(پاکستان ایک نظر میں)- آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو

نعیم اقبال  ہفتہ 7 جون 2014
جہیز نہ ملنے پر بیٹی کو اس طرح رد کردیا جاتا ہے جیسے گاہک دکان پررکھی ہوئی چیز پسند نہ آنے پر اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔ فوٹو فائل

جہیز نہ ملنے پر بیٹی کو اس طرح رد کردیا جاتا ہے جیسے گاہک دکان پررکھی ہوئی چیز پسند نہ آنے پر اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔ فوٹو فائل

اکثر آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ جب کسی کے ہاں’’بیٹی‘‘ کی پیدائش ہوتی ہے تو اس وقت ایک ہی جملہ زبان زدِ عام ہوتا ہے کہ،

’’ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو‘‘۔

جبکہ در حقیقت بیٹی تو ہوتی ہی نصیبوں والی ہیں۔یہ دعا آپ کو ’’بیٹی‘‘ کی پیدائش پر ہی کیوں سننے کو ملتی ہے؟ کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے۔ بیٹی کے بارے میں تو نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ،

’’ مبارک ہے وہ عورت جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو‘‘۔

یہ دعا اس لئے تواتر کے ساتھ دی جاتی ہے کہ ’’بیٹیاں‘‘ پرائی ہوتی ہیں اور انہیں ایک دن اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر پیا گھر سدھرناہوتا ہے اور یہاں سے وہ نصیب شروع ہوتا ہے جس کے لئے اس کی پیدائش پر دعا دی جاتی ہے کہ،

’’ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو‘‘۔

موجودہ دور میں بیٹی کی خوشیوں کے لئے والدین ہر قسم کا دکھ و تکلیف برداشت کرتے ہیں۔اس کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرتے ہیں۔جب بیٹی جوان ہوتی ہے تو اس کے لئے ایک عدد اچھا رشتہ درکار ہوتا ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اگر اچھا رشتہ مل جائے تو پھر والدین کو جہیز کے نام پر فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ تھما دی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ فرمائش بھی ساتھ لف ہذا ہوتی ہے کہ داماد کو کاروبار بھی کروا کر دیا جائے تاکہ آپ کی بیٹی کا مستقبل اچھا گزرے۔ جو والدین اپنے بیٹوں کے لئے خوشیوں کے نام پر بھاری بھرکم جہیز کی فرمائش کرتے ہیں انہیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کی شادی پر انہیں کیا جہیز دیا تھا؟

بیٹی خواہ پڑھی لکھی، صوم صلوۃ کی پابند، اچھے خاندان سے ہو لڑکے والوں کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا انہیں صرف اور صرف جہیز سے غرض ہوتی ہے۔ اگر مطلوبہ جہیز دے دیا جائے تو رشتہ طے پا جاتا ہے ورنہ بیٹی کو اس طرح رد کر دیا جاتا ہے جیسے گاہک دکان پر رکھی ہوئی چیز پسند نہ آنے پر اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔جہیز نہ دینے کی پاداش میں نجانے کتنی بیٹیوں کے ہاتھوں پر پیا کے نام کی مہندی نہ لگ سکی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے پڑھنے کے بعد کسی ساس یا سسر کا دل پگھل جائے اور کوئی بیٹی ارم بننے سے بچ جائے۔ دس برس قبل ہمارے محلے میں ایک مڈل کلاس فیملی دو بیٹیوں ارم اور مہوش کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ فیملی کیا تھی سراپا شرم و حیا ۔ماں باپ نے اپنی بچیوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ بیٹیاں جب جوان ہوئیں تو والدین نے رشتوں کی تلاش شروع کر دی۔ مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے عزیز و اقارب نے انہیں کوئی لفٹ نہ کرائی۔ رشتہ کروانے والوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔

قصہ مختصر بڑی بیٹی ارم کی شادی طے ہو جاتی ہے۔ کچھ جمع پونجی اور زیادہ قرض لے کر والدین بیٹی کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ارم سسرال میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ والدین بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں ارم کی طرف سے’’ ٹھنڈی ہوا‘‘ آرہی ہے۔ایک دن اچانک ارم میکے آتی ہے اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیتی ہے۔ وسوسوں اور اندیشوں میں دو تین گھنٹے گزرنے کے بعد جب ارم کمرے کا دروازہ کھولتی ہے اور سارا ماجرا والدین کو بتاتی ہے کہ سسرالیوں نے فہد(شوہر) کو کاروبار کرانے کے لئے پانچ لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی ہے اور شرط رکھی ہے کہ مطلوبہ رقم لے کر ہی گھر واپس لوٹناورنہ۔۔۔۔ یہ سن کر ماں باپ سکتے میں آجاتے ہیں کیونکہ ابھی تک وہ ارم کی شادی کا قرض اتار نہیں پائے تھے کہ اوپر سے ان کے لئے پانچ لاکھ روپے کا بندوبست کیسے ممکن تھا؟

وقت کو جیسے پر لگ گئے تھے۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہو رہے تھے ۔لیکن نہیں تبدیل ہو رہے تھے تو وہ تھے ارم کے نصیب کیونکہ ابھی تک مطلوبہ رقم کا بندوبست نہیں ہوا تھا۔ باپ پہلے ہی دل کے عارضہ میں مبتلا تھا۔ ایک دن ارم کے گھر ایک ’’لفافہ‘‘ موصول ہوتا ہے۔ لفافہ کیا تھا موت کا پروانہ تھا ۔جس کے کھلتے ہی پہلے باپ کی سانس اٹکی اور بعد میں ماں بھی موت کی خاموش وادی میں چلی گئی۔ جی ہاں! ارم کو طلاق بھجوائی گئی تھی۔ ارم طلاق نامہ دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کبھی ہوش نہ سنبھال سکی۔ ارم کی طلاق کے بعد اس کی چھوٹی بہن مہوش کو مرد ذات سے انتہا کی نفرت ہو گئی۔ جہیز کا اژدھاپورا خاندان نگل گیا۔

جو والدین صاحب استطاعت ہوتے ہیں وہ تو بیٹی کی خوشیوں کے لئے جہیز کے نام پر بھاری بھرکم فرمائشیں پوری کر دیتے ہیں لیکن یہ فرمائشیں بیٹی کی شادی کے بعد بھی والدین کا پیچھا نہیں چھوڑتیں جیسا ارم کے ساتھ ہوا۔ جب تک والدین لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں بیٹی کا گھر آباد رہتا ہے ۔ اورجب خواہشیںپوری کرنے کی سکت باقی نہیں رہتی تو نوبت طلاق تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں40 فیصد طلاق کے کیسز جہیز کی کمی کی وجہ سے پیش آرہے ہیں جبکہ ہزاروں بچیوں کی شادیاں اس وجہ سے نہیں ہو پا رہیں کہ ان کے والدین غریب ہیں اور جہیز دینے کے قابل نہیں۔ اس سنگدل معاشرے میں اگر غریب کی بچی بیاہی بھی جائے تو اسے زندگی بھر جہیز کم لانے پر طعنے سننا پڑتے ہیں۔ کئی بچیاں کم جہیز لانے کے جرم میں سسرالیوں کے ہاتھوں زندہ جلا دی جاتی ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ بیٹیوں کی شادیاں بر وقت ہو ں تو ہمیں شادی کے انتظام و انصرام کو سہل بنانا ہو گا۔والدین توبیٹی کو سسرالیوں کے کہے بغیر ہی اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ بیچارے مقروض بھی ہو جاتے ہیں۔اس لئے لڑکے والوں کو جہیز کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہئے۔ اور و جن والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہواسب کچھ ہے انہیں چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر فضول اخراجات سے اجتناب کریںتاکہ معاشرے میں پھیلی اس جہیز کی روایت کو فروغ دینے سے روکا جاسکے۔ اور غریب والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی پردقت پیش نہ آئے۔ بلکہ میرے خیال میں صاحب استطاعت والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد گلی محلے میں نظر دوڑائیں اور دیکھیں جو غریب والدین اپنی بیٹی کی شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر پاتے ان کی مالی معاونت کریں تاکہ بیٹیوں کے سروں میں چاندی نہ اترے اور وہ اپنے آپ کو دھرتی کا بوجھ تصور نہ کریں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔