یوٹیوب کی بندش؛ مجرمانہ غفلت یا مجبوری

نصیرالدین چشتی  جمعرات 24 اپريل 2014
ہمارے حکمران گستاخانہ مواد کی وجہ سے عوام کے جذبات کو ڈھیس پہنچنے سے زیادہ ان کو معلومات تک رسائی دینے سے خوفزدہ ہیں۔ فوٹو : فائل

ہمارے حکمران گستاخانہ مواد کی وجہ سے عوام کے جذبات کو ڈھیس پہنچنے سے زیادہ ان کو معلومات تک رسائی دینے سے خوفزدہ ہیں۔ فوٹو : فائل

ہمارے ہاں عام کہاوت ہے کہ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ اب یوٹیوب کی بندش کو ہی دیکھ لیجئے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد صرف دو باتیں ہی ممکن لگتی ہیں۔پہلی پاکستان میں یوٹیوب کی بندش کو یا تو ہم نے ذاتی،معاشی اور سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے اسے ایک آرٹ کا درجہ دے دیا ہے، دوسری یا پھر اقوام عالم میں ہمارا ملک پاکستان ہی اکلوتا اسلامی ملک ہے۔

اگر دوسری صورت کو حقیقت مان لیا جائے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دیگر اسلامی ممالک جیسا کہ سعودی عرب، عراق، ایران، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ میں اسلام کا دعوی کرنے والے منافقوں کی اکثریت قیام پذیر ہے۔ کیونکہ پاکستان اس وقت شاید دنیا میں اکلوتا اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں ویڈیو شیئرنگ کیلئے معروف ترین ویب سائٹ یوٹیوب مکمل طور پر بند ہے۔سرکاری طور پر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ویب سائٹ پر گستاخانہ فلم موجود ہے اس لیئے یہ ویب سائٹ بحال کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔اب یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جب ہمارے ملک میں بسنے والے سچے اور کھرے مسلمانوں کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے توسڑکوں پر لوٹ مار اور جلائو گھیرائو کا ایک عظیم الشان سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اللہ کے نام پر مسلمان بھائیوں کی دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں، اور اللہ ہی کے نام پر ہی لوگوں کی وہ جائیدادیں جسے لوٹا نا جا سکے نذرآتش کر دی جاتی ہیں۔

زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات اور طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام میں سے صرف چند افراد ہی اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ گستاخانہ فلم کی یوٹیوب پر موجودگی اس ویب سائٹ کی بندش کی اکلوتی وجہ ہے۔اگر واقعی میں ایسا ہوتا تو ہماری انتہائی محب وطن اور فرض شناس حکومت جو بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کیلئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتی،امریکی عدالت کے حکم پر گوگل کی جانب سے اس ویڈیو کا ہٹائے جانے کے بعدفوراََ یوٹیوب بحال کر دیتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔نہ خدمت خلق میں شب و روز حکومت کو اتنا وقت ہی مل سکاکہ وہ اس معاملے پر کوئی واضح بیان دے پاتی۔

یہ بات تو واضح ہو چکی کہ یوٹیوب پر پابندی کا درحقیقت گستاخانہ فلم کی موجودگی سے کوئی تعلق نہیں۔تھوڑی دیر کیلئے ہم یوٹیوب کی بات نہیں کرتے۔ چلیں اس ملک کی بات کرتے ہیں کیا یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہے؟ ۔اگر ہاں تو کوئی یہ بتائے گا کہ بلدیاتی انتخابات پر ہمارے جمہوری حکمرانوں نے پابندی کیوں عائد کی ہوئی ہے؟مقامی حکومتوں سے ہماری جمہوری حکومتیں کیوں ڈرتی ہیں؟ وجہ بہت آسان اور سادہ ہے کیونکہ مقامی حکومتوں کے بعد اختیارات نچلی سطح تک عوام کو منتقل کرنا پڑتے ہیں۔عوام کی سیاسی تربیت کا آغاز ہونے لگتا ہے،نئی قیادت ابھرنے کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں۔اس طرح حکمران دیہاتوں سے بلدیاتی انتخابات کو مسلسل التوا میں ڈال کر عوام کو ان کے آئینی اور جمہوری حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔بالکل اسی طرح یو ٹیوب پر پابندی کا تعلق عوام کو معلومات تک رسائی کا بنیادی ،انسانی اور آئینی حق نہ دینے سے ہے۔آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اس دور میں معلومات یا علم ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ لیکن ہمارے حکمران گستاخانہ مواد کی وجہ سے عوام کے جذبات کو ڈھیس پہنچنے سے زیادہ ان کو معلومات تک رسائی دینے سے خوفزدہ ہیں۔

شاید بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یوٹیوب پر پابندی ہر قسم کے گستاخانہ مواد کی روک تھام کا بہترین اور اکلوتا ذریعہ ہے۔مانا کہ یوٹیوب ویڈیو ڈیٹا کی سب سے بڑی آن لائن لائبریری ہے۔ کمپیوٹر، سائنس، ٹیکنالوجی، پروگرامنگ، حالات حاضرہ اور مختلف موضوعات پر لیکچرز وغیرہ کے ضمن میں جتنا مواد اس سائٹ پر موجود ہے کسی اور ویب سائٹ پر نہیں۔لیکن در حقیقت یوٹیوب انٹرنیٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جبکہ انٹرنیٹ پر ہر قسم کا مواد بکثرت دستیاب ہے۔ یوٹیوب پر پابندی دیگر ویب سائٹ پر موجود گستاخانہ مواد تک رسائی میں مشکل پیدا نہیں کرتی۔حتٰی کہ پابندی کے باوجود بھی آپ مختلف ٹیکنکس اور پروکسی استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔اور تو اور نیوز چینل پر لائیو نشر ہونے والے ٹاک شو بھی آدھے گھنٹہ بعد یوٹیوب پر باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔اب کوئی بتائے گا کہ یہ کیسی بندش ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مذہب کے نام پر عوام کے آئینی حقوق کی راہ میں روڑے اٹھکانے کی بجائے اپنے اصل کام یعنی اپنی کارکردگی کی طرف توجہ دے۔ اگر ہمارے سیاست دان اور علماء حضرات واقعی اسلام سے محبت کرتے ہیں تو قوم، فعل اور عمل سے اس کا ثبوت دیں ۔ اور دلائل اور منطق کی مدد سے ایسے قوانین کی تشکیل دیں جو آئندہ ایسی گستاخانہ جسارتوں کا راستہ روک سکیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔