دینی اور دنیاوی تعلیم کی نئی جہتیں

شبیر احمد ارمان  پير 17 مارچ 2014
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے تحت مذہبی مدرسوں کو ایک سال کے اندر اپنے قومی نظام تعلیم میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تعلیم دینی ہو یا کہ رسمی اس کی اہمیت ہر زمانے کے معاشرے میں رہی اور رہتی دنیا تک رہے گی۔ اسی علم کی بدولت فرشتوں کو اﷲ کے حکم پر حضرت آدمؑ کے آگے تعظیمی سجدہ کرنا پڑا۔ انسان اس لیے اشرف المخلوقات ہے کہ اﷲ نے تمام مخلوقات سے بڑھ چڑھ کر علم دیا، اسی علم کی بنا پر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ (نائب) بناکر بھیجا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ انسان علم کا خزانہ لے کر پیدا ہوتا ہے بلکہ انسان کی فطرت میں اﷲ تعالیٰ نے یہ استطاعت رکھ دی ہے کہ اگر وہ علم سے سرشار ہونا چاہے تو ہوسکے ورنہ دیگر اپنی بے سمجھی بے علمی کی بنا پر دینی اور دنیاوی ترقی کے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔ حقیقی ترقی کے لیے اشد ضروری ہے کہ یکساں نظام تعلیم اور درست طریقہ تعلیم رائج کیا جائے۔

تعلیم کا مقصد محض حصول روزگار نہیں ہے، بامقصد تعلیم فرد کو معاشرے کے لیے ذمے دار شہری اور کارکن بناتی ہے، اس طرح ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی مقاصد اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق ہونا بھی لازم ہے، چونکہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے اس لیے اسلامی تعلیم کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی تعلیم فرد کو زندگی کا مقصد اور درست طرز زندگی اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کردیتی ہے اور فرد کی زندگی درست راستے پر گامزن ہوجاتی ہے، اس طرح ایک مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ سوچ کسی بھی طرح سے درست نہیں کہ دینی علوم کے علاوہ رسمی تعلیمی حاصل نہ کی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز پاکستان میں مخصوص نظریات کے حامل دینی و مذہبی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے خود ساختہ تشریح کی بنا پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس سے ملک و قوم کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بھی کافی حد تک نقصان اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام بیک وقت دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے دینی تعلیم حاصل کرلینے سے فرد ایک عمدہ نمونہ اخلاق بن جاتا ہے اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے فرد اپنے ذہنی رجحان کے مطابق شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ آج ہم یہ گلہ کرتے پھرتے ہیں کہ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں نہیں ہیں، ٹیکنالوجی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ تو کیا کبھی اس جانب غور کیا گیا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہم نے صرف اپنا نام لکھنے پڑھنے کی حد تک تعلیم عام کی ہوئی ہے اگرچہ ہم نے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے لیکن عملاً ہم نے طبقاتی نظام تعلیم اور سیلف فنانس اسکیموں، بے سراپا اور مہنگی لچر تعلیم کی حوصلہ افزائی کرکے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ملک و قوم کو شعبہ تعلیم میں نقصان پہنچانے والے لوگ ان پڑھ اور جاہل نہیں تھے ماہرین تعلیم میں ان کا شمار آج بھی کیا جاتا ہے ملک و قوم کے مفاد کا تقاضہ ہے کہ نام نہاد تعلیمی ماہرین کا بھی احتساب عوامی عدالت میں کیا جائے اور حقیقی ماہرین تعلیم کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

بات ہو رہی تھی دینی اور دنیاوی تعلیم کی دونوں تعلیم لازم و ملزوم ہیں انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم و تربیت میں انسان کے مزاج کی درستی اور اخلاق و عادات کو سنوارنا ہوتا ہے لہٰذا ذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ ساتھ اخلاق و عادات کا سدھار بھی ضروری ہے۔ ہجرت مدینہ کا ایک نہایت اہم اور روشن پہلو یہ تھا کہ مسلمان وہاں جاکر تعلیم و تربیت حاصل کریں، چنانچہ تعلیم کی یہ اہمیت تھی کہ اگر کسی مرد کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہوتی تو اس کا اپنی بیوی کو لکھا پڑھا دینا بھی مہر تصور کرلیا جاتا تھا اور دین اسلام میں ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ توبہ کی 122 ویں آیت میں (تفقہ فی الدین) کے الفاظ آئے ہیں بات کی آسانی کے لیے مذکورہ آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل آتے اور دین کی سمجھ (تفقہ فی الدین) پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر اسلامی روش سے) پرہیز کرتے‘‘۔ یہاں (تفقہ فی الدین) سے مراد دین میں سمجھ اور نظام کی بصیرت اور اس کے مزاج سے آشنائی ہے تاکہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے کے متعلق جانا جاسکے کہ کون سا طریق فکر اور کون سا طرز عمل روح دین کے مطابق ہے ۔ اسلام کے اس قانونی علم کو ’’فقہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ملک بھر میں مدارس کھل گئے اور مفتی تعلیم کا رواج عام ہوا اور بعض مدرسوں نے عربی کے علاوہ کوئی دوسری زبان خصوصاً انگریزی سیکھنادرست نہیں سمجھا۔ نتیجتاً تمامتر صلاحیتیں ایک مخصوص دائرے میں آ گئیں جسے اصل کارنامے سے تعبیر کیا جانے لگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کی اچھائیوں کو اجاگر کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کمزوریوں کو دور کیا جائے اور انھیں مختلف النوع مثبت راستوں پر گامزن کیا جائے تاکہ ملک و قوم شعبہ تعلیم میں بھی ترقی کرسکے ۔

تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ملک بھر میں 245 مدارس تھے، 1988 میں 2861 اور دو ہزار میں 6761 ہوگئے تھے اور اب 2014 میں ان مدارس کی تعداد تقریباً 22 ہزار بتائی جاتی ہے۔ جو ملک کے چاروں صوبوں میں قائم ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دین اسلام ہر مرد و زن کو تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، یہ امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ دینی تعلیم و تربیت سے وابستہ حلقوں کو اس جانب بھی غور و فکر کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو دینی و رسمی تعلیم دلوائی جاسکے کیونکہ تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ قوم جنم دے سکتی ہے اور اس حقیقت سے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے، اگر ماں کی تربیت اچھی ہوگی تو لامحالہ بچے کی تربیت بھی خوب ہوگی، بس اس چھوٹی سی بات کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے پھر دیکھیے کس طرح ہمارا معاشرہ بھی تعلیم یافتہ کہلائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔