عدالتی فعالیت سے انصاف کی دہلیز تک

ایڈیٹوریل  بدھ 11 دسمبر 2013
سپریم کورٹ کی باگ ڈور محفوظ ہاتھوں میں دے کر جا رہا ہوں،چیف جسٹس   فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کی باگ ڈور محفوظ ہاتھوں میں دے کر جا رہا ہوں،چیف جسٹس فوٹو:فائل

ایک آمر کے سامنے حرف ’’انکار‘‘ ادا کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک بھرپور کیرئیرگزارنے کے بعد بدھ کو ریٹائر ہوگئے، کئی حوالوں سے ان کی ذات ملک میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہے گی بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ وہ مجموعی طور پر جوڈیشل ایکٹیوازم سے قومی زندگی کو روشناس کرا گئے ۔گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب میں چیف جسٹس کا یہ کہنا بجا ہے کہ سپریم کورٹ کی باگ ڈور محفوظ ہاتھوں میں دے کر جا رہا ہوں،افراد آتے اور چلے جاتے ہیں،ادارے کی مضبوطی ہماری اولین ترجیح رہی ہے، ایک عظیم جدوجہدکے نتیجے میں بحال ہونے والی عدلیہ نے بہتر انداز میں کام کیا، مگر عجیب بات ہے کہ فل کورٹ ریفرنس کی کوریج کی اجازت صرف ایک منظور نظر نجی چینل کو دی گئی جس پر عوامی حلقوں میں اچھا تاثر نہیں ابھرا۔اس امتیازی سلوک پر دیگر چینلز نے احتجاج کیا۔اس سلسلے میں انکوائری کی جانی چاہیے کہ فل کورٹ ریفرنس کی کوریج کے ’’حقوق‘‘ صرف ایک نجی چینل کو دے کر چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کو متنازعہ کیوں بنایا گیا؟

بہر حال ماضی کے دریچوں میں جھانکنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ عدلیہ ہمیشہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمروں کے فیصلوں کی توثیق کرتی رہی جس کی وجہ سے جمہوریت ملک میں پروان نہ چڑھ سکی ۔افتخار محمد چوہدری کی جرات وہمت نے ایک وکلا تحریک کی بنیاد رکھی اور وقت نے دیکھا کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایک آمرکو رخصت ہونا پڑا ۔پھر پانچ سال تک سابق منتخب حکومت کو چلتا کرنے کی تاریخیں دی جاتی رہیں لیکن عدلیہ نے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچائے رکھا ۔چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ شروع کیا ، اور پھر یہ رجحان کافی بڑھتا گیا، ہائیکورٹ کے جج صاحبان بھی بعض واقعات کے رونما ہونے پر ازخود نوٹس لینے لگے ۔اسی تناظر میں متضاد آراء سامنے آئیں، پہلی تو آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے تھی جس کے مطابق ازخود نوٹس کا رجحان ضرورت سے زیادہ تھا اور اسے بعض حلقوں نے پسند بھی نہیں کیا ۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں کسی  قسم کی کوئی شنوائی نہ ہو، وہاں عدلیہ کی فعالیت کو عوام میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی ۔

زیادہ ترکیسز کے فیصلے پی پی پی کے سابق دور حکومت میں ہوئے،سوئس اکائونٹس والا کیس کھلا ،صدر کے استثنی کے باعث اس پر اصرار کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ، اس تمام عرصے میں  پی پی پی عدلیہ محاذ آرائی میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کا کیس بھی سامنے آیا ۔ چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے کیس کے حوالے سے بہت موثر اور اچھا کام کیا جسے بھرپور پذیرائی بھی ملی،بہرحال عدلیہ درست سمت میں چلتی رہی۔اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا ہے، ہمیں یہ کریڈٹ سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دینا پڑے گا کہ انھوں نے خودکو قانون سے بالاترسمجھنے والے سرکاری حکام اور شخصیات کو عدالت میں طلب کیا اور ان کی گوشمالی کی۔

وطن عزیزکے باسی اس دن کے انتظار میں ہیں جب غریب کو انصاف کے حصول کے لیے دردر ٹھوکریں اورذلت ورسوائی سے نجات ملے گی اورتمام شہریوں کومساوی حقوق ملیںگے، اس ضمن میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ میں پائی جانے والی کرپشن اور چھوٹے چھوٹے سول کیسز کا ایک یا دو دہائیوں تک فیصلہ نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے جس سے یہ تاثر طاقت ور ہوتا ہے کہ سیاسی کیسز کے فیصلے تو فوری طورکیے گئے لیکن غریب عوام  انصاف کے حصول کے لیے خوار ہوتے رہے ۔ عدالتی فیصلوں میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ جب تک عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور نہیں کیا جائے گا فوری اور سستا انصاف عوام کو نہیں ملے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔