تعلیم کے نام پرنفع بخش کاروبار

نجمہ عالم  جمعرات 17 اپريل 2014

شہر قائد میں موسم مشاعرہ کے ساتھ ساتھ جو ایک اور موسم آیا وہ تاحال اپنے عروج پر ہے اور وہ ہے ’’موسم نتائج امتحانات و سالانہ تقسیم انعامات‘‘ موسم مشاعرہ سے تو شہر کا ایک مخصوص طبقہ متاثر ہوا باقی تمام شہری اپنے معمول کے روزوشب بسرکرتے رہے مگر اس موسم سے پورے شہر کا کم و بیش ہر گھر متاثر ہوا ہے۔ اعلیٰ درجوں کے طلبا اور ان کے والدین نتائج و تقسیم انعامات کے علاوہ الوداعی تقریبات کے بخار میں بھی مبتلا ہیں۔ شہر کے تمام سرکاری اور چھوٹے بڑے نجی اسکولوں کے علاوہ گلی گلی کھلے مدرسوں میں بھی امتحانات کے بعد نتائج اور نئے داخلوں کی رونق لگی ہوئی ہے۔

بڑے نجی تعلیمی ادارے تو خیر ’’بڑے‘‘ ہیں ہی ان کا کیا کہنا، مگر ہر محلے میں گلی گلی 120 گز سے لے کر ایک ہزارگز تک رہائشی عمارتوں میں جو تعلیمی کاروبار جاری ہے ان کا تو گویا کاروباری سیزن آج کل عروج پر ہے بلکہ سال بھر کا نفع نقصان ان ہی دو تین مہینوں پر منحصر ہے۔ ان چھوٹے اور غیر معیاری اسکولوں میں نتائج اور سالانہ تقسیم انعامات کی تقریبات مختلف شادی ہال یا نسبتاً سستے ریسٹورنٹ یا ہوٹلوں میں منعقد ہو رہی ہیں۔ ان تقریبات کے تمام تر اخراجات طلبہ کے والدین کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔

محنت کشوں کے بچوں (جن کے والد رکشا، ٹیکسی چلاتے یا مزدوری کرتے ہیں اور مائیں کئی کئی گھروں میں بطور گھریلو ملازمہ کام کرتی ہیں ) کی مالی حیثیت سے واقف ہوتے ہوئے بھی یہ نام نہاد اسکول ان کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں دس پندرہ فیصد بھی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی جب کہ ان طلبا کے والدین اس مہنگائی میں اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کے خواب آنکھوں میں سجائے نامی گرامی انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود اسکولوں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی بستی کی کسی معمولی پڑھی لکھی لڑکی یا خاتون سے ٹیوشن بھی پڑھواتے ہیں ۔ یہ ٹیوٹر البتہ ان کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں کہ پہلی سے ساتویں جماعت کے طلبا سے وہ صرف پانچ سو روپے ٹیوشن فیس لیتی ہیں۔

البتہ یہ ٹیوشن طلبہ کی علمی استطاعت بڑھانے کی بجائے صرف ان کو ہوم ورک کرا دینے اور امتحانات کی اتنی تیاری کرا دینے تک محدود ہوتی ہے جتنا بچہ ازخود کرسکے وہ تو صرف ہوم ورک مکمل کرا کر بچے کو یاد کرنے کا کہہ کر اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوجاتی ہیں کچھ دیر بعد بچے سے پوچھ لیتی ہیں ’’یاد ہوگیا؟‘‘ بچہ جان چھڑانے کے لیے کہہ دیتا ہے جی یاد ہوگیا اور ان کی چھٹی ہوجاتی ہے۔ اس ہوم ورک میں اسکول ٹیچرز غلطیوں کی نشاندہی کرکے والدین کو اسکول بلاکر شرمندہ کرتی ہیں۔ جب کہ ان کا موقف ہے کہ اگر ہم پڑھے لکھے ہوتے تو خود ہی اپنے بچوں کو پڑھاتے مگر ہماری مجبوری ہے جب ٹیوٹر سے بات کی جاتی ہے تو وہ سارا الزام بچے پر عاید کردیتی ہیں کہ یہ محنت ہی نہیں کرتا/کرتی ہم تو انھیں مقررہ وقت سے زیادہ دیر تک پڑھاتے ہیں۔

اصولاً تو اسکول ٹیچرز سے یہ شکایت کی جانی چاہیے کہ آپ اپنے معیار کے مطابق کیوں نہیں پڑھاتیں کہ بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت ہی پیش نہ آئے؟ ہمارے معاشرے میں آج جتنے اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں کا اضافہ ہو رہا ہے تو ٹیوشن پڑھنا بھی گویا ضروریات زندگی میں شمار ہونے لگا ہے۔ بڑے بڑے صنعتکاروں، تاجروں، بیوروکریٹس، اسمگلرز، رشوت خور یا اپنے ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے لیے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں وہ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم یعنی او لیول، اے لیول یا پھر میٹرک یہاں سے کروا کر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے روانہ کردیتے ہیں اور وہ طلبہ جو ان درجوں میں بمشکل سی گریڈ یا کبھی کبھی بھولے بھٹکے بی گریڈ کسی ایک پرچے میں لے آتے ہیں۔

چند سال بعد آکر اساتذہ کو سلام کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم امریکا، کینیڈا، برطانیہ یا آسٹریلیا سے فلاں فلاں اعلیٰ اسناد لے کر آئے ہیں اور اب اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہے ہیں یا کسی بڑے ادارے کے اعلیٰ عہدے پر براجمان ہیں یا پھر ان ہی ممالک میں ’’سیٹ‘‘ ہوگئے ہیں۔ مگر مسئلہ تو ان محنت کشوں کا ہے جو اپنی زندگی کی آسائش بلکہ ہر ضرورت کو پس پشت ڈال کر اپنے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک سو بیس گز کے مکان کے تنگ کمروں جہاں کھیل کا میدان تو کجا اسمبلی کے لیے بھی جگہ نہیں ہوتی انگلش میڈیم کا بورڈ لگا کر ابتدائی جماعتوں کا آغاز کردیا جاتا ہے اور اگلے ہی سال دو سو گز کے مکان میں سیکنڈری سیکشن اور اس سے اگلے سال او لیول، اے لیول، میٹرک بلکہ انٹرمیڈیٹ کی شاخوں تک یہ اسکول ترقی کرچکا ہوتا ہے اور بیک وقت یہ تمام سیکشنز کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ان اسکولوں کے سمجھدار مالکان ان ہی عمارتوں میں شام کو ٹیوشن سینٹرز بھی چلاتے ہیں اور یوں ان عمارتوں کا سال بھر کا کرایہ ایک ماہ میں ہی وصول ہوجاتا ہے۔

ان اداروں میں پڑھنے والے طلبا کے والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے جن اسکولوں میں کھیل کا میدان، کتب خانہ کچھ بھی نہیں ہوتا وہاں ٹیوشن فیس کے ساتھ اسپورٹس لائبریری کے علاوہ سیکیورٹی فیس کی مد میں بھی رقم وصول کی جاتی ہے۔ اسکول میں کوئی بھی تقریب ہو طلبا سے مزید اضافی رقم وصول کی جاتی ہے۔ یوں چند ہزار خرچ کرکے کسی بھی تعلیمی ادارے کا آغاز کرنے والا چند برسوں میں لکھ پتی بن جاتا ہے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں مزید برانچز اس ادارے کی کھلتی چلی جاتی ہیں۔

طلبہ کو نصابی کتب کاپیاں ڈرائنگ کا سامان سب کچھ ان ہی اسکولوں سے ان کی مقرر کردہ قیمت پر خریدنا پڑتا ہے۔ ایک اسکول میں پہلی جماعت کے بچے کی نصابی کتب تقریباً ڈھائی ہزار تک کی ہیں اور یونیفارم بھی خود اسکول فراہم کرتا ہے اس کے لیے بھی رقم تین ماہ کی ٹیوشن فیس کے ہمراہ جمع کرنا پڑتی ہے۔ پھر تقریب تقسیم اسناد و انعامات میں غریب بچوں کو یکسر نظرانداز کرکے ’’بڑے لوگوں‘‘ کے بچوں کو انعامات و تحائف کے علاوہ ٹافیوں کے پیکٹ بھی دیے جاتے ہیں جب کہ محنت کشوں کے بچے اتنی رقم دے کر صرف ایک ٹافی تک کے لیے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی محنت کش خاتون کا کہنا ہے کہ اصل حوصلہ افزائی تو ہمارے بچوں کی ہونی چاہیے کیونکہ ان کو تو گھروں پر بھی ایسا ماحول نہیں ملتا وہ تو اپنی ہی محنت سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ان خاتون کی بات اپنی جگہ مگر ہم خود یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر تعلیمی اداروں میں بھی طبقاتی فرق قائم رکھا جائے گا تو کیا صورتحال پیدا ہوگی؟

اب ذرا ہمارے شہر کے نامی گرامی بڑے اور مشہور تعلیمی اداروں پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔ یہاں ٹیوشن فیس جتنا بڑا نام اتنی ہی زیادہ ہونے کے باوجود لائبریری، اسپورٹس، آرٹس، لیب فیس کی مد میں مزید رقم وصول کی جاتی ہے۔ البتہ ان بڑے اسکولوں میں کیونکہ مقابلے کا رجحان ہے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے طرح طرح کی پرکشش مراعات و سہولیات دینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے مثلاً Fully Air Conditioned کلاس رومز اور لائبریری و لیب وغیرہ کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں کینٹین اور کومن رومز (لڑکے لڑکیوں کے) پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ سال میں تین چار بڑے بڑے فنکشنز ہوتے ہیں ہر تقریب کے لیے طلبا سے اچھی خاصی رقم اس کے علاوہ لی جاتی ہے یہی نہیں بلکہ Welcome اور الوداعی پارٹیوں کے لیے نہ صرف یہ پارٹیاں دینے والے بلکہ جن کو دی جا رہی ہیں یعنی مہمانوں کے علاوہ اساتذہ سے بھی فی کس اخراجات کے لحاظ سے رقم وصول کی جاتی ہے۔

ان اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی الوداعی پارٹی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اکثر یہ پارٹی کسی Five Star ہوٹل میں منعقد کی جاتی ہے تاکہ آیندہ داخلے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہوں گویا تعلیمی کاروبار کو مدنظر رکھا جاتا ہے ان ’’بڑے‘‘ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو محض رقص و موسیقی پر مشتمل پارٹیاں وہ بھی مشہور ہوٹلز میں کرنے پر حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو کیا یہ نسل ملک و قوم کے بارے میں کبھی مثبت انداز فکر اختیار کرسکے گی؟

ہمارا موقف ہے کہ تعلیمی ادارے محض تعلیم فراہم نہیں کرتے بلکہ نسل نو کے لیے تربیتی ادارے بھی ہونے چاہئیں۔ یہاں ان کو کفایت شعاری، حب الوطنی، خدمت خلق، وطن اور اہل وطن سے جذبہ ہمدردی اور خلوص کی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔ مگر ہمارے تعلیمی ادارے تو فضول خرچی، غیر ذمے داری، اپنے علاوہ کسی کے بارے میں نہ سوچنے اور ملک و قوم کے لیے کچھ نہ کرنے کی تربیت دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ قومی سطح پر جو لوٹ کھسوٹ جاری ہے اگلی نسلیں تو اس سے دو ہاتھ آگے ہی ہوں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔