ہنسانے والے مغموم نے پہلی مرتبہ مغموم کیا
ہنسی راستہ صاف کرتی تھی اور مسکراہٹیں راستوں میں پھول کھلاتی تھیں
لاہور:
عبداللہ جان مغمومؔ بھی اسی راہ پر چلا گیا جس سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا ہے، یہ ون وے ٹریفک والا راستہ نہ جانے کتنوں کو اسی طرح نگل چکا ہے جس پر آدمی جا تو سکتا ہے لیکن واپس آ نہیں سکتا کیوں کہ اس کا دہانہ زیر زمین کھلتا ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں
عبداللہ جان کا تخلص مغمو تھا لیکن وہ دوسروں کو ساری عمر ہنستاتا رہا، گدگداتا رہا اور کبھی غمگین نہیں ہونے دیتا تھا، اس شمع کی طرح جو جل جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے لیکن زندگی میں شاید پہلی اور آخری بار وہ ایک دنیا کو مغموم کر گیا، حالانکہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ یہ ہمہ جہت شاعر ادیب اور براڈ کاسٹر لوگوں کو کبھی مغموم نہیں ہونے دیتا تھا، ایسے ایسے ریڈیو پروگرامز جن کو سننے کے لیے ہالی کھیتوں میں ہل چھوڑ دیتے تھے، عورتیں روٹیاں تندوری میں چھوڑ دیتی تھیں اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک اور مردوں سے نوجوان لے کر بوڑھی عورتوں تک ۔۔۔ ہمہ تن گوش رہتے تھے اور یہ کوئی کم عرصے تک نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک ہوتا رہا ہے، ہم جب گرتے پڑتے لڑھکتے لڑکھاتے پھسلتے پھسلاتے ریڈیو تک پہنچے تو چند نام ہمارے لیے کسی عجوبے سے کم نہیں تھے، ان میں چند گلوکاروں اور گلوکاراؤں کے علاوہ چند آرٹسٹوں سے ملنے کی تمنا بہت پرانی تھی اور پھر ان میں عبداللہ جان مغموم خاص طور پر قابل ذکر تھے لیکن ہم اسے اس نام سے بالکل بھی نہیں جانتے تھے بلکہ پایندہ خان کو جانتے تھے جو سمندر خان سمندر کے لکھے ہوئے روزانہ پروگرام ''حجرہ'' اپنے بھینسے کے ساتھ بڑے مشہور تھے۔
پایندہ خان کی شمولیت حجرے میں ایک سادہ لوح نوجوان پایندہ خان کے نام سے ہوتی تھی اور اس کاکل اثاثہ اس کا لاڈلا بھینسا ہوا کرتا تھا، بھینسے اور پایندہ خان دونوں کو ہم نے ''کانوں'' سے دیکھا بھی تھا اور سنا بھی تھا کیوں کہ ریڈیو پروگراموں میں دیکھنے سننے بلکہ سونگھنے اور محسوس کرنے کے سارے کام کانوں ہی سے لیے جاتے ہیں، حجرہ میں اکثر حجرے کے دوسرے بزرگ شاہ پسند خان، گل محمد خان اور توکل خان ۔۔۔۔ پایندہ خان اور اس کے پالے ہوئے لاڈلے بھینسے کا ٹھٹھا اڑاتے تھے جواب میں سادہ لوح پایندہ خان ایسے سادہ سادہ سے تیر چلاتے تھے جو حجرے والوں کے علاوہ تمام سننے والوں کے دلوں میں ترازو ہو جاتے تھے، یہ کردار اتنا پاپولر تھا کہ اکثر لوگ اسے اپنے اصل نام عبداللہ جان مغموم کے بجائے پایندہ خان کے نام سے زیادہ جانتے تھے بلکہ پروگرام کے لکھنے والے سمندر خان سمندر نے تو اسے کبھی اپنے اصل نام سے نہیں پکارا تھا جہاں کہیں بھی پکارتے تھے، سپندیہ اے سپندیہ اور پیندے کہہ کر بلاتے تھے۔
یہ دراصل عبداللہ جان مغموم کا کمال تھا کہ وہ کردار میں خود کو صفر کر لیتے تھے بعد میں جب اس نے ''خواگہ تراخہ'' (تلخ و شیریں) نامی پروگرام شروع کیا تو اس میں خود کو مر چکے (مرچ) کے نام سے متعارف کرتے تھے یہ نام اتنا پاپولر ہوا کہ آخر تک عبداللہ جان مغموم کا تعارف بن کر رہ گیا، اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہوا، یہ پروگرام وہ خود لکھتے بھی تھے اور پیش بھی کرتے تھے اور مختلف جملوں کے درمیان ایک خاص انداز میں ھہ ھہ ھہ یا ہا ہا ہا ہنستے بھی تھے، اس پروگرام کے مضامین کو بعد میں کتابی صورت دے دی گئی تو منصف کے طور پر عبداللہ جان مغموم کے نام کے نیچے بریکٹوں میں مرچکے بھی لکھا تھا جس کو اکثر لوگ مر چکے یعنی مرحوم سمجھ لیتے تھے اور پوچھتے کہ کیا عبداللہ جان مغموم مر چکے ہیں؟ ہم بتاتے کہ نہ وہ مغموم ہیں اور نہ مرحوم ۔۔۔ لیکن آج یہ دونوں باتیں سچ ہوکر ہمیں مغموم کر رہی ہیں۔
ریڈیو میں پہنچ کر ایک عرصے تک ہم ان سینئر آرٹسٹوں کو صرف دور ہی دور سے دیکھتے تھے پاس جاتے بھی تو کس منہ سے ۔۔۔ وہ برگد اور سرو صنوبر کے بڑے بڑے پیڑ اور ہم ان کی جڑوں میں اگنے والی گھاس پھوس، ایسی کتنی ہی گھاس پھوس بڑے بڑے تناور درختوں کے سائے میں روزانہ اگتی ہے اور فنا ہوتی ہے لیکن یہ ہمارا وہم تھا اصل میں یہ لوگ ایسے تھے ہی نہیں جیسا ہم سمجھ رہے تھے وہ تو پیار اور شفقت کے ساگر تھے اور تھکے ہوئے مسافروں کے لیے چھتر چھایا تھے، دھیرے دھیرے ان سے تعارف ہوا پھر ملنا ملانا ہوا ۔۔۔۔ ان ہی دنوں ایک اور خدا مارا حمد اللہ جان بسمل بھی نہ جانے کہاں سے ٹپک کر ریڈیو میں پروڈیوسر ہو گیا، یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ عبداللہ جان مغموم پشاور سے دور دارمنگی میں پیدا ہوا تھا، حمد اللہ جان بسمل اس سے بھی دور متھرا میں جنما تھا اور ہم ان سے بہت دور ضلع نوشہرہ چراٹ کے پہاڑوں کی چھاؤں پلے بڑھے تھے، آخر ہمارے ماں باپ کے کان میں کسی نے یہ پھونکا تھا کہ ان کے یہ نام رکھ دو کیوں کہ مستقبل میں ان تینوں کو بمقام ریڈیو بھائی بننا ہے۔
چلیے نام تو اتفاق سمجھئے لیکن طبیعت اور مزاج بھی ایک جیسے کیوں بن گئے ۔۔۔ جب ہم تینوں ریڈیو میں اپنے خرافاتی پروگرام کرتے تھے تو اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ تینوں بھائی ہیں بلکہ ہم سے پوچھتے بھی تھے کہ تم تینوں بھائی ہو اور ہم ہاں کر دیتے تھے البتہ ہم کبھی کبھی تھوڑی سی وضاحت بھی کر لیتے تھے کہ عبداللہ جان مغموم سب سے بڑے ہیں میں یعنی سعد اللہ جان برق دوسرا ہوں اور یہ حمد اللہ جان بسمل ہے سب سے چھوٹا لیکن سوتیلا ہے اس لیے کچھ زیادہ ہی شرارتی بھی ہے کیوں کہ بات ناموں اور پروگراموں سے بھی کچھ آگے نکل چکی تھی ریڈیو سے باہر شہر میں بازاروں اور تقریبات میں بھی ہم تین ''خان'' یک قالب ہوتے تھے، جس زمانے میں عبداللہ جان مغموم کا پروگرام ''خواگہ تراخہ'' چار دانگ عالم میں اپنے ڈنکے بجا رہا تھا ان دنوں ہمیں ان سے تھوڑی سی جلن بھی ہونے لگی کیوں کہ کسی مشاعرے میں شرکت کرتے تو باقی لوگ تو اپنا کلام بے لگام یا بلاغت نظام سنا دیتے تھے لیکن عبداللہ خان مغموم کی باری آتی تھی تو سامعین ایک دم گدھا پاؤں ہو جاتے کہ پروگرام سنا دو حالانکہ وہ شاعر بھی زبردست تھے خاص طور پر غزل میں نازک خیالی تو ان پر ختم تھی لیکن لوگ اس پروگرام کا تقاضا کر دیتے کچھ زیادہ ہی ہوشیار سامعین ہوتے تو غزل سننے کے بعد بلی کو تھیلے سے نکالتے۔
مغموم اپنے پروگرام کا کوئی اسکرپٹ ریڈیو ہی کے انداز میں لائیو سنانا شروع کرتا اور جو داد ملتی اس سے تمام شاعر جل بھن کر رہ جاتے، بعض تو اپنی محنت سے اپنی چیدہ غزلوں کو یوں رائیگاں جاتے دیکھ کر ناراض بھی ہو جاتے تھے کہ مشاعرے میں نثر ۔۔۔ کیا بکواس ہے حالانکہ اس نثر کا ہر لفظ اپنی جگہ ایک مستقل غزل کا مقام لیے ہوئے ہوتا تھا، لنڈی کوتل کے ایک مشاعرے میں جو امیر حمزہ خان شنواری کے حجرے میں سالانہ ہوتا تھا تھوڑی سی بدمزگی بھی ہو گئی دور سے آئے ہوئے ایک شاعر نے احتجاجاً اپنا کلام سنانے سے انکار کر دیا کہ جہاں نظم و نثر کا کوئی فرق نہ ہو وہاں کلام ضایع کرنے سے کیا فائدہ، بڑی مشکل سے ہم نے حمزہ صاحب کو درمیان میں ڈال کر اسے راضی کیا اور جان بوجھ کر مصلحتاً بہت زیادہ داد بھی دی حالانکہ اس کی شاعری داد کے بجائے بے داد کی حق دار تھی، ابھی تک ہم یہاں وہاں کی ہانک کر خود کو بہلا رہے تھے لیکن اس حقیقت سے کب تک آنکھیں چرائے رکھیں گے کہ ریڈیو کے مشہور تین ''جانوں'' میں سے ایک جان بے جان ہو گئی ہے
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
بسمل بھی اس وقت بہت دور ہے اس عمر میں انسان کو دیوار سے دوسری طرف بھی دیار غیر نظر آتا ہے وہ اپنے گاؤں میں ہیں ہم اپنے گاؤں میں اور اکیلے ہی اکیلے تین جانوں کی ترکڑی ٹوٹنے کا نوحہ گا رہے ہیں اور اس وقت کو یاد کر رہے ہیں جب قہقہے ہمارے ساتھ چلتے تھے، ہنسی راستہ صاف کرتی تھی اور مسکراہٹیں راستوں میں پھول کھلاتی تھیں، پرانے ریڈیو اسٹیشن کی خستہ حال عمارت اور وہ گلشن گلشن ماحول قصہ خوانی کا بازار اور ہماری آوارہ گردیاں ۔۔۔ غالب نے بھی ایسا ہی ایک نوحہ گایا تھا
یاشب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے
لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے
اور اب جو دیکھتے ہیں کہ اس بزم ناز میں
نے وہ سرور و ساز نہ جوش و خروش ہے
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے