پاکستانی اونٹ گاڑی کے مالک اور امریکی صدر کی غیر معمولی دوستی

الماس اختر  اتوار 2 فروری 2014
بشیر کو دورے کے موقع پر فورڈ موٹر کمپنی کی طرف سے تحفے کے طور پر ایک ٹرک بھی دیاکیا گیا۔

بشیر کو دورے کے موقع پر فورڈ موٹر کمپنی کی طرف سے تحفے کے طور پر ایک ٹرک بھی دیاکیا گیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ  بہت سے لوگ سابق امریکی صدر لینڈن بی جانسن اور ایک کراچی سے تعلق رکھنے والی اونٹ گاڑی کے مالک کی غیر معمولی دوستی کے بارے میں جانتے ہیں یا نہیں ۔

اس دوستی کا آغاز 1960 کی دہائی میں  تب ہوا جب  اس وقت کے نائب  امریکی صدر لینڈن جانسن نے پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران کراچی کی سڑک پر ایک شخص کو اپنے اونٹ کے ساتھ کھڑے امریکی نائب صدر کے قافلے کی جانب ہاتھ لہراتے ہوئے دیکھا۔

جانسن نے پاکستانی سرکاری اہلکار کواونٹ کے ساتھ کھڑے شخص سے متعارف کرانے کاکہا۔  اونٹ گاڑی کا مالک بشیر ساربن نائب امریکی صدر کے ساتھ ہاتھ ملانے  کے لیے انتہائی  پرجوش تھا، تھوڑی بہت جتنی بھی انگریزی زبان وہ جانتا تھا اس میں بشیر نے خود کو متعارف کرایا۔ حیرت انگیز طور پر صدر جانسن نے اسے ٹیکساس میں اپنے مویشی خانے اور وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دے دی۔

بشیر نے شاید سوچا ہوگا کہ صدر مذاق کررہے ہیں۔ اس شک اور عہد شکنی کے دور میں شاید ہم اسے ایک اتفاقیہ ملاقات  سمجھ کر بھلا دیتے اور ایک دن اس کے بارے میں اپنے پوتوں  پوتیوں کو بتاتے۔ لیکن ہم اس بات پر یقین کریں گے کہ امریکی صدر صرف بہت مہربان انسان تھے اور ان کے پاس اور بھی بہت ساری چیزیں تھیں اور ان کے پاس ہمارے یا پاکستان میں موجود صرف ایک اونٹ گاڑی کے مالک کے بارے میں سوچنے کے لئے وقت نہیں ہوگا۔

اس کے علاوہ کیا ہم نے کبھی ان وعدوں کے بارے میں نہیں سنا جو کہ کبھی پورے نہیں ہوئے؟ محض الفاظ  مگرکوئی عمل نہیں؟ سب سے زیادہ یہ ہے کہ یہ ایک اتفاقیہ ملاقات سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

لیکن یہ صرف ایک دوستانہ ذکر نہیں تھا جو جلد بھلادیا جاتا۔

کچھ ماہ بعد ہی بشیر ساربن امریکی حکومت کے مہمان کے طور پر واشنگٹن ڈی سی پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ پر ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال صدر کے سرکاری مہمان کے طور پر کیا گیا اور جانسن خود ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ انہیں وائٹ ہاؤس، کیپٹل ہل اور دیگر یادگاروں کا دورہ کرایا گیا۔

بعد میں بشیرساربن ٹیکساس میں موجود جانسن کے مویشی خانے گئے جہاں وہ جانسن کے ٹرک پر سواری سے لطف اندوز ہوئے اور پھر انہیں دوپہر کے کھانے میں باربی کیو پیش کیا گیا۔ بشیر نےجانسن لنڈن  کی اہلیہ اور ان کے بیٹی کے ہمراہ  واشنگٹن ڈی سی کے مقامی اسکول کا دورہ کیا اور  مترجم کے ذریعے مختصر سی تقریر کی۔ بشیر کو دورے کے موقع پر فورڈ موٹر کمپنی کی طرف سے تحفے کے طور پر ایک ٹرک بھی دیاکیا گیا۔

ان کی  امریکا سے واپسی کے روز بشیر ساربن کو امریکی حکومت کی جانب سے ایک تار موصول ہوا کہ انہوں نے اس کے لے سعودی عرب کے دورے کا اہتمام کیا ہے تاکہ وہ عمرہ ادا کرسکیں۔

“اللہ و اکبر ” یہ وہ الفاظ تھے جو بشیر ساربن کی زبان سے اس وقت  نکلے ۔

ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور ان کے تاثرات اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ وہ امریکی حکومت اور وہاں کی عوام کی مہمان نوازی کےکس قدر احسان مند تھے۔

جب میں ایک چھوٹی بچی تھی تب میری امی نے مجھے بشیر کی کہانی کے بارے میں بتایا تھا۔ بعد میں میں نے خود اپنی تحقیق کی اور مختلف جریدوں میں اس کہانی کے بارے میں پڑا۔

اس عمل نے اس وقت پاکستان اور امریکا کے لوگوں کو قریب لانے میں مدد کی تھی۔

پاکستان کے بہت سے اہم اخبارات نے اس کہانی کو شائع کیا اوراسے  صفحہ اول پر جگہ دی ۔ بشیر ساربن اور صدر جانسن دونوں  ایک امریکی نائب صدر اور ایک پاکستانی اونٹ گاڑی کے مالک کی دوستی کی  کہانی پیچھے چھوڑ کر 70 کی دہائی کے  وسط میں  دنیا سے چلے گئے۔

کبھی کبھی  اس طرح کے خیرسگالی کے اشارے دوملکوں  کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کو نرم کردیتے ہیں۔ صدر جانسن اور بشیر ساربن  دونوں ہی اب زندہ  نہیں ہیں لیکن آج بھی کراچی اور واشنگٹن ڈی سی میں بسنے والے لوگ اس منفرد دوستی  کے بارے ميں بات کرتے ہیں اور اس ہمدردی کی بازگشت آج بھی فضاؤں ميں سنائی دیتی ہے۔

ایک چھوٹا سا فعل تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ واقعہ بھی اسی کی گواہی ہے۔

تصاویر: لائف میگزین

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔