تلاشِ رشتہ

مبشر اکرم  جمعرات 15 مئ 2014
دنیا میں ا نسان کے لیے انسان کا ہی رشتہ تلاش کیا جائے نہ کہ کسی حور ، پر ی یا فرشتے کا جس کا وجود ہی ممکن نہیں۔ فوٹو فائل

دنیا میں ا نسان کے لیے انسان کا ہی رشتہ تلاش کیا جائے نہ کہ کسی حور ، پر ی یا فرشتے کا جس کا وجود ہی ممکن نہیں۔ فوٹو فائل

گاڑی دروازے پر آکر رکی اور اس سے مہمان بر آمد ہوئے۔یہ مہمان لاہور سے راولپنڈی صرف گڈو میاں کو دیکھنے آئے تھے ۔مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اور اس کے بعد کھانا لگایا ۔ کھانا کھا نے کے بعد مہمان خالہ جان چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولیں’’ جی ذرا آپ اپنے صاحبزادے کو بلالیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ گڈو میاں مارے شرمندگی کے پانی پانی ہوگئے۔تب مہمانوں پر یہ راز فاش ہوا کہ اتنی دیر سے جو ’’انکل ‘‘اتنی آئو بھگت کر رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ خود گڈو میاں ہیں۔ گڈو میاں کا اتنی بڑی عمر میں بھی کنوارا ہونا کسی اور نہیں بلکہ اپنے ہی گھر والوں کی وجہ سے تھا۔ گڈو میاں کی والدہ اور بہنیں آئے روز کہیں نہ کہیں ’’لڑکی دیکھنے‘‘ گھر سے نکلتیں اور شام کو لڑکی اور اس کے گھر والوں کی برائیاں کرتے واپس لوٹتیں۔ کسی لڑکی کی آنکھیں پسند نہ آتیں اور کسی کے کان۔کوئی انہیں زیادہ موٹی لگتی اور کوئی ضرورت سے زیادہ نازک۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گڈو میاں کے کلاس فیلوز کے بچے میٹرک کر رہے تھے اور گڈو میاں آج بھی مہمانوں کے سامنے سر جھکائے زمین کو گھورے جارہے تھے۔

یہ تو تھی گڈو میاں کی کہانی لیکن در حقیقت تلاشِ رشتہ پاکستان اور اسکے ساتھ کے ایشیائی ملکوں کاایسا مسئلہ ہے جو بیٹی کے پیدا ہوتے ہی والدین کو غمگین کر دیتا ہے۔ ہم عربوں کی جہالت کی مثالیں دیتے لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے کہ وہ لوگ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ مانا کہ اب دور نہیں رہا اب لڑکیوں کو زندہ دفن نہیں کیا جاتا لیکن جوان بیٹیوںکے والدین اور سرپرست آئے روز کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔

آج اگر کوئی لڑکا کسی پنساری کی دُکان پر فقط چھ ہزار پر ملازم بھی ہو اور اگر آپ اُس کی والدہ سے صرف یہ پوچھ لیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے کے لئے کیسی لڑکی کی تلاش ہے؟تو بی بی جی آپ کو جب اپنی مختصر سی ڈیمانڈز بتائیں گی کہ انہیں ایسی لڑکی جائیں جس کا قدلمبا ہو،رنگ گورا ہو،تعلیم اچھی ہو،فیشن نہ کرتی ہو، خدمت گزار ہو،والد ذرا صاحبِ حیثیت ہو، ہمیںخوش رکھے وغیرہ وغیر ہ ۔ بظاہر یہ سب باتیں ٹھیک ہی ہیں۔مگر پہلی بات تو یہ کہ تمام صفات کا ایک جگہ پایا جانا ممکن ہی نہیں ۔ کیونکہ لڑکیوں کا قد عام طور پر ہوتا ہی چھوٹاہے۔ اوررنگ کی بات کی جائے تو آج کل گورا ہونا ہمارے نزدیک اصل خوبصورتی ہے مگرافسوس اس سر زمین پر بسنے والے عام طور پر گورے نہیں ہوتے۔اچھی تعلیم کا حصول اب ہر کسی کے لئے ممکن نہیںمگراسکے باوجود تمام والدین اپنی اولاد کو اچھی سے اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جہاں تک بات فیشن کی ہے تو اب ایسا ہے کہ فیشن اگر کسی اور کی بچی کرتی ہو تو وہ بے غیرتی ہے اور اگر اپنی بچی کرے تو خوبصورتی۔اپنا بیٹا جیسا بھی ہو بہو فرشتہ چاہئے ہوتی ہے۔میرا کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ پوری زندگی جس کیساتھ گزارنی ہو اسکا انتخاب آنکھیں بند کر کے کرلیا جائے۔مگر بلا وجہ کی شرائط رکھنے سے پہلے اتنا ضرور سوچا جائے کہ جن بچیوں کا قد لمبا نہیں ،یا رنگ گورا نہیں ،تعلیم تھوڑی کم ہو ،مالی حالت زیادہ اچھی نہ ہو توکیا وہ پوری زندگی جلتے کڑھتے تنہا گزاریں گی؟ہمارے یہ خود مقرر کردہ معیار ہر ہر گز ہر گز کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔

نپولین بونا پارٹ جیسا آدمی چھوٹے قد کیساتھ پورا مُلک کو چلا سکتا ہے تو ایک گھر چلانے کے لئے لمبا قدکیا بہت ضروری ہے؟دنیا میں سب سے زیادہ کالے رنگ سے نفرت امریکی گوروں کو تھی اب وہ بھی اس نفرت کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سے بھلاتے جارہے ہیں۔مگر پاکستانی اور ہندوستانی ساسیں ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہیں۔ان بلاوجہ کے نزاکتوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ والدین پر دبائو بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر جلد بازی میں ایسا فیصلہ بھی کرنا پڑتا ہے جوبالکل بھی مناسب نہیں ہوتے۔

رشتوں کی تلاش کے یہی چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کی وجہ سے آج ہر جوان لڑکی کے ماں باپ کی نیندیں اڑی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کام کو جتنا مشکل بنا دیا جائے اس میں فراڈ اور بے ایمانی بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔معاشرے میں رشتوں کا خلا آیا تو اسے پر کرنے کے لیے کاروباری ذہن کے لوگ ’’میرج بیورو‘‘ کے تصور کے ساتھ سامنے آگئے۔آئے روز ان لوگوں کی طرف سے اخباروں اور مختلف ویب سائیٹس پر مختلف رشتوں کے اشتہارات آتے رہتے ہیں۔ان میرج بیوروز کی آڑ میں بھی اب ایسا دھوکہ دہی کا بازارگرم ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہر میرج بیورو نے اپنی حثیت کے مطابق رجسٹریشن فیس رکھی ہوئی ہوتی ہے۔جھوٹے رشتے کا اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے،رشتے کے امیدواروں سے رجسٹریش فیس وصول کی جاتی ہے،اس کے بعد بعض اوقات خود ساختہ ’’والدین‘‘ سے بھی ملوایا جاتا ہے اور پھر ٹکا سا’’ سوری‘‘کہہ کر شکار کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔

یہ میرج بیوروز اپنے اشتہارات ایسے ہی شائع کراتے ہیں جیسے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کے ساتھ خوراک لگائی جاتی ہے،مثلاََ ’’لڑکی عمر بتیس سال،رنگ گورا،قد چھے فٹ،فیملی بیرونِ ملک سیٹل،اپنا بزنس وغیرہ وغیرہ‘‘۔ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ’’ ایسے لڑکے کو ترجیح دی جائے گی جوبیرونِ ملک شفٹ ہوسکے‘‘۔یہ لوگ اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ رفعِ شک کی خاطرکوئی معمولی سا عیب اشتہار میں لکھنا نہیں بھولتے تاکہ حقیقت کا تڑکا لگایا جاسکے۔ایسے اشتہارات کو دیکھ کرسینکڑوں لوگ میرج بیورو کی فیس اداکرتے ہیںاور سہانے سپنے آنکھوں میں بسائے جواب کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔انہیں کچھ دن بعد ’’جواب‘‘ موصول ہوتا ہے کہ ’’آپ کی تصویر دکھائی تھی لیکن آپ ان لوگوں کو پسند نہیں آئے‘‘۔

دوسروں طرف رشتے کے متلاشی ا فراد بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ باقاعدہ دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور پھر اس بات پر ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے کہ اسکی آنکھ ٹیڑھی ہے،اسکی ناک لمبی ہے،اسکا ہنسنا عجیب ہے،اس کی چال ٹھیک نہیں لگ رہی اور اس کے چلن۔ سوچئے جب محلے کی’’ رشتے کرانے والی مائی‘‘ آکر ایسی وجوہات سناتی ہوگئیں تو ماں باپ اور لڑکی کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ ظاہر ی طور پر ان مسائل کا کوئی حل دیکھائی نہیں دیتا کیونکہ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے کچھ بدل نہیں سکتا۔میری صرف یہی گزارش ہے کہ دنیا میں ا نسان کے لیے انسان کا ہی رشتہ تلاش کیا جائے نہ کہ کسی حور ، پر ی یا فرشتے کا جس کا وجود ہی ممکن نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔