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی کچھ کم گمبھیر اور پیچیدہ نہیں ہے۔ یہ بات لائق تحسین ہے کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ برسوں میں اس مسئلے کے حل پر خصوصی توجہ دی ہے اور ایک مشہور و معروف کمپنی کی خدمات حاصل کرکے جگہ جگہ فلٹریشن پلانٹ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ سندھ بھر میں صاف اور میٹھے پانی کے پلانٹس لگانے والی اس نجی کمپنی نے بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے آر او (RO) سولر پاور پلانٹ کی تیاری کا کامیاب تجربہ مکمل کرلیا ہے۔

کمپنی کے ترجمان کے مطابق دس ہزار گیلن پانی کو صاف اور میٹھا بنانے کے لیے اس پلانٹ کی لاگت 15 لاکھ روپے ہے جب کہ اس سے بڑے پلانٹس بھی تیار کیے جارہے ہیں جن کی کارکردگی کا انحصار پانی کے کھارے پن کی نوعیت اور اس کی گنجائش پر ہوتا ہے۔ آر او سولر پلانٹ سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے کم سے کم لاگت پر پانی کو صاف کرکے میٹھا اور پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والے آر او پلانٹس کی تنصیب سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسئلے سے نجات حاصل ہوگی بلکہ بجلی کے بھاری بلوں کے عذاب سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی کے شعبے کی صفت کو بھی فروغ ملے گا اور روزگار کے نئے نئے مواقع حاصل ہونے سے بے روزگاری کے سنگین اور دیرینہ مسئلے کے حل میں بڑی مدد حاصل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔