اقبال کی غزل

علامہ محمد اقبال اپنے تمام پیش رووں اور معاصرین سے زیادہ باخبرذہن رکھتے تھے۔


November 08, 2013
علامہ محمد اقبال کے پہلے اردو مجموعے میں ایک سو سولہ نظموں کے ساتھ کل ستائیس غزلیں شامل رہیں۔ فوٹو: فائل

اقبال کے مجموعی ذخیرۂ سخن میں ایک صنف کی حیثیت سے غزل کا مقام ثانوی ہے۔

ان کے پہلے اردو مجموعے میں ایک سو سولہ نظموں کے ساتھ کل ستائیس غزلیں شامل رہیں۔ پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ غزل کا آسیب مسلسل اقبال کا تعاقب کرتا رہا۔ اس صورت حال کا اطلاق اقبال سے پہلے اور بعد کے متعدد ممتاز نظم گویوں پر کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے کم و بیش اپنا تمام تر تخلیقی سفر غزل کے سائے میں طے کیا۔ یوں ابتدائی دور کی نظموں اور غزلوں پر بہ یک وقت نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غزلوں میں تقلید کا رنگ عیب کی حد تک نمایاں ہے' جب کہ نظمیں اقبال کی خلاقی اور فن کارانہ انفرادیت کا ایک واضح نقش ابھارتی ہیں اور ان کے بنیادی شاعرانہ جوہر کا پتا دیتی ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ کم و بیش ہر نظم کے آئینے میں غزل کا مخصوص سایہ سا مرتعش نظر آتا ہے' اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بہ حیثیت صنف' غزل شعر کی دوسری اصناف پر کسی ترجیح کی مستحق ہے' یا یہ کہ غزل کا عمومی آہنگ دوسری اصناف کے لئے کسی ناگزیریت کا حامل ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ غزل کے معاشرتی حوالے نے اسے ہماری زندگی اور اردو کی شعری روایت میں جو جگہ دی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غزل کے طلسم سے شعوری گریز کی کوششوں کے بعد بھی اکثر غزل گو خود کو اس سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ اس طلسم کے شکار اقبال بھی ہیں۔

اقبال کی بیش تر نظمیں غزل کے آہنگ' اس کی داخلی اور خارجی ترکیب ہی کا ایک رخ سامنے لاتی ہیں۔ عام غزل گویوں کے برعکس اقبال نہ تو ریزہ خیال تھے نہ محض مستعار تجربوں پر قانع۔ وہ اپنے تمام پیش رووں اور معاصرین سے زیادہ باخبر ذہن رکھتے تھے اور ان سب سے زیادہ مسلسل اور مربوط طریقے سے سوچ سکتے تھے کہ ایک مرتب نظام اقدار اور اسلوب زیست میں ان کا یقین تھا۔ موت اور زندگی اور زمانے کے الجھے ہوئے مسائل پر سوچتے رہنا ان کا مشغلہ بھی تھا اور ایک باضابطہ ریاضت اور تربیت کا جبر بھی۔ اپنی تخلیقی استعداد پر انہوں نے جو تہذیبی اور سماجی ذمے داریاں عائد کر لی تھیں' اس کے پیش نظر' ان کی فکر کا ایک فلسفیانہ ترتیب پا جانا فطری تھا۔ ہر اچھے شاعر کی طرح اقبال کی حسیت دھیان کی آتی جاتی لہروں کے ساتھ پیچیدہ اور گاہے متضاد سمتوں میں بھی سفر کرتی ہے۔

پھر مزاج کی نوعیت کے اعتبار سے وہ کتنے ہی شگفتہ رہے ہوں' شاعری میں اپنے نصب العین کے دباؤ اور شاید جرمن اثبات پسندوں سے متاثر ہونے کی وجہ وہ مبالغہ آمیز حد تک سنجیدہ تھے اور ان کا احساس گمبھیر مقاصد سے گراں بار تھا۔ اسی لئے ابتدائی دور میں اکبر سے متاثر ہونے کے باوجود' ان کی ذہانت خوش طبعی کے باب میں اکبر کے ایک خام تتبع کی حد سے آگے نہیں جاتی۔ ان کے مزاح کی حس بالعموم سنجیدگی سے بوجھل دکھائی دیتی ہے اور رمز' فقرے بازی نیز ایجاز بیان پر گرفت کی کمزوری کے باعث ناکام رہ جاتی ہے۔

اپنے عہد کے تہذیبی تضادات اور بے ڈھنگے پن سے ان کی آ گہی اکبر سے کہیں زیادہ وسیع' بسیط اور گہری تھی مگر تخلیقی تشویقات پر ان کے تفکر کی نمو پذیر اور مسلسل پھیلتی ہوئی فضا کا تسلط بہت مضبوط تھا۔ اسی طرح داغ سے تلمذ بھی اقبال کی ادبی زندگی کے بس ایک واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی اکبر کی تقلید کی طرح بہت جلد ختم ہو گیا کہ داغ نے اپنے شاگردوں کی صف میں اقبال کی شمولیت کو اپنے لئے ہمیشہ باعث فخر جانا اور اقبال نے بھی داغ کے مرثیے میں اس المیے پر تأسف کا اظہار کیا کہ اب مضمون کی باریکیاں یا فکرنکتہ آرا کی فلک پیمائیاں دکھانے والے' جن میں بلبل شیراز بھی ہوں گے اور صاحب اعجاز بھی' آتے رہیں گے لیکن داغ کی طرح عشق کی تصویریں کون کھینچے گا۔

داغ کے تمام شاگرد حفظ مراتب کے اس درجے قائل تھے کہ کوئی بھی استاد کے حد کمال تک پہنچنے کی جسارت نہ کر سکا۔ اقبال نے بھی ایک الگ راہ نکال لی۔ اولین ادوار میں ہی غزل کے مقابلے میں نظم پر ان کی توجہ سبقت لے گئی اور دوسری طرف' ان کی نظم بلکہ پوری تخلیقی شخصیت پر خود اقبال کے قول کے مطابق ہیگل' گیٹے اور ورڈزورتھ کے علاوہ اردو اور فارسی غزل کے جن اکابر نے اثر ڈالا ان میں حافظ اور بیدل اور غالب کے نام تو روشن ہیں' داغ کا کہیں نشان بھی نہیں ملتا۔

داغ اور غالب کے سلسلے میں رویے کا یہ فرق محض وقتی یا جذباتی ابال کا نتیجہ نہیں۔ اس کی تہ میں اقبال کے اصل شعری کردار کا رمز پوشیدہ ہے۔ اقبال کی فکر ایک مسلسل تعمیر کے عمل سے گزرتی ہے۔ فلسفیانہ افکار کو انہوں نے جس لگن کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالا' اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہ یک وقت ایک فن کار کے اضطراب' ذوق جمال' تجسس اور معجزہ کاری سے بھی متصف تھے اور ایک معمار کا ضبط' توازن اور شعور بھی رکھتے تھے۔ تخلیق اور تعمیر کے ان دو زاویوں میں اقبال نے مفاہمت یوں ڈھونڈی کہ باضابطہ فلسفوں سے زیادہ ایسے افکار کے قریب گئے جن کے تجزیے اور طریق کار میں وجدان اور تخیل کی مداخلت کسی انتشار کا سبب نہیں بن سکتی۔

ایک ساتھ وہ شاعر اور مفکر اور ایک مذہبی انسان کے حقوق ادا کرتے رہے۔ ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ مفکروں میں نطشے اور برگساں نرے فلسفی نہیں تھے اور بڑی حد تک اقبال سے ان کا رشتہ' اپنے امتیازات کے باوصف' دو شاعروں کا باہمی رشتہ تھا۔ ہیگل کا فلسفہ انہیں رزمیہ شعر منثور کی مثال نظر آیا اور نطشے کی طرح اپنی تحریروں میں اقبال اپنے پورے وجود کو سمو دینے کے متمنی ہوئے۔ وہ تمام وسائل جنہوں نے اقبال کے شعری کردار کی تشکیل میں حصہ لیا یا ان کی تخلیقی حس کے محرک بنے' اقبال کے لئے صرف ذہنی مسائل نہیں تھے۔

اس مضمون کے حدود میں اقبال کے افکار کی بحث محض ضمنی ہے۔ ان معروضات سے مقصود اس امر کی جانب اشارہ تھا کہ اقبال اپنے متین اور تربیت یافتہ ذہن کے ساتھ طبعاً نظم گوئی سے زیادہ مناسبت رکھتے تھے۔ ان کے شاعرانہ وژن اور تہذیبی مقصد کے پیش نظر نظم ہی کا پیرایہ ان کے لئے زیادہ موزوں تھا کہ حالی کی طرح اقبال بھی ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ اور سامعین کے حوالے سے شعر کہنے پر خود کو مجبور پاتے تھے لیکن اردو اور فارسی کی غزلیہ روایت کے اثرات ان پر اتنے مستحکم تھے کہ نظم کے پیرایے میں بھی وہ غزل یا کبھی کبھی متفرق اشعار کہتے رہے اور داغ کے سحر سے نکلنے کے بعد جس نوع کی غزلیں کہیں' انہیں کسی نہ کسی سطح پر اپنی نظم کے مجموعی تاثر' آنگ اور فضا کے دائرے میں کھنچ لائے۔

اس صورت حال نے اقبال کی شاعری کے سلسلے میں ایک معنی خیز مسئلے کو راہ دی ہے۔ غزل اور نظم دونوں کے صنفی امتیازات کا سوال وہ اس طرح حل کرتے ہیں کہ روایتی مفہوم میں انہیں نہ تو غزل کا شاعر کا جا سکتا ہے' نہ نظم کی ترقی یافتہ منطق کے معیار پر انہیں محض نظم گو کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وضاحت کے لئے یہ چند شعر دیکھئے۔

رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
اور اس کے ساتھ یہ چار شعر بھی:
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے اس جہاں میں تو مثل شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائیدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ

پہلے چار شعر اقبال کی ایک نظم کے ہیں' دوسرے ان کی غزل کے۔ دونوں میںاشعار مسلسل ہیں اور فرداً فرداً مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پہلے اور بعد کے شعر سے ایک معنوی ربط رکھتے ہیں۔ تجربے کی بنیادی وحدت نے ان سب کو ایک ڈور میں پرورکھا ہے۔ پہلے چار شعروں میں الفاظ کا آہنگ' علائم کا تأثر اور تلمیحات کی بلاغت سے جو فضا تشکیل پاتی ہے وہ غزل کے لئے اجنبی نہیں' لیکن دونوں مثالوں میں اشعار اپنی داخلی اور خارجی ہیئت کے اعتبار سے یکساں ہیں اور ان میںایک کو نظم اور دوسرے کو غزل کا عنوان دینے یا ایک دوسرے سے مختلف کہنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا۔

اس طرح اقبال کی بیش تر غزلیں یا تو ان کی نظم ہی کا قدرے نیم روشن روپ ہیں یا پھر نظمیں مسلسل غزلوں اور قطعہ بند اشعار کی ایک شکل۔ اقبال نے غزل کے رسمی علائم' استعاروں اورمرکبات کو نظم میں بھی ایک نئی سطح پر برتنے کی کوشش کی۔ غزل کو انہوں نے ''عشق بازی بازناں وسخناں بازناں'' کے حصار سے نکالا تو یوںکہ اپنی نظم و غزل دونوں میں عشق کو قوت حیات اور اس کے معاملات کو خود اپنے آپ سے یا خدا اور بندے کے مابین مکالمے کی جہت دے دی۔ مئے باقی' خونیں کفن' قطرۂ محال اندیش' خاطر امیدوار' شاہد ہر جائی اور کارفروبستہ جیسی ترکیبیں جو اقبال کی غزل اور نظم دونوں کے ایڈیم میں یکساں طور پر جذب ہو جاتی ہیں' اقبال تک فارسی کی کلاسیکی غزل ہی کے وسیلے سے پہنچی تھی۔

اردو میں اقبال کی تخلیقی زرخیزی کے اہم ترین دور کا اشاریہ ''بال جبریل'' ہے۔ یہ بات محض اتفاقی نہیں کہ اسی دور میں انہوں نے سب سے زیادہ غزلیں کہیں۔ مسلسل غزلوں کی ترکیب پر مشتمل نظموں سے قطع نظر' اس مجموعے میں صرف غزلوں کی تعداد 77ہے۔ ''بانگ درا'' کی چند غزلوں مثلاً:

گلزار ہست وبودنہ بیگانہ وار دیکھ
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
الٰہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
گرچہ تو زندانی اسباب ہے

میں اقبال نے غزل کے جس ذائقے کا احساس دلایا تھا''بال جبریل'' کی غزلوں تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اس دور کی غزلیں اکثر ان کی نظم کے مزاج سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ دور اقبال کی فکری اور تخلیقی بلوغ کا دور ہے کہ اب اقبال اپنی ادبی روایت کے امکانات کی تسخیر کے بعد' بہ ذات خود شعر کی ایک نئی روایت کا سرچشمہ بن چکے تھے۔ ''بال جبریل'' میں اکثریت غیر مردف غزلوں کی ہے گویا کہ مسلسل فکر کی آزادانہ اظہار کی جستجو اب ردیف کی دیوار کو بھی راستے سے ہٹا دینے کی طالب تھی۔ اب اقبال کی غزل اس مفکرانہ آہنگ کو دریافت کر چکی تھی جس نے اپنی روایت کو ایک نئے موڑ تک پہنچایا۔ ''بال جبریل'' کی غزلوں پر مکالمے یا خود کلامی کا رنگ غالب ہے' نتیجتاً اب ان کی غزل ڈرامے یا کہانی کی فضا کو اسیر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے تین اشعار میں اقبال نے شعور کے نفسیاتی مراحل کا تعین اس طور پر کیا تھاکہ:

شاہد اول شعور خویشتن
خویش را دیدن بنور خویشتن
شاہد ثانی شعور دیگرے
خویش را دیدن بنور دیگرے
شاہد ثالث شعور ذات حق
خویش را دیدن بنور دیگرے

''بال جبریل'' کی غزلوں میں وہ ان تینوں مراحل سے گزرتے ہیں۔ استعاروں سے زیادہ اب وہ مجردات سے کام لیتے ہیں(اور استعاروں سے کام لیتے بھی ہیں تو اس طرح کہ ان کی نوعیت codes یا شناختی نشانات کی ہوتی ہے جن کی حدود کا تعین مشکل نہیں)۔ لیکن اقبال اپنے مکالماتی انداز کے ذریعے جس کا دوسرا سرا کبھی خود اپنے باطن سے جا ملتا ہے' کبھی غیر خود سے اور کبھی خدا سے' مجرد فکر کے پھیکے پن کے باوجود ایک تمثیل کا تأثر خلق کرتے ہیں۔

اس طرح ان کا تخیل استعارے سے عاری فضا کو بھی ایک مشہود و موجود منظر کا رنگ بخشتا ہے اور ایک بہ ظاہر منطقی اور فکری سرگرمی کو طلسم کے حیرت کدے کا وقوعہ بنا دیتا ہے۔ یا بادی النظر میں معنی کی ایک محدود اور واحد المرکز سطح رکھنے کے باوجود یہ طریق کار ان کے خیال کو محض معنی کی فصیلوں کا پابند نہیں ہونے دیتا۔ معینہ افکار کے پیرتسمہ پا کی بالادستی سے اقبال کی تخلیقی شخصیت کو اس طریق کار نے بھی بچایا اور ان کے تفکر کو اسرار یا رمز کی پیچیدگی سے ہم کنار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ''بال جبریل'' کی متعدد غزلوں کے بے استعارہ اور بہ راہ راست اشعار بھی تخیلی منطق کی گرفت میں پوری طرح نہیں آتے اور اقبال کے فکری تفاعل کے ساتھ ساتھ' ان کے وجدان کی ریاضت کا حاصل بھی بن جاتے ہیں۔

شاعر بننے کے بعد اقبال کے افکار ان کے تخیلی مسائل میں اس طور پر گھل مل جاتے ہیں کہ ان افکار کا رسمی شعور رکھنے والوںکے لئے بعض اوقات انہیں فکری حقیقت کے طور پر قبول کرنا یا ان کے تضادات کے معمے کوحل کرنا خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لئے شعر کے قاری کو اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ شاعری میں منطقی سچائیوں کی تلاش محض بے سود ہے اور اس سے یہ تقاضا کیا تھا کہ کسی شاعر کی عظمت کے ثبوت میں وہ اس کی تخلیقات سے ایسی ہی مثالیں نہ نکالے جنہیں وہ صرف سائنسی صداقتوں کا حامل سمجھتا تھا۔ ان الفاظ میں کہ ''فن ایک مقدس فریب ہے'' یا یہ کہ ''ایک ریاضی داں مجبور ہے مگر شاعر ایک مصرعے میں لامتناہیت کو مقید کر سکتا ہے۔'' اقبال نے شعر کی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا۔

اقبال کی غزل کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی پختگی کے موڑ پر اس نے ایک نئے لسانی تجربے کی حیثیت اختیار کر لی۔ ''بانگ درا'' کی ایک غزل کے دو شعر یوں ہیں:

اے مسلماں ہر گھڑی پیش نظر
آیۂ لا یخلف المیعاد رکھ
یہ لسان العصر کا پیغام ہے
ان وعد اللہ حق یاد رکھ

غزل کی زبان کا بندھ ٹکا تصور رکھنے والوں کے نزدیک یہ طرز سخن غالباً معیوب ہو گا۔ یہاں اس قسم کے شعر کی جمالیاتی قدر و قیمت کے سوال سے بحث نہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ غزل کے خیال کی نزاکت کے شانہ بشانہ غزل کی زبان اور اس کے اسلوب کی نزاکت بھی ایک پامال محاورہ بن گئی تھی۔ ان موہوم بندشوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش اقبال نے اس طرح کی کہ اپنی نظم کے بہ ظاہر منطقی اسلوب' اس کی عجمی لے' اس کے پرجلال آہنگ اور فارسی قصائد کے پر شکوہ نیز تحکمانہ لہجوں میں اپنی غزلوں کو بھی برتا۔

روایت ہے کہ لکھنؤ کے ایک بزرگ (پیارے صاحب رشید) نے ان کا اردو کلام سننے کے بعد مطالبہ کیا کہ ''میاں اب اردو میں بھی کچھ سناؤ!'' ان بزرگ کے سامنے مسئلہ فارسی آمیز یا ان کے نزدیک فارسی زدہ اردو کا تھا جب کہ اقبال تو اردو میں پنجابی تک کی آمیزش کے حامی تھے( اس امر کا تجزیہ صوتیات کے علما ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں کہ اقبال کی نظموں اور غزلوں کے صدہا اشار جن کا خاتمہ بلند بانگ مصمتوں پر ہوتا ہے کہیں ان کی اس آرزو مندی کا غیر ارادی اظہار تو نہیں تھے)۔ ''بانگ درا'' کی غزلوں میں محولا بالا دو اشعار کے استثنا کے ساتھ' عربی آمیز زبان یا فارسی کا آہنگ بس اس حد تک نمایاں ہے جسے اردو کی شعری روایت اپنی عادت کا جزو بنا کر قبولیت کی سند دے چکی تھی۔ بعد کی غزلوں میں اقبال نے اس حد کو بھی عبور کرنا چاہا۔

ان کی غیر مردف غزلوں میں بندۂ آزاد' لذت ایجاد' بامراد اور زیاد یا کدو' من وتو' اور خودرو' یادیر پیوندی' آداب فرزندی اور راز الوندی' یا لب ریز' پرویز' پرہیز اور ستیز یا شاہبازی' تازی اور رازی یا پازند' مانند' قند اور خورسند' یا خویشی' بے نیشی اور ناخوش اندیشی یا زیرو بم' جم اور شکم یا دقیق' طریق اور عہد عتیق یا کراری' تاتاری اور زناری یاصف' ہدف ' نجف تلف اور بانگ لاتخف' یا فلک الافلاک' نالۂ آتش ناک اور خس و خاشاک یا خود آگاہی' بوئے اسد اللہی اور روباہی یارحیل' اصیل' دلیل اور اسماعیل یا غازی' تازی اور خاراگدازی یا کشاف' ناصاف اور اعراف جیسے قوافی' فارسی کی نسبتاً نامانوس تراکیب اور قرآن کی آیات یا عربی مرکبات کا بے تکلفانہ استعمال اردو غزل کی سرگزشت میں کم و بیش ایک ان ہونے واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فلسفہ' تہذیب اور سماجی علوم کے مختلف شعبوں کی بعض اصطلاحیں جو اقبال کی فکر سے گزر کر ان کے شاعرانہ وجدان تک گئی تھیں' ''بال جبریل'' کی غزلوں میں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ اقبال کی یہ کوشش غزل کے نقاد کے لئے ایک نیا مسئلہ ہے اور اس سے ایک نئی بوطیقا کی ترتیب کا تقاضا کرتا ہے۔

اب رہی اقبال کی غزل کی فکری زاویوں اور اس کے عام فنی محاسن و معائب کی بحث تو اس باب میں اقبال نے نظم اور غزل کے بیچ کوئی بڑا فرق روا نہیں رکھا۔ ہر بڑے شاعر کی طرح ان کی تخلیقی شخصیت بھی ہمیں اس کے غیر منقسم ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

مقبول خبریں