فیصلہ کرنا ہوگا ۔۔۔ جیت ضروری ہے یا سینئرز کی ٹیم میں موجودگی

فہیم پٹیل  جمعرات 27 فروری 2014
کسی نے کیا خوب کہا کہ آج پاکستان کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ تجربے کی بنیاد پر جیتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کسی نے کیا خوب کہا کہ آج پاکستان کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ تجربے کی بنیاد پر جیتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

نوٹ: اپنی بات کو شروع کرنے کے قبل تمام قارئین سے اپیل اور گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ تحریر کو جذبات سے نہیں بلکہ ہوش مندی سے پڑھنے کی کوشش کریں۔

وقت کم اور مقابلہ بہت سخت ہے ۔۔۔ میرے پاس بھی اور قومی ٹیم کے پاس بھی۔۔۔ مجھے میری فکر نہیں تحریر نہ بھی لکھی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔ لیکن اگر قومی ٹیم سنجیدہ نہیں ہوئی تو پوری قوم کا دل ٹوٹ جائے گا۔ ایشیا کپ کے آغاز میں جس ٹیم کو ‘ ہاٹ فیورٹ’قرار دیا جارہا تھا آج اُس کی سانسیں اُکھڑتے اُکھڑتے رہ گئیں۔ سری لنکا کے خلاف جو ہوا شاید وہ پھر قابل برداشت تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ چلو اچھی ٹیم ہے میدان میں پچھاڑسکتی ہے۔۔۔ لیکن افغانستان؟ نہ نہ نہ خدانخواستہ یہاں شکست ہوجاتی تو پھر کیا ہوتا؟ میرے لیے تو تصور بھی محال ہے۔

ذرا تصور تو کیجیے۔ اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لیے پاکستان کو چار میں سے صرف دو فتح درکار تھی۔ سری لنکا سے شکست کے بعدتو پھر تین میں سے دو کا آپشن موجودرہتا، لیکن اس شکست کے بعد تو ناک آوٹ مرحلے میں داخل ہوجاتے، یعنی بھارت اور بنگلہ دیش دونوں سے فتح ناگزیر ہوجاتی، اب بھلا آپ خود ہی بتائیے کیا یہ کوئی آسان کام ہوتا، اور مورال کا کیا ہوتا؟ کھلاڑی تو ٹوٹ ہی جاتے۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ آج پاکستان کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ تجربے کی بنیاد پر جیتا ہے، لیکن پاکستانی ہونے کے باوجود میرے لیے تو آج کی فاتح افغانستان ہی ہے، اس فتح کو دیکھنے کے بعد تو میرے ذہن میں ایک ہی مثال سامنے آرہی ہے “وہ آیا اُسنے دیکھا اور وہ چھاگیا۔”

چلیں جو ہوا سو ہوا، اللہ نے عزت رکھ لی اب ہمیں بھی اُس کی لاج رکھنی چاہیے۔ لیکن ایک چیز اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر ٹورنامنٹ میں مزید فتوحات سمیٹنی ہیں تو بڑے فیصلے ناگزیر ہیں۔

فوٹو: اے ایف پی

مجھے کوئی یہ منطق سمجھادے کہ شاہد آفریدی نے تیز ترین سینچری بنائی ہے تو اس لیے وہ ٹیم میں رہیں گے؟ موصوف نے کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ چھکے لگائیں ہیں تو اس لیے اب یہ چھاپ لگ چکی ہے کہ جب تک وہ کھیلنا چاہیں تو ٹیم کے دروازے اُن کے لیے کھلے ہیں؟ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ قوم کی اکثریت اُن کو پسند کرتی ہے لیکن یہ بھی کوئی ایسی وجہ نہیں کہ بغیر کارکردگی کہ اُن کو ٹیم میں مستقل شامل رکھا جائے۔ سری لنکا کے خلاف بھی وہ ٹیم کو فتح دلواسکتے تھے مگر جذبات قابو میں آئیں گے تو قوم کے لیے سوچیں گے نہ۔ افغانستان کے خلاف بھی ٹیم ایک نازک صورتحال سے گزرہی تھی لیکن اُس کے باوجود وہ ایک ہی ارادے کے ساتھ میدان میں اُترے تھے کہ بال کو میدان سے باہر پھینکیں گے، اب کوئی اُن کو سمجھائے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، جوانی میں بڑے چھکے چوکے مارے، اب شاید وقت گزرچکا ہے۔ کم از کم میری تو یہ حسرت ہی رہ گئی ہے کہ عمران خان کے بعد کوئی قومی کھلاڑی عزت کے ساتھ رخصت لے۔ اس لیے آفریدی سے اب گزارش ہے کہ اشتہارات پر توجہ دیں اور عزت کے ساتھ رخصتی کو قبول کرلیں یہی اُن کے لیے بھی اور ٹیم کے لیے بھی بہتر ہے۔

بات صرف آفریدی کی نہیں ہے۔ یہی معاملہ محمد حفیظ اور دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ہے ۔۔۔ اب معاملہ تو کوچ اور مینجمنٹ کے ہاتھ میں ہی ہے۔ اگر ہماری آواز اُن تک پہنچ رہی ہے تو گزارش کی جاتی ہے وقت اب بھی نہیں نکلا۔ یہ سوچنے کا نہیں بلکہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے اور صرف فیصلہ نہیں بلکہ بڑے فیصلے کا وقت ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔