’’جنسی درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے‘‘ ’’حکومت قانون سازی میں مخلص نہیں‘‘، ایکسپریس فورم

ایکسپریس فورم رپورٹ  جمعـء 4 اکتوبر 2013
 لاہور: حافظ ابتسام الٰہی ،فائزہ ملک، ربیعہ باجوہ ، ممتاز مغل اور افتخار مبارک ایکسپریس فورم میں شریک ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: حافظ ابتسام الٰہی ،فائزہ ملک، ربیعہ باجوہ ، ممتاز مغل اور افتخار مبارک ایکسپریس فورم میں شریک ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور:: معصوم بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں جن کی روک تھام کیلیے معاشرے کے تمام طبقات کے شعورکو بیدار کرنے اور پولیس کے نظام اور رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے کیلیے واقعاتی شہادتیں ہی کافی ہیں۔ جب تک مجرموں کو سخت ترین سزائیں نہیں دی جاتیں اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار سیاسی و سماجی شخصیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’ بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شرعی تعلیمات و احکام ‘‘ کے موضوع پر ہونے والے ایکسپریس فورم میںکیا۔ ایکسپریس فورم کا اہتمام ضیاء تنولی نے کیا جبکہ میزبان شہباز انور خان تھے۔ پینل میں جاوید یوسف، شہزاد امجد اور سجاد بٹ شامل تھے جبکہ اظہار خیال کرنے والوں میں جمعیت علماء اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، پیپلزپارٹی شعبہ خواتین لاہور کی صدر اور رکن پنجاب اسمبلی فائزہ ملک، قانون دان اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق فنانس سیکریٹری ربیعہ باجوہ، چائلڈ رائٹس موومنٹ کے افتخار مبارک اور ڈائریکٹر عورت فائونڈیشن افتخار مبارک شامل تھے۔

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ اسلام دین عدل ہے جس میں کسی بھی فرد پر ذرہ برابر ظلم کی گنجائش نہیں ہے۔ قوانین عدل انصاف میں اس قسم کے واقعات کا احتمال نہیں۔ انھوں نے کہاکہ جنسی تشدد کے کیسز میں واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر ہی سزائے موت کی سزا ہونی چاہیے اسی طرح جھوٹے الزام پر بھی سزا دی جانی چاہیے۔ اسلام میں کمپنسیشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شریعت کے اعتبار سے جب اس قسم کے ایشوز پر پھانسی کی سزا دینے کی بات کی جاتی ہے تو نام نہاد ترقی پسنداور انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیمیں اس کو برا کہتی ہیں ۔ جنسی تشدد کے واقعات پر قابو پانے کیلیے احتجاج کافی نہیں ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ والدین کی بچوں کو اخلاقیات کی تربیت دینے، خواتین اور بچیوں میں حجاب کے استعمال، میڈیا کی طرف سے فحش مواد کی طباعت کی روک تھام اور پولیس کے رویے میں تبدیلی کے ذریعے ہی سے جنسی واقعات کا تدارک ممکن ہے ۔فائزہ ملک نے کہا کہ بچیوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں تیزی انتہائی تشویشناک ہے جس کیخلاف زیادہ سے زیادہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

یہ واقعات معاشرے کی سوچ میں بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کے واقعات پر جزا و سزا کا فوری فیصلہ ہونا چاہئے ۔ علاوہ ازیں حکومتوں کے رویوں کو بھی تبدیل کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح اسلامی ممالک کے اندر سزائیں دی جاتی ہیں اسی طرح کم از کم جنسی تشدد کے واقعات کے ضمن میں اسلامی سزائوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ مجرموں کو چوک میں سرعام پھانسی دی جانی چاہئے تاکہ کوئی بھی شخص اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ ربیعہ باجوہ نے کہا کہ بچوں پر زیادتی کے معاملات کو سوشل ایشوز کے طور پر نہیں دیکھا جاتا اور ان کی روک تھام کیلیے آئین سازی نہیں ہوتی۔ اس قسم کے واقعات کے پیچھے سوچ میں پسماندگی ہے۔ ہمارے معاشرے میں فیوڈل ازم بھی قوانین بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جبتک مائنڈ سیٹ میں تبدیلی نہیں آتی اور اسمبلی میں پڑھے لکھے لوگ نہیںجائیں گے تب تک اچھے قوانین نہیں بن سکیں گے اور پولیس کے احتساب کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔

ممتاز مغل نے کہا کہ پورے ملک میں عورتوں اور بچوں پر جنسی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر سال تشدد کے 10ہزار واقعات رجسٹر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں اور عورتوں کے تحفظ کیلیے قوانین موجود نہیں ہیں اور اگر کسی حد تک قوانین موجود بھی ہیں تو عدالتی نظام اتنا سست ہے کہ انصاف ملنے میں تاخیر کے باعث زیادتی کا شکار صلح کیلیے مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کیسوں میں پیسے لینے والوں کو بھی سزا ملنی چاہئے۔ چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں مگر ان پر تفتیش کا طریقہ کار درست نہیں اور اگر تفتیش کے بعد ملزم کو سزا ہو بھی جائے تو بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی قوانین پر دستخط تو کئے گئے مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور بیوروکریسی اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ افتخار مبارک نے کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات بہت عرصے سے ہو رہے ہیں مگر ان پر توجہ اب دی جانے لگی ہے۔ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

جنسی تشدد کا شکار زیادہ تر بچوں کو ان کے جاننے والوں اور رشتہ داروں کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا وقتی عمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے پوری پلاننگ ہوتی ہے اور ایسا کرنے والا بچے کا اعتماد حاصل کرتا ہے اس کے بعد اس حرکت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ڈومیسٹک چائیلڈ لیبر جو کہ غلامی کی ایک شکل ہے اس کے تحت گھروں میںکام کرنے والے سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے سیاسی سطح پر عزم کی کمی ہے۔ حکومت بھی بچوں کے تحفظ کے قوانین بنانے میں مخلص نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کے حل کیلیے ضروری ہے کہ اسمبلی ممبران پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔