خاناں دے خان پروہنے

وسعت اللہ خان  پير 17 فروری 2014

لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں تو کابل میں امریکی فوج کے ترجمان ، اسلام آباد میں متعین امریکی سفیرکا برتھ ڈے اور وائٹ ہاؤس کے کمروں کی گنتی تک یاد ہے۔مگر ایک عام امریکی شہری زیادہ سے زیادہ اپنے شہر ، بہت ہوا تو اپنی ریاست اور بہت ہی تیر مارا تو کینیڈا، میکسیکو اور اسرائیل کے نام سے واقف ہوتا ہے۔باقی دنیا میں کون کیا ،کیوں ہے ؟ اس کی بلا سے۔۔۔۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عمومی امریکی بیگانگی پر اتنا بل کھانے کی کیا بات ہے۔بھلا سپرپاور کے کسی شہری کو کیا ضرورت  کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چپٹا چینی نہیں ہوتا۔پانامہ کسی نہر کا نہیں ملک کا نام ہے۔ہنڈوراس میں صرف کیلے نہیں انسان بھی ہوتے ہیں۔بھارت اور انڈیا ایک ہی چیزہے۔پاکستان عالمی نقشے پر بھی پایا جاتاہے۔ افغانستان کسی باؤلے کا نام نہیں۔ایران میں ایرانی نہیں فارسی بولی جاتی ہے  اور القاعدہ کی وجہ سے سعودی عرب نہیں سعودی عرب کے سبب القاعدہ ہے ؟

اس قسم کی معلومات صاحبوں کی نہیں محکوم طبیعت ضرورت مندوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ صاحبوں کی پسند ناپسند ، رنگوں ، مزاج ، مشاغل ، رشتے داریوں اور نجی و غیر نجی مصروفیات کا رضاکارانہ ریکارڈ سینہ پھلا کر ایک دوسرے کو دکھاتے پھریں۔ویسے بھی اشرافی شجرے یاد رکھنا مراثی کا کام  ہے۔کیا کسی چوہدری سے کبھی کسی مراثی کا شجرہ سنا ؟؟؟

بعض حاسد ( لاہوری ، چنیوٹی ، پوٹھوہاری اجزا سے گندھی ) پنجابی اشرافیہ کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا اندازِ بیگانگی امریکیوں جیسا ہے۔اور یہ کہ اس اشرافیہ  کے پہلے پانچ صوبے تھے، اب چار ہیں۔ خیبر پختون خواہ ، بلوچستان ، سندھ اور راولپنڈی۔اور یہ کہ اشرافی پنجاب کو ہم سے زیادہ ہمارے وسائل اور منڈی سے دلچسپی ہے۔

اور یہ کہ ہمیں تو یہ تک یاد رکھنا پڑتا ہے کہ میاں صاحب نے آج کس رنگ کی ٹائی کیوں پہنی۔منشا چنیوٹی کو ان دنوں کون سا مارملیڈ پسند ہے اور جنرل گوجرخان کتنی نسلوں سے سپاہ گر ہیں۔مگر وسطی و شمالی پنجاب کو بالکل ضرورت نہیں کہ وہ بلوچ اور بلوچی ، تھر اور تھر پارکر ، مالاکنڈ اور سوات ، بابا فرید اور خواجہ فرید میں فرق کرتا پھرے۔کیا بس اتنا جاننا کافی نہیں کہ سوئی گیس بلوچستان کے کسی علاقے سے آتی ہے اور ختم بھی ہوگئی تو ایران اور ترکمانستان سے اور سوئی گیس آجائے گی۔اس کی صحت پر یہ نہ جاننے سے کیا مضر اثرات پڑیں گے کہ میرپور خاص سندھ میں ہے اور کشمیر کے میرپور سے الگ بھی ہے۔۔۔کیا اتنی معلومات کافی نہیں کہ باڑہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سستا اسمگل شدہ سامان ملتا ہے اور یہ کہ جب تک وزیرستان ، خیبر ایجنسی اور فاٹا میں امن قائم نہیں ہوگا تب تک امن قائم نہیں ہوگا۔۔۔۔۔

مگر میں رحیم یار خان کا پیدائشی نیم پنجابی ہونے کے ناطے ایسی جلی کٹی ایک کان سے سنتا  اور دوسرے سے نکال دیتا ہوں کیونکہ جانتا ہوں کہ جس طرح پسماندہ اقوام امریکا کی فراست ، ترقی اور طاقت سے جلتی ہیں اسی طرح بچارے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کی پنجاب کے بارے میں سوچ بھی چھوٹی رہے گی۔

کوئی نہیں جاننا چاہتا کہ پنجاب کا دل اس کے رقبے اور آبادی سے بھی بڑا ہے۔اس نے قومی یکجہتی کی خاطر اپنی ماں بولی کی جگہ اردو کو دے دی تاکہ چھوٹے بھائیوں کو عرض گذاری میں آسانی رہے۔ پنجاب نے نہ کسی آنے والے کو کبھی روکا نہ جانے والے کو۔پھر بھی آپ کو لاہور ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور پنڈی وغیرہ میں دیگر صوبوں کے لوگ اس لیے خال خال بسے نظرآئیں گے کیونکہ انھیں پنجاب کے خلاف مسلسل بہکایا جاتا ہے۔جب کہ پنجاب کو ایسا کوئی احساسِ کمتری نہیں اسی لیے جیوانی سے سکردو تک سارا جہاں ہمارا۔۔۔۔۔

پنجاب کو کیا پڑی کہ وہ دوسروں کے معاملات میں دخل در معقولات کرتا پھرے۔وہ تو خیر ہو جذبہ ِ انسانیت سے سرشار پنجابی اشرافیہ کی جو اپنے نادان بھائیوں کی ترقی کے لیے نہ صرف افسروں ، ماہرین و مشیران اور علما کی شکل میں علم و ہنر بانٹتی ہے بلکہ برادرانِ یوسف کو عملاً کر کے دکھاتی ہے کہ ڈیم اور موٹر وے ایسے بنتے ہیں ، کانکنی یوں ہوتی ہے ، بندرگاہیں اس طریقے سے چلتی ہیں۔لا اینڈ آرڈر ایسے برقرار رکھا جاتا ہے۔  صحرائی ، بنجر اور پہاڑی زمینیں ایسے ایسے الاٹ ہو کے شاد آباد ہوتی ہیں ، جہاد کیسی کیسی شکلوں میں اور کہاں کہاں کن کن کے خلاف ممکن ہے۔پاکستانیت کے اظہار کے موثر طریقے کیا کیا ہیں۔اچھے اور برے ملک دشمنوں میں کیسے تمیز کی جائے اور پھر ان سے کیسے کیسے نمٹا جائے۔( پرانے زمانے میں اس کیفیت کو وائٹ مینز برڈن کہا جاتا تھا جو رنگ و روپ بدلتے بدلتے اب براؤن مینز برڈن ہوگیا ہے )۔

پر افسوس اشرافِ پنجاب کے اخلاصِ بے غرض کی قدر کرنے والا کوئی نہیں۔چنانچہ باپ کی عدم موجودگی میں پھر یہ بڑے بھائی کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ ایسے کور چشم چھوٹوں کو مجبوراً عقل کا جلاب ویسے ہی دے جیسے مائیں ناسمجھ بچوں کو پیٹ اور طبیعت کی صفائی کے لیے کاسٹر آئل پلاتی ہیں۔۔۔۔

ان تنگ نظروں کو تو طوطے کی طرح بس ایک ہی رٹ لگی  ہے کہ پنجاب کو ہمارے لیے بس وہی بہتر لگتا ہے جو وہ اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے۔اوپر سے یہ جلن کہ دیگر صوبوں میں اس قدر قتل و غارت اور دھماکہ خیزی ہے تو پنجاب کیسے محفوظ ہے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب افریقہ ، مشرق ِ وسطی اور افغانستان جل رہا ہے تو امریکا دوسرے نائن الیون سے کیسے بچا ہوا ہے۔مگر ان بیوقوفوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس طرح امریکا نے دنیا میں جگہ جگہ اپنے فوجی فائر بریگیڈ کے طور پر بھیج رکھے ہیں اسی طرح پنجابی اشرافیہ بھی اپنے فرائض سے ایک لمحے کے لیے غافل نہیں۔

حتیٰ کہ اسلام آباد کی جانب پیدل مارچ کرنے والے ماما قدیر اور ان کے ہم قدم عورتوں اور بچوں کو بھی کسی نے پٹی پڑھا دی کہ یہ وہ پنجاب نہیں جس نے پانچ سو سال پہلے تمہارے چاکرِ اعظم کے لیے بازو کھول دیے تھے۔وہ پاگل پنجابی اور تھے جو چالیس سال پہلے تمہاری محبت میں تمہارے ساتھ ہی پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے۔پھر وہ بھی عقل کے ہتھے چڑھ گئے۔اب تو کوئی ملک غلام جیلانی بھی نہیں جو تمہارے لیے مال روڈ پر پلے کارڈ اٹھائے تنہا کھڑا رہے۔ مدت ہوئی اس زمین کو بے فیض و جالب ہوئے۔اور کوئی فراز بھی تو نہیں بچا۔بس نشیب ہی نشیب ہے۔لہذا اپنا دل کھولنے سے پہلے آنکھیں کھول لو۔

کوئی ہاتھ بھی نا ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ، یہاں فاصلے سے ملا کرو

ماما تمہیں کیسے بتائیں کہ آج کا وسطی و شمالی پنجاب  تمہیں اور تمہارے مارچ کو ملک دشمن سمجھتا ہے کیونکہ ذہنی لحاظ سے یہ والا پنجاب بلوچستان سے اتنا ہی دور ہے جتنا مریخ زمین سے۔ہاں کچھ ہیں جو تمہارا دکھ کچھ کچھ سمجھتے ہیں لیکن تذبذب کا شکار ہیں حالانکہ تمہارے ہاتھ میں بندوق نہیں میگا فون ہے۔ان میں سے کچھ تمہارے ساتھ بھی چند قدم چلنا چاہتے ہیں مگر قدم دل کا ساتھ نہیں دیتے حالانکہ تمہاری قمیض کے نیچے کوئی جیکٹ بھی نہیں۔کچھ تمہیں چائے پانی کھانے کا بھی پوچھنا چاہتے ہیں مگر پھر انھیں ہی کوئی انجانا خوف کھا جاتا ہے حالانکہ تم کسی بکتربند پر بھی سوار نہیں بلکہ ایک ٹھیلے پر غائبان کی تصویریں رکھے بس دھکیل رہے ہو۔

پھر بھی تمہاری سادگی کو سلام ہے، ماما کہ اتنا کچھ گذرنے کے بعد بھی اسی آئین اور اسی جمہوریت اور اسی عدلیہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہو جنھیں خود ان دنوں اپنی غیر شرعی زندگی کا جواز ڈھونڈنے کے لالے پڑے ہیں۔ مامے تم گرم توے  پر بیٹھ جاؤ تب بھی برہمن نہیں بن سکتے۔تمہاری پاکستانیت مشکوک ہی رہے گی۔کئی سال پہلے مجیب نامی کوئی شخص بھی بہت سی فائلیں بغل میں دبائے انھی راستوں سے گذرا تھا۔مگر یہ خلافتِ کلاشنکوفیہ سے پہلے کی بات ہے۔ لہذا سیدھے سیدھے گذر جانا ماما جی اور اگلے وقتوں کے بچے کھچے آئی اے رحمان ٹائپ چند بوڑھوں یا فارغ قسم کے کچھ آدرشی لڑکوں کی نم آلود آنکھوں کے سوا کسی سے ان ہار پھولوں کی توقع مت کرنا جن کے تم کوئٹہ تا کراچی اور کراچی تا ملتان جگہ جگہ عادی ہوچکے ہو۔

اس قدر نری خالص بکواس سننے کے بعد بھی یہ شیردل پنجاب کا بڑا پن ہی تو ہے کہ ہر بار ایسے زبان درازوں پر ترس کھا کے ہنس پڑتا ہے۔کیونکہ جو وہ جانتا ہے وہ یہ پگلے نہیں جانتے۔

اشرافِ پنجاب اگر ہر انگلے کنگلے پیدلیے کو ماما سمجھنے لگیں تو پھر تو ہوگیا  کلیان۔یہاں تو اقبال تک ’’ ایک پنجابی مسلمان سے خطاب ’’ لکھنے کے باوجود  ناکام ہوگیا۔

اس بازوئے شمشیر زن کو بات سمجھانے کے لیے آدمی کا کم ازکم ماما سکندر ، ماما چندر گپت ، ماما اشوک ، ماما غوری ، ماما غزنوی ، ماما اکبر ، ماما ابدالی ، ماما رنجیت سنگھ ، چاچی وکٹوریہ ، ماما سلطان راہی یا ماما طالبان ہونا ضروری ہے۔

’’ خاناں دے خان پروہنے ’’۔۔۔۔۔

یہ محاورہ صرف پنجابی میں ہی کیوں پایا جاتا ہے۔ کوئی تو وجہ ہوگی۔اس پر بھی غور کرنا ماما۔مگر اسلام آباد پہنچ کر۔۔۔۔۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے bbcurdu.com لیے پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔