دو یادگار دن
کئی مہینوں پہلے ہمارے ’ایکسپریس‘ اخبار کی دوسری عالمی اردو کانفرنس لاہور میں ہونا قرار پائی تھی...
KARACHI:
کئی مہینوں پہلے ہمارے 'ایکسپریس' اخبار کی دوسری عالمی اردو کانفرنس لاہور میں ہونا قرار پائی تھی جب کہ پہلی کانفرنس کراچی میں ہوئی تھی اور اس کے معیار نے برصغیر اور اس سے باہرکے ادبی حلقوں کو کافی متاثر کیا تھا۔ لاہور ہمارا علمی، ادبی اورتہذیبی شہر ہے تو پھر دوسری کانفرنس کیوں نہ وہاں منعقد کی جائے؟ 'ایکسپریس' کے سی ای او اعجاز الحق صاحب نے جب یہ سوال اٹھایا تو مجھ سمیت اسٹیرنگ کمیٹی کے تمام اراکین نے انھیں اس بات پر داد دی اور یوں کئی مہینوں کی شب و روز محنت کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ 12 اور 13 اکتوبر کو ایکسپریس کی دوسری عالمی کانفرنس لاہور میں اپنا رنگ جمائے اور ادیب، شاعر اور محقق دوردراز کے علاقوں سے کھنچے چلے آئیں۔
کانفرنس کی میزبانی آواری ہوٹل کے حصے میں آئی جس کے جنرل منیجر قاسم جعفری کی نگرانی میں اس کے عملے نے گرم جوشی سے میزبانی کا حق ادا کردیا۔ لاہور ایکسپریس کے ایاز خان، لطیف چوہدری اور دوسرے متعدد نوجوان اپنی مستعدی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آواری ہوٹل میں دیواروں کو آراستہ کرتی ہوئی مغل مینا طوری تصویریں دل لبھاتی ہیں، کنول، جھاڑ اور فانوس ہر طرف روشنی بکھیرتے ہیں۔ شاہنامہ فردوسی، شہنشاہ نامہ اور کیقباد نامہ کے حاشیوں کے من موہنے موتیف راہداریوں اور ایوانوں میں اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ عجمی تہذیب کی یہ نشانیاں پارسیوں کو دل وجان سے عزیز ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ وہ ان کی اپنی ہیں۔
ہمارے عزیز دوست احفاظ الرحمان کراچی سے اقبال خورشید، سلمان فضلی، ذکی ہاشمی، مقدس کے ساتھ لاہور گئے اور انھوں نے سارا انتظام و انصرام سنبھالے رکھا۔ جس طرح کراچی میں منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس میں سننے والوں کا ہجوم تھا، اسی طرح لاہور میں بھی ''خورشید ہال'' صبح سے شام تک ادب اور زبان کے عشاق سے بھرا پُرا رہا۔ یہ عشاق نہ ہوں تو ساری محفلیں بے معنی اور علم و ادب کے فروغ کی تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔
اس کانفرنس کے ہر سیشن کی روداد بہت تفصیل سے برادرم امجد لکھ چکے، اس موضوع پر ایک بھرپور اداریہ بھی شائع ہوچکا۔ تفصیلی خبریں اس کے سوا ہیں جو 'ایکسپریس نیوز' اور 'ایکسپریس ٹریبیون' میں رنگین تصویروں کے ساتھ اخبار کی رونق بڑھاتی رہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ کانفرنس کا احوال اردو میں تو بیان ہی ہورہا تھا، انگریزی بھی اس سے کچھ پیچھے نہ تھی۔ زبانیں ایک دوسرے سے فیض اٹھاتی ہیں، اردو نے برصغیر میں آنے والے پرتگیزیوں، ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں سب ہی کی زبانوں سے خود کو مالا مال کیا ہے۔ لیکن اب چونکہ عالم گیریت یا دوسرے لفظوں میں گلوبلائزیشن کا لشکر جرار بڑھتا چلا آرہا ہے اس لیے اردو سمیت بہت سی زبانیں خوفزدہ ہیں۔
لاہور میں سانس لیتے ہوئے، ترک، ازبک، روسی، چینی اور بنگلہ زبانوں کے بولنے والوں کی اردو میں تقریریں سنتے ہوئے جہاں دل کو تسکین سی ہور ہی تھی وہیںپنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی ، براہوی، بلوچی اور دیگر قومی زبانوں کے ادیبوں کی اردو سے گہری وابستگی اور کچھ کے گلے شکوے سن کر یہ احساس ہورہا تھا کہ اگر ہم سب مل بیٹھتے رہیں اور ایک دوسرے کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے رہیں تو صرف اردو ہی نہیں، ہماری دوسری زبانوں کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کا یہ کہنا کہ ''اردو اقتدار کی زبان ہے' کس حد تک درست ہے اس بارے میں اگر غیر مادری زبان والے ادیبوں اور ماہر لسانیات کی سنیے تو صاحبان اقتدار سے ان کے گلے شکوے بے پناہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریزی کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر جو کچھ ہوا اس نے ہمارے نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی نسلوں کو گونگا کرنے کا اچھا اہتمام کیا ہے۔
اس کانفرنس کے دوران مجھے شہرت بخاری یاد آئے جنھوں نے لاہور میں ادبی تحریکوں کو یاد کرتے ہوئے اب سے نصف صدی پہلے لکھا کہ لاہور جو گزشتہ 900 برس سے فارسی شاعری کی بڑی بڑی دل کشا اور روح فزا محفلیں دیکھ چکا تھا۔ کسی ایسے قافلے کا انتظار تھا جو اردو شاعری کی صدیوں پرانی ان روایات کو زندہ کردے جو 1857ء کے ہنگامۂ وار وگیر سے نڈھال اور پراگندہ تھیں۔ لاہور میں اس روایت کو زندہ مولانا محمد حسین آزاد نے کیا اور 9 اپریل 1874 کی شام اس انجمن پنجاب کا آغاز ہوا جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور انگریز ادیب اور ادب دوست سب ہی شامل تھے اور جس نے خطے کو اردو کا اہم ادبی اور علمی مرکز بنا دیا۔
139 برس پہلے کی موسم بہار کی وہ شام ان دو دونوں کے دوران مجھے بار بار یاد آتی رہی۔ مولانا محمد حسین آزاد، رائے بہادر پیارے لال آشوب، کرنل ہالرائڈ، پنڈت من پھول اور فقیر سید قمر الدین جیسے ادب دوست نہ ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ایکسپریس کی عالمی اردو کانفرنس ہورہی ہوتی؟ ماضی مجھے ہمیشہ سے رجھاتا ہے، اس لیے میں ''خورشید محل'' میں ہوتے ہوئے بھی انیسویں صدی کے اس لاہور کو یاد کرتی رہی جس نے فارسی اور ہندی سے فیض پانے والی اردو کو گلے لگایا اور یوں اپنایا کہ آج پنجاب ہی اردو کا ''پایہ تخت'' ہے۔ممکن ہے کہ اردو مادری زبان والوں کو میرے اس جملے پر اعتراض ہو لیکن سچ کیسے نہ کہاجائے۔ دوسری زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی پر ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر خواجہ زکریا اور ڈاکٹر نجیب جمال نے عالمانہ مضامین پڑھے۔ صدارت عبداللہ حسین نے کی لیکن اس سیشن میں نجیبہ عارف محفل لوٹ کر لے گئیں۔ ان کی تقریر سننے سے تعلق رکھتی تھی جس میں انھوں نے اردو میں پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، پوٹھوہاری، فارسی اور عربی کی آمیزش کا وہ نقشہ کھینچا کہ سننے والے انھیں داد دیتے رہے۔
وہ مجلس جس میں پاکستانی سماج کا انتشار اور ادیب کا کردار زیر بحث تھا۔ اس میں بڑے جید حضرات نے اظہار خیال کیا اور ادیب کے بارے میں خاصے سوال اٹھائے۔ جناب سلیم راز جو اردو اور پشتو کے اہم اور مؤقر ادیب ہیں، انھوں نے اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ وہ 'انجمن ترقی پسند مصنفین' کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ انھوںنے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا کہ ادب انسانی جذبوں اور رویوں کی تہذیب کرتا ہے۔ انسانوں کو مہذب بناتا ہے۔ شرافت و انسانیت کا درس دیتا ہے بلکہ انسان کو انسان بناتا ہے اور انھیں جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ان میں اعلیٰ انسانی اوصاف پیدا کرتا ہے۔ انھیں متوازن رکھتا ہے۔ معتدل بناتا ہے۔ انتشار وانتہا پسندی سے بچاتا ہے اور خوبصورت و پُرامن معاشرے کی تشکیل میں مدد دیتا ہے۔ لہٰذا ہمارے اہل قلم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے ملکی مسائل اور عوامی حقوق کے بارے میں رائے عامہ کو بے دار کرکے انھیں اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھائیں۔
اس موضوع پر میں نے جو کچھ کہا وہ میرے گزشتہ کالم میں شائع ہوچکا ہے اور اسے دہرانے کی ہرگز یہاں گنجائش نہیں۔ لوگوں نے ''بھارت میں اردو'' اور اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات پر گفتگوکو بہت دلچسپی سے سنا۔ لیکن سب سے اہم سیشن ''اردو رسم الخط کے مسائل'' تھا جس کی صدارت لندن سے آنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے کی۔ انھیں پاکستانی ویزا حاصل کرنے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کے درِ دولت پر 7 مرتبہ حاضری دینی پڑی۔ گمان یہ تھا کہ اس خشک موضوع پر سننے والوں کی تعداد کم ہوگی لیکن اندازہ ہوا کہ لاہور والے لسانیات اور رسم الخط کے موضوع سے بھی اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں جتنی شاعری یا فکشن سے۔کانفرنس کے اس پہلے سیشن میں ہمارے ماہر لسانیات ڈاکٹر عطش درانی کا مقالہ فکر انگیز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی چار ہزار سے زیادہ زبانیں آج جس مسئلے کاسامنا کررہی ہیں وہ ٹیکنالوجی ہے۔ ٹیکنالوجی ایک دو دھاری تلوار ہے، ایک تو یہ زبانوں کو محفوظ کرسکتی ہے اور کررہی ہے اور دوسرے زبانوں کو پھٹک پھٹک کر کم کرسکتی ہے اور کررہی ہے ٹیکنالوجی کا ایک نعرہ ہے کہ سب زبانوں اور ہررسم الخط کو تحفظ دیں اور دوسرا نعرہ ہے کہ دنیا میں ایک ہی زبان اور ایک ہی رسم الخط ہونا چاہیے کہ گلوبلزم کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کانفرنس میں اپنے مقالے کا جو اختصاریہ پیش کیا وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ جسے بھی اردو سے محبت ہے اسے لازم ہے کہ وہ اس مقالے کوپڑھے اور اس بارے میں غورو فکر کرے۔دو روز کی وہ محفلیں خواب ہوئیں جن میں ہندوستان سے آئے ہوئے زبیر رضوی اور شمیم حنفی نے اپنے اپنے موضوعات پر گفتگو کا حق ادا کردیا۔ اسی طرح اسد محمد خان، ڈاکٹر سلیم اختر، مسعود مفتی، مسعود اشعر، مستنصر حسین تارڑ، تاش مرزا، سحر انصاری، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، اشفاق حسین، اصغر ندیم سید، تھانگ منگ شینگ، ڈاکٹر نعمان الحق، ڈاکٹر آصف فرخی، ڈاکٹر فخر الحق نوری، ڈاکٹر شاداب احسانی، عطیہ سید سب ہی بولے اور خوب بولے۔ کانفرنس کی رونق استاد رئیس احمد خان کی ستار نوازی اور ایک ایسے مشاعرے نے دو چند کی جس میں چنیدہ شعرا نے اپنا کلام سنایا اور جب تین کا گجر بجا تو یہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ مجھ سے پوچھئے تو ان دو دنوں میں ہم جلیسی کا سب سے زیادہ لطف لدمیلا وسالیوا، اسدمحمد خان اورشاہدہ حسن کے ساتھ آیا۔ شاہدہ حسن کے ساتھ ہم فاطمہ حسن کو یاد کرتے رہے جو اس محفل میں موجود نہیں تھیں۔ کشور ناہید، یاسمین حمید اور فہمیدہ ریاض رونقِ محفل رہیں۔