’’ڈائریکٹر کے کہنے پر روتے ہو باپ کے کہنے پر نہیں‘‘

گے پڑھنا چاہتا تھا لیکن والد صاحب کے کاروباری معاملات زیادہ بہتر نہیں رہے تھے۔, دلیپ کمار


October 25, 2013
میں نے 36 روپے ماہوار پر پونا میں ایک کینٹین پر سٹور کیپری کی نوکری بھی کی، بالی ووڈ اداکار۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: میں نے 1940ء میں انٹر سائنس کا امتحان خالصہ کالج سے پاس کیا۔ آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر اس وقت والد صاحب کے کاروباری معاملات زیادہ بہتر نہیں رہے تھے۔

اتنے زیادہ بہن بھائیوں کی پرورش اوردن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھر کا ماحول متاثر ہونے لگا تھا۔ میرے ایک بھائی ایوب سرور بڑے پڑھے لکھے اور شاعر قسم کے آدمی تھے۔ ہم سب بہن بھائی اردو، انگریزی اور فارسی لٹریچر سے خاص نسبت رکھتے تھے۔ بھائی ایوب فالج گرنے کے بعد بستر پر محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ ایسے میں مجھے تلاش روزگار کے سلسلوں میں بی۔اے کرنے کا خیال ذہن سے نکالنا پڑا، اور میں نے 36 روپے ماہوار پر پونا میں ایک کینٹین پر سٹور کیپری کی نوکری بھی کی۔

کینٹین پر کئی دفعہ وہاں آئے لوگوں کو میں چائے بھی پیش کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد قسمت مجھے فلمی دنیا میں لے آئی۔ فلموں میں تو آگیا تھا لیکن گھر کا یہ عالم تھا کہ میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ میرے نئے پیشے کی خبر والد صاحب کو نہ ہو کیونکہ انہیں فلموں سے سخت نفرت تھی اور اس زمانے کے روایتی مسلمانوں کی طرح وہ بھی کسی شریف خاندان کے لڑکے کا فلم کے پیشے سے منسلک ہونا بڑا معیوب سمجھتے تھے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

ہوا یوں کہ ایک دفعہ والد صاحب کوئٹہ اور چمن کاروبار کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے تو ان کے بزنس کے لوگوں لالہ گوپال داس اورحاجی فقیر محمد نے مجبور کیا کہ تفریح کے طور پر سینما میں فلم ''میلہ'' دیکھی جائے۔ مجھے والد صاحب کے دوست مرحوم فقیر محمد نے بعد میں بتایا کہ آغاز میں غلام سرور بڑی دلچسپی سے فلم دیکھتے رہے مگر فلم کے آخری سین پر آبدیدہ ہوگئے۔ جہاں میں مرتا ہوں۔ وہ بمبئی واپسی تک بڑے گم سم رہے۔ والد صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے ماں سے خلاف توقع میری خیرخیریت پوچھی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میں سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی شامت آئی ہے۔

سر جھکائے ان کے سامنے کھڑا ہوا تو کہنے لگے۔ یوسف جان میں نے تمہاری فلم میلہ دیکھی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تجھے اس لڑکی سے بہت پیار ہے۔ وہ لڑکی کون ہے؟ اس کے ماں باپ کیسے ہیں؟ تجھے پسند ہے تو اس کو لے آ، میں تمہاری شادی کرواتا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ پٹھان کا بچہ ہوکر بھی تو بے غیرتوں کی طرح منہ چھپائے کیوں کھڑا ہے۔ اگر تم میں ہمت نہیں تو میں اسے اٹھالاتا ہوں اور تمہارا نکاح اس سے کروا دیتا ہوں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا آغاجی۔ وہ تو صرف اداکاری تھی سچ نہیں تھا۔ کہنے لگے تو پھر روتے کیوں تھے۔ عرض کیا کہ ڈائریکٹر کے کہنے پر۔ فرمایا کہ اگر اتنے اچھے اداکار ہو تو اب مجھے رو کر یا ہنس کر دکھاؤ۔ میرے جواب نہ دینے پر غصے سے بولے کہ ڈائریکٹر کے کہنے پر روتے ہو اور اپنے باپ کے کہنے پر نہیں!

(دلیپ کمار... عہد نام محبت،از سعید احمد)

مقبول خبریں