مضبوط عورت، مضبوط معاشرہ

قمر عباس نقوی  جمعرات 13 مارچ 2014

ایک ادارے کی طرف سے شایع کردہ انگریزی میں لکھا ہوا بروشر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بروشر غالباً ہر سال کی 8 مارچ کو منایا جانے والا عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے تھا ۔ جس میں 4 جملے تحریر تھے جن کا اُردو ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا ۔ عورت کے لیے ملازمت کے دوران ان 4 اصولوںپر عمل کرنا نہایت ہی کھٹن ہوتا ہے ۔ 1 -آپکی سوچ ہر صورت میں مردوں کی طرح ہو ۔ (2) آپ جو بھی کام کریں عورت ہی کے انداز میں کریں ۔ 3 آپ جوان و توانا نظر آئیں ۔ 4 آپ کے کام کی انجام دہی ایک گھوڑے کی مانند ہو۔ پڑھ کر بہت غوروفکر اور مشاہدہ کیا مگر میں کسی بھی منطقی نتائج تک پہنچنے میں ناکام رہا ۔ ہم اسلامی معاشرے کی پیداوار ہیں ہمارے پاس ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اور ان کی اسوہ حسنہ اور سب سے بڑی رہنمائی کی کتاب قرآن مجید موجود ہے ۔ بالخصوص قرآن کے پانچویں پارے میں نازل کردہ 176 آیت پر مشتمل سورۃ النساء میں عورتوں کے جائز حقوق و فرائض کی واضح طور پر تشریح کردی گئی ہے ۔عورت کی مختلف اقسام ہیں ۔اچھی بھی اور بری بھی ۔

دیہات میں رہنے والی گھریلو اور کھیتوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین ، شہری علاقوں میں رہنے والی متوسط گھریلو ملازمت پیشہ خواتین ، استحصالی معاشرے کا شکار دار الامان میں رہنے والی خواتین ، اولڈ ہاؤسز میں زندگی کے آخری دن پورے کرنے والی بد نصیب خواتین ، مردوں اور سسرال کے ظلم و ستم سے عاجز صاحبہ اولاد طلاق شدہ خواتین ، بیوہ خواتین ، دماغی امراض کے اسپتالوں اور جیل میں قید خواتین ۔اگر تقابلی موازنہ کریں تو ان تمام خواتین کی طرز زندگی بہت مختلف ہوگی اور یقینا ان کی زندگی کے ساتھ دکھ درد بھری داستانیں بھی چھپی ہونگی ۔ عورت پر ظلم و ستم کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے بالخصوص دیہاتی اور قبائلی علاقہ جات میں ۔عورت ہی وہ واحد معاشرے کی اکائی ہے جو مردوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہے ، اگر اس دن کا تعلق ملازمت پیشہ ، محنت کش خواتین سے ہے تو یہ ہمارے معاشی اور سماجی کمزوری کی نشانی ہے ۔ ہمارا معاشی اور اقتصادی نظام ناکام ہے ، دوسری صورت معاشرے میں ہونے والی معاشی نا انصافیاں بھی ہوسکتی ہیں جو عورت کو حصول روزگار کی تلاش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہیں ۔

ہم نے اس راز کو جاننے کے لیے عالمی سطح پر مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگست 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد ہونے والی عالمی خواتین کانفرنس میں امریکن سوشلسٹ اور جرمن سوشلسٹ لوئیس جیٹز (Luise Zietz) نے ہر سال عورتوں کے عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی تھی جس کو سراہتے ہوئے کمیونسٹ رہنما کلارا ذیٹکن(Clara Zetkin) نے مزید تقویت دی اور یوں 17 ممالک کی کل 100 خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا ۔ جس کے تحت معاشرے میں مساوی جائز حقوق کی بنیاد پر ایک مستحکم اور مربوط پالیسی کے لیے حکمت عملی کا نفاذ تھا ۔ باضابطہ طور پر پہلی دفعہ لاکھوں کی تعداد میں آسٹریا ، ڈنمارک، جرمنی ،سوئٹزرلینڈ میں اس دن کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ۔ اسی طرح 1913 ء میں (سابقہ سوویت یونین ) روس کی خواتین نے سب سے پہلے خواتین کا عالمی دن منایا ۔ اقوام متحدہ کی کونسل نے اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے 1975 میں باضابطہ طور پر خواتین کا عالمی دن منانے کی منظوری دی ۔منظوری کا مقصد قطعاً یہ نہیں تھا کہ خواتین کو مردوں پر بالا دستی یا ان سے انتقام کی کوئی صورت ہو ۔ خواتین کی تقریرو تحریر کی آزادی ، ان کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم کرنا ، مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی تعمیر وترقی میں برابری کی بنیاد پر شرکت کو یقینی بنانا ، عورت کی عزت احترام اور تعظیم بجا لانا ۔بلا شبہ عورت ہمارے معاشرے کا اہم جز ہے بلکہ خاندان کی ایک اہم اکائی ہے ۔اس تنگ نظر اور بے حس معاشرے میں عورت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو سمجھ لیں کہ ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ جائیں گے اور ترقی کے تمام راستے ہمارے لیے بند ہوجائیں گے ۔

عورت جہاں خاندانی ذمے داریاں نبھارہی ہے وہاں بڑی محنت اور جان فشانی کے ساتھ قومی ذمے داریاں بھی نبھا رہی ہے کہیں یہ ماں ، بیوی، بہن، بیٹی، بھتیجی،بھانجی کے انمول رشتے سے منسلک ہے ۔عورت سے محبت کا بھی کیا خوب رشتہ ہے اسی لیے پوری دنیا میں عورت سے محبت کے اظہارکے لیے (Mother Day) اور (Valentineday) منایا جانا ایک فطری عمل ہے ۔ عورت کا مرد سے محبت کا رشتہ لافانی ہے ۔ زمانہ قدیم ہی سے عورت مرد سے محبت کی متلاشی رہی ہے ۔بقول سید علی رضا زیدی کے :

سبک مت جانیے اس کو ، محبت کھیل ہے ایسا
جیتا ہے وہی اس میں ، جو ہارے جان کی بازی

دنیا میں ہونے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے معاشرے کے ہر فرد کو مادہ پرستی کی طرف مائل کردیا ہے ۔نازک اور خاندانی رشتے پامال ہو رہے ہیں جس نے انسانی قدروں کو یکسر تبدیل کردیا ہے ۔عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ہمارے معاشرے کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے، مگر افسوس کہ تعلیم کے ساتھ ہماری عورت تربیت سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ ارتکازِ دولت کا عمل بھی تیز ہوچکا ہے ۔موجودہ دور لڑکیوں کی پیدائش کا ہے سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں لڑکیوں کی اوسط تعداد سب سے زیادہ ہے اور تعلیمی میدان میں بھی لڑکیوں کی نسبت کارکردگی بہت اعلیٰ ہے ۔ آج کل لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں اپنے سسرالی رشتے نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں ۔

ایک امیدوار سے انٹرویو میں سوال پوچھا گیا کہ بتائیں دنیا کی خوبصورت ترین عورت کونسی ہے ۔۔؟ امیدوار نے درست جواب دیتے ہوئے کہا ’’میری ماں ‘‘جب ہم عورت کے حقوق کا ذکر کریں تو ہمیں معذور محنت کش عورت جسے ہم عرف عام میں خصوصی خواتین کہیں گے اُن کو نظر انداز کیاجانا معاشرے کی سراسر نا انصافی ہوگی ۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ بعض خواتین معاشی تنگ دستیوں کی وجہ سے جسم فروشی میں ملوث افراد کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور ان کے لیے وہ کمائی کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ علاقائی پولیس بھی اس گھناؤنے کاروبار میں برابر کی شریک ہے۔ ذرا معاشرے کی بے حسی تو دیکھئے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کی چھاپہ مار ٹیمیں رنگے ہاتھوں انھیں پکڑتے ہیں ان چینلز پر ہم نے ان عورتوں کو مردوں کے تشدد کا نشانہ بنتے دیکھا ہے ۔اس عمل سے گریز کیا جانا چاہیے۔ میری ذاتی طور پر اس کالم کے توسط سے ارباب اختیار ، این جی اوز، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے درخواست ہے کہ عورت کی تضحیک نہ کی جائے ورنہ ہمارے اس دن کو منانے سے کسی قسم کا فائدہ ہونے کے بجائے محض وقت کا ضیاع ہوگا ۔ ان کی اگر مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی قومی اور مذہبی ذمے داری کو سمجھتے ہوئے ان کی مجبوریوں پر پردہ ہی رکھ لیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا یا عمل پسند آجائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔