اخبار صحافت اور اردو کانفرنس
آج روزنامہ ایکسپریس کی طرف سے منعقد ہونے والی دو روزہ اردو عالمی کانفرنس لاہور میں اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔
آج روزنامہ ایکسپریس کی طرف سے منعقد ہونے والی دو روزہ اردو عالمی کانفرنس لاہور میں اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ پہلی کانفرنس کراچی میں ہوئی تھی اور اس مرتبہ ہمارے شاندار تاریخی اور تہذیبی شہر لاہور کا انتخاب ہوا جہاں دنیا کے کونے کونے سے ادیب اور شاعر آئے ہیں۔ اس موقعے پر مجھے ایک کتاب یاد آتی ہے۔ اب سے 35 برس پہلے کی بات ہے جب مائیکل ایچ ہارٹ نے ان 100 لوگوں کی فہرست مرتب کی جو تاریخ کے بااثر ترین افراد تھے۔ ان افراد کی فہرست میں اس نے ساتویں اور آٹھویں نمبر پر جن دو افراد کو رکھا تھا ان میں سے ایک 105 عیسوی میں پیدا ہونے والا سائی لُن ہے اور دوسرا 1400 عیسوی میں پیدا ہوا اور اس کا نام جوہانس گٹن برگ ہے۔
ایک چینی تھا اور دوسرا جرمنی کا باشندہ۔ سائی لُن نے کاغذ ایجاد کیا اور جوہانس نے متحرک چھاپہ خانہ، اس سے چند صدیاں پہلے چین میں متحرک چھاپہ خانہ بنا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا تھا۔ یہ جوہانس تھا جسے چھپائی کی اس نئی اور تیز رفتار ایجاد کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ہارٹ نے دنیا پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے ان دو افراد کو دنیا کے اہم ترین لوگوں کی فہرست میں 7 واں اور 8 واں نمبر کیا غلط دیا؟ سوچیے تو سہی کہ کاغذ اگر ارتقائی مراحل سے نہ گزرتا اور متحرک چھاپہ خانہ اگر تیزی سے ترقی نہ کرتا تو آج ہم اور ہم سے پہلے کی نسلیں کتابوں، رسائل و جرائد اور اخباروں کے وسیلے سے دنیا بھر کی ذہانتوں اور معاملات سے بھلا کیسے باخبر ہوتیں۔ ان دو ایجادات کے بعد علم اور معلومات کا وہ انبار وجود میں آیا جسے ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا جائے تو شاید لاکھوں میل کی بلندی پر چاند کو چھو لے۔
صدیاں گزر گئیں ہمارے دانش مندوں کو اس سے فرصت ہی نہیں کہ وہ مغرب کی ایجادات کو کفر کہتے رہیں۔ یہ لوگ اپنے لوگوں کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں لیکن وقت کا دھارا ایسے تمام خیالات و افکار کو رد کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے یہاں طباعت کے نئے طریقوں کو ایک عرصے تک قبول نہیں کیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سماج کے معتبر افراد کے خیال میں کافروں کی اس ایجاد کو استعمال کرنا کفر میں اس کی اعانت کے برابر ہوتا۔ اس موضوع پر لمز کے گورمانی مرکزِ زبان و ادب کے مجلے ''بنیاد'' کے تازہ شمارے میں جناب معین الدین عقیل نے بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ سیسر کمار داس ہے جس نے 1822ء کی علمی اور ادبی کاوشوں کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اردو کے پہلے ہفت روزہ 'جام جہاں نما' کے آغاز کا اندراج کیا ہے۔ اسی کے نیچے راجا رام موہن رائے کے فارسی اخبار ''مراۃ الاخبار'' کا ذکر ہے۔ راجا رام موہن رائے یہ اخبار نکالتے رہے تھے لیکن انھوں نے اس اردو ہفت روزہ کی اشاعت کے ایک برس بعد 4 اپریل 1823ء کو اپنا یہ اخبار ایسٹ انڈیا کمپنی کے پریس ایکٹ 1823ء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بند کر دیا تھا۔ یہ ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ 'جام جہاں نما' کے بعد ادب نواز اور علم دوست ہندو اردو کے اخبارات نکالتے رہے اور یہ ان ہی کی روش تھی جو آگے چل کر مسلمانوں نے بھی اختیار کی۔ 191 برس کے دوران اردو اخبارات جس طرح پھولے پھلے اس پر جشن مناتے ہوئے ہمیں ان لوگوں کو ضرور یاد کرنا چاہیے جنہوں نے لگ بھگ دو صدی کے طویل عرصے میں اس روایت کو مستحکم کیا۔ یہ وہی ہیں جن کی بناء پر ہم اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ اردو صحافت سے وابستہ افراد اور اخبارات نے قومی اور عالمی منظر نامے پر اپنی حیثیت منوا لی ہے۔
یہ دیوان ہری دت تھا جس نے منشی سدا سکھ لال کو مدیر مقرر کیا اور 27 مارچ 1822ء کو کلکتے سے ہفت روزہ 'جام جہاں نما' نکالا۔ اسے یہ شوق اٹھارہویں صدی میں کلکتے کے ایک برطانوی صحافی ہکی سے ہوا جو یوں تو انگریز تھا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے رشوت خور اور بدعنوان افسروں کو برطانوی قوم کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا سمجھتا تھا۔ اس نے 29 مارچ 1780ء کو ایک ہفتہ روزہ رسالہ ہکیز بنگال گزٹ جاری کیا۔ اس گزٹ نے بنگال سے برطانیہ تک ایک تہلکہ مچا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہکّی نے اپنے ہم وطن برطانوی گورنر جنرل (انتظامیہ)، چیف جسٹس (عدلیہ) اور فرسٹ بشپ (چرچ) کی تمام بد معاملگیوں کو اپنے گزٹ میں افشا کر دیا تھا۔ اس کے گزٹ کا 1782ء میں اس وقت خاتمہ ہو گیا جب وہ 19 مہینوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ اس کا پریس بہ حقِ سرکار ضبط کر لیا گیا۔ ''ہکّی گزٹ'' انگریزی میں شائع ہوتا تھا اور اس کی زندگی بہ مشکل دو برس کی تھی لیکن اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اسی گزٹ نے برصغیر میں بے باک صحافت کی بنیاد رکھی اور 1947ء تک انگریزی، بنگلہ، اردو، ہندی اور دوسری زبانوں کے اخبارات نے اسی کی پیروی میں تحریکِ آزادی کے ہراول دستے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔
اردو صحافت کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان میں برٹش راج کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرنے اور عوامی شعور کو بیدار کرنے میں صحافیوں نے بے مثال کردار ادا کیا۔ ان میں سے بعض ''غداری'' کے الزام میں قتل ہوئے، جیل گئے اور صعوبتیں سہیں۔ ضمیر نیازی صاحب نے اپنی کتاب ''صحافت پابندِ سلاسل'' میں پی ڈی ٹنڈن کا بطور خاص ذکر کیا ہے جو 1947ء سے قبل انگریزی اور ہندوستانی زبانوں کے کم و بیش 20 اخباروں کی نمائندگی کرتے تھے اور جو 1942ء کی ''ہندوستان چھوڑ دو'' تحریک میں خود بھی سولہ مہینے جیل میں رہے۔
یہ اردو صحافت تھی جس نے برصغیر میں جدوجہد آزادی کے دوران متعدد بلند پایہ شاعروں کے خیالات کو دور دراز تک پہنچایا اور لوگوں کے دلوں کو گرمایا۔ ہم کیسے بُھلا سکتے ہیں کہ 1859ء میں لکھنؤ سے منشی نول کشور نے ایک اخبار ''اودھ اخبار'' نکالا جس کے مدیروں میں سے ایک پنڈت رتن ناتھ سرشار بھی تھے اور ان کے ''فسانہ آزاد'' نے اس میں قسط وار چھپ کر شہرت پائی اسے اردو کے کلاسیکی ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ سیکڑوں اردو اخبارات کا ذکر ایک قصۂ طولانی ہے جسے یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔
2011ء کی روزنامہ ایکسپریس کراچی کانفرنس کی طرح اس مرتبہ بھی ہمارے مقبول شاعر اور محترم استاد پیرزادہ قاسم نے اس کانفرنس کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی سربراہی کی جس میں امجد اسلام امجد، احفاظ الرحمان اور خاکسار بھی شامل تھی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کے سلطان لاکھانی، اعجاز الحق، بلال لاکھانی، طاہر نجمی، ایاز خان اور لاہور میں اس کانفرنس کی ذمے داریاں سنبھالنے والی مستعد ٹیم کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہ تھا۔ اس میں شرکت کے لیے دور دور سے ادیب اور دانشور آئے ہیں جنہوں نے ''اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل'' کے موضوع کو نظر میں رکھتے ہوئے اردو سے دوسری پاکستانی زبانوں کی ہم آہنگی، اردو رسم الخط کے مسائل، اردو میں اصطلاحات کے مسائل پر اظہار خیال کیا جب کہ میڈیا، معاشرے کا خلفشار اور ادیب کا کردار جیسے اہم موضوعات پر بھی مقالے پڑھے جائیں گے۔
1822ء سے 2013ء تک کے اس طویل سفر پر نگاہ ڈالیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت دنوں سے صحافت، عزت، شہرت اور معقول ذریعۂ روزگار بن گئی ہے۔ ایسے میں ہم مولوی محمد باقر کو کیسے بھول سکتے ہیں جو 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران سچ لکھنے کی پاداش میں توپ دم کر دیے گئے۔ 1891ء میں منشی گنیش لال نے میرٹھ سے ''جلوۂ طور'' نکالا۔ یہ وہی گنیش لال ہیں جن کے والد کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کی سزا میں گولی سے اڑا دیا گیا تھا۔
اردو صحافت میں سرگرم افراد میں مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، شانتی نرائن بھٹناگر، مولانا ظفر علی خان، مہاشے کرشن، پنڈت گوپی ناتھ کا ''اخبار عالم'' دیوان سنگھ مفتون کا ''ریاست'' اور ویر بھارت کے علاوہ متعدد دوسرے اخبارات تھے جن کے مالکان اور مدیروں نے جیل کاٹی، بھاری جرمانے بھگتے اور بیشتر نے تنگ دستی کی زندگی گزاری۔ ان میں سے ''ویر بھارت'' ایک ایسا اخبار تھا جس میں میلا رام وفا کی نظمیں ''فرنگی سے خطاب'' کے عنوان سے شائع ہوتی تھیں۔ ان نظموں کو شائع کرنے کی سزا میں اس اخبار کے 22 مدیر جیل گئے۔ ایک گرفتار ہوتا تھا تو دوسرا یہ جاننے کے باوجود اس کی جگہ سنبھالتا تھا کہ اسے بھی جیل جانا ہے کیونکہ ''فرنگی سے خطاب'' کے عنوان سے باغیانہ نظمیں شائع کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔
آج ہم جو اردو صحافت سے وابستہ ہیں، عزت اور شہرت کماتے ہیں، سماج میں ایک بہتر زندگی گزارتے ہیں ہم ان لوگوں کو کیسے بھول جائیں کہ جو صحافت کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو ہم کیسا کمزور ایمان رکھتے ہیں اور ہم میں سے کچھ آج کے دن یہ اعتراف کر لیں تو کیا ہرج ہے کہ صحافت کو ہم نے محض ذریعۂ روزگار سمجھ لیا ہے۔ 1822ء میں اردو کا پہلا پرچہ ''جام جہاں نما'' نکالنے والے ہری دت اور منشی سدا سکھ لال اور1857ء میں توپ دم ہوجانے والے مولوی محمد باقر اگر آج زندہ ہوکر ہمارے سامنے آ جائیں اور جواب طلب ہوں تو ہم کیا کہیں گے؟