میرا تابوت
وہ جرمنی کے شہر بون میں پیدا ہوئیں، مکلی کے قبرستان میں ایک قبر ان کا انتظار کرتی رہی۔
وہ جرمنی کے شہر بون میں پیدا ہوئیں۔ مکلی کے قبرستان میں ایک قبر ان کا انتظار کرتی رہی جس میں آخری نیند سونے کی انھوں نے وصیت کی تھی۔ یہ بیسویں صدی کی اس بڑی دانشور، ادیب اور مستشرق خاتون کا قصہ ہے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد 1922ء کے جرمنی میں آنکھ کھولی۔ تباہ حال جرمنی میں وہ سیاسی قوت سر اٹھا رہی تھی جو نہ صرف جرمنی بلکہ سارے یورپ کو ایک بار پھر خوفناک جنگ کے جہنم میں دھکیلنے والی تھی۔
یہ بچی ایک ایسے گھر میں پلی بڑھی جہاں شاعری کی چھتر چھایا میں مذہبی آزادی سانس لیتی تھی۔ تب ہی ان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ پندرہ برس کی عمر میں عربی زبان کی تحصیل شروع کریں اور مروجہ روایات کے برخلاف 17 برس کی عمر میں ہائی اسکول سے پڑھ کر نکلے اور 19 برس کی عمر میں برلن سے عربی، ترکی اور تاریخ اسلام میں اپنی پہلی ڈاکٹریٹ مکمل کر لے۔ اس نے مملوک سلاطین کی تاریخ پر تحقیق کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہٹلر کی نازی حکومت سے ہر فرد لرزاں تھا۔ جبری بھرتی ایک معمول کی بات تھی، یہ عذاب اس لڑکی پر بھی نازل ہوا لیکن کئی زبانوں میں اس کی مہارت اس کی مدد کو آئی اور جنگ کے دوران اسے جرمن دفتر خارجہ میں بطور مترجم ملازمت مل گئی۔ جنگ ختم ہوئی تو اسے ماربرگ یونیورسٹی سے وابستگی کی پیش کش ہوئی جسے ا س نے بخوشی قبول کر لیا اور جنوری 1946ء میں جب اس نے اپنا پہلا افتتاحی خطبہ دیا تو ابھی وہ 24 برس کی بھی نہیں ہوئی تھی۔
یوں اس نابغہ ٔروزگار کا علمی، ادبی، تحقیقی اور تخلیقی سفر شروع ہوا جسے دنیا نے این میری شمل کے نام سے جانا۔ ماربرگ یونیورسٹی میں شمل 8 برس تک اسلامی تاریخ اور تصوف پڑھاتی رہیں اور اس دوران 1951ء میں انھوں نے اسلامی تصوف پر اپنی دوسری ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ماربرگ یونیورسٹی سے شمل نے انقرہ کا رخ کیا اور وہاں 5 برس تک مذاہب کا تقابلی مطالعہ اور کلیسا کی تاریخ پڑھائی۔ ترکی زبان پر ان کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ترک طلباء کو ان کی مادری زبان میں پڑھاتی رہیں۔
این میری شمل کا علمی اور ادبی سفر ناقابل یقین ہے۔ اس سفر میں اس کی مادری زبان جرمن کے علاوہ متعدد یورپی اور ایشیائی زبانیں اس کے ساتھ تھیں۔ شمل ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی، لاطینی، اردو، سندھی، پنجابی اور پشتو میں رواں تھیں اور ان زبانوں کے ادب کو براہ راست پڑھتی تھیں، چیک اور سویڈش زبانیں اس کے علاوہ تھیں۔ 4 برس تک انھوں نے بون یونیورسٹی میں عربی کے ایک علمی جریدے کی ادارت کی، وہ 22 برس تک ہند مسلم زبانوں اور تہذیب کی پروفیسر رہیں۔ پاکستانی دانشور اس بات کا بلاجھجک اعتراف کرتے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے تصورات و افکار پر سند کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب مسلمان اور یورپی اقوام ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھیں، انھوں نے اپنی علمی تحقیق اور تصوف سے اپنے گہرے شغف کے ذریعے دونوں دنیائوں کے درمیان پل بنانے کی کوشش کی۔
انھوں نے 6 دہائیوں تک مسلمان دانشوروں اور ادیبوں کو گرویدہ بنائے رکھا۔ سندھ میں پیر حسام الدین راشدی اور دوسرے ان کی توقیر اور تعظیم کرتے۔ پنجاب اور دلی میں اردو کے ادیب انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ کلاسیکی اردو شاعری کی وہ شیدا تھیں اور سندھ کے صوفی شعراء سے انھیں گہری وابستگی تھی۔ انھوں نے برصغیر کی مختلف زبانوں کے شعراء کا انگریزی اور جرمن میں ترجمہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا کی مختلف زبانوں کی شاعری ہے جو انسانوں کے درمیان افہام و تفہیم اور تعلق کا رشتہ قائم کرتی ہے۔ اسلامی تصوف پر گفتگو کرتے ہوئے وہ ایک جگہ اپنی بات کا یوں آغاز کرتی ہیں کہ تصوف یا اسلامی رمز و سریت کے بارے میں لکھنا تقریباً ایک ناممکن سی بات ہے۔ پہلا قدم اٹھائیے تو آپ کی نگاہوں کے سامنے دور تک پھیلا ہوا ایک کوہستانی سلسلہ آ جاتا ہے اور اگر کوئی اس راہ طلب پر آگے بڑھتا جائے تو کسی منزل پر پہنچنا اور بھی زیادہ مشکل محسوس ہوتا ہے۔ وہ کبھی ایرانی تصوف کے گلستان کی سیر کرتا ہے اور کبھی تصوف کے امکانات کی برف پوش پہاڑیوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی اس کا اونٹ اسے تصوف اور خدا کی تلاش میں ریگستانوں کی طرف لے جاتا ہے اور آخر کار ان متلاشی افراد میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اس دور دراز پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچتا ہے جس پر مشہور پراسرار پرندے سیمرغ کا قیام ہے۔
شمل کبھی منصور حلاج، شیخِ مقتول شہاب الدین سہروردی، ابن عربی، مولانا جلال الدین رومی، بہاء الدین ذکریا، فرید الدین عطار کا ذکر کرتی ہیں اور کبھی شیخ نظام الدین اولیاء، امیر خسرو، بندہ نواز گیسو دراز، میر درد، بابا فرید، شاہ لطیف اور سچل سرمست کے کلام اور ان کے پیغام پر روشنی ڈالتی ہیں۔ شہزادہ دارا شکوہ نے اپنشدوں کا ترجمہ ''سّرِ اکبر'' کے نام سے کیا۔ وہ شمل کو لبھاتا ہے اور سرمد کو وہ فارسی رباعیات کا بادشاہ کہتی ہیں۔ سرمد اور حلاج کو تلاش حق کی راہ میں جان دینے کی جو بے قراری تھی، اس کا عکس ان دونوں کی شاعری میں دکھاتی ہیں۔
شمل کی مختلف کتابیں اور مضامین پڑھتے جائیے تو احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلامی تاریخ، تصوف، تہذیبی روایات اور ادبی معاملات کو کس طرح اپنے وجود میں سمیٹ لیا تھا اور سیکڑوں برس پر پھیلی ہوئی صوفیانہ روایات کی کیسی تفہیم رکھتی تھیں۔ وہ ہمارے صوفیاء میں گوشت خوری سے پرہیز کا معاملہ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ برصغیر میں حمید الدین ناگوری اور بعض دوسرے صوفیاء نے اگر گوشت خوری سے اجتناب کیا تو اس کی وجہ محض ہندو یوگی نہیں تھے بلکہ فرید الدین عطار نے بی بی رابعہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے عمر بھر کسی چرند، پرند کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا تب ہی خونخوار جانور بھی ان کے آس پاس پھرتے تھے اور ان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔
ہم بہت دنوں سے بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور تشدد پر ایمان رکھنے والوں کے درمیان ہیں اور ہر لمحہ خوف سے لرزہ بہ اندام رہتے ہیں، ہمارے لیے شمل نے رواداری اور تکثریت کے کتنے ہی گوشے خود ہمارے اپنے صوفیاء اور شعراء کے خیالات کی روشنی میں اجاگر کیے ہیں۔ وہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی بحثوں کو بیان کرتی ہیں۔ مختلف صوفی سلسلے نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ اور قادریہ ہندوستان اور ایران کے درباروں اور خانقاہوں کے ساتھ ہی وسطی ایشیا میں کتنا سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے، ان کی تفصیلات میں جاتی ہیں۔ اگر ہم آج اپنے ارد گرد ہونے والے مسلکی تصادم کا جائزہ لیں تو کئی سوالوں کے جواب ہمیں شمل کی تحریروں میں ملتے ہیں۔
جن دنوں وہ ہاورڈ میں پڑھا رہی تھیں بے نظیر بھٹو اس کی شاگرد رہیں، اس حوالے سے وہ اس کی خصوصی تعظیم کرتی تھیں۔ شمل نے بھٹو کی پھانسی کے بعد دو برس تک پاکستان میں قدم نہیں رکھا لیکن جب وہ پاکستان آئیں اور اس وقت کے حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے انھیں ایک ظہرانے پر مدعو کیا تو جنرل ضیاء ان سے ادب کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔
شمل کا خیال تھا کہ پاکستان اور مشرق میں کٹر پن اور انتہا پسندی کے عروج کا سبب عام لوگوں کی تباہ حالی، بیروزگاری، جہالت اور ناانصافی ہے لیکن اس عدم رواداری اور انتہا پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا رہا ہے کہ تاریخ میں کئی دوسری سیاسی تحریکوں کی طرح بنیاد پرستی بھی اپنے عروج کو پہنچے گی اور پھر اچانک اس کا زوال ہو گا۔ وہ کہتی تھیں کہ میں تاریخ کی جدلیات پر ایمان رکھتی ہوں۔ ہم نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے یکجا ہونے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا لیکن یہ واقعہ ہو گیا۔
شمل کا کہنا تھا کہ ''مشرق و مغرب کے عام فرد کو یہ جاننا چاہیے کہ ان کے درمیان کتنی بہت سے باتیں مشترک ہیں۔ انھیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ بی بی مریم اور عیسیٰ مسیح اسلامی فکر میں کتنا بلند مقام رکھتے ہیں''
یہ وہ باتیں ہیں جو دلوں کو جوڑتی ہیں، انسانوں کے درمیان وہ ربط اور رشتے پیدا کرتی ہیں جن کے قیام سے ایک بہتر اور خوش امید دنیا کی آرزو کی جا سکتی ہے۔ آج ہم جس گرداب بلا میں گرفتار ہیں، شمل کی تحریریں اس میں ہمارے لیے مینارۂ نور کی طرح ہیں۔
یہ عالم فاضل عورت کس قدر حیران کرتی ہے کہ اب سے دس برس پہلے جب وہ 81 برس کی عمر میں جان سے گزری تو اس کی آخری رسومات بون کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ میں ادا کی گئیں، جس کے بعد الفرقان فائونڈیشن کے چیئرمین اور شمل کے ایک قدیمی اور قریبی دوست شیخ احمد ذکی یمنی نے شمل کی خواہش کے مطابق اس کے سرہانے سورۂ فاتحہ پڑھی اور پھر تابوت لحد میں اتارا گیا۔ شمل کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرا تابوت مختلف مذاہب کے درمیان مفاہمت کا نشان ہو۔