پاکستان کا گہرا ہوتا ہوا بحران

زمرد نقوی  پير 9 جون 2014

پاکستان اس وقت ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں اس بحران میں مزید تیزی آئی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری اور مسلم لیگ (ق) جس کے روح رواں چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے لندن میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے حکومت کی تبدیلی کے لیے تحریک جلد شروع کی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان بھی لندن سے ہو آئے ہیں لیکن انھوں نے فوری طور پر اس تحریک میں شامل ہونے کی رضامندی ظاہر نہیں کی۔ لگتا ہے کہ وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں۔

ویسے بھی وہ اسلام آباد اور فیصل آباد کے کامیاب جلسوں کے بعد اور زیادہ پر اعتماد ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں ان کی پارٹی نے پنجاب کے دیہی علاقے میں ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے جس نے ان کے حوصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑے شاندار پراجیکٹ کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ تو جب بڑے بڑے منصوبے مکمل ہوں گے تو تب پتہ چلے گا۔ جن کی تکمیل میں کم از کم تین سے پانچ سال لگیں گے۔ اس وقت عوام کی جان لوڈشیڈنگ نے نکالی ہوئی ہے۔ اوپر سے قیامت کی گرمی۔ شہروں دیہات میں 12 سے 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

عوام کو جو بجلی میسر ہے وہ انتہائی مہنگی کر دی گئی ہے۔ اس مہنگی بجلی کی وجہ سے اشیاء صرف کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ دن میں پانی کی کمیابی اور رات کی بے خوابی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ یہ بڑے شہروں کا حال ہے۔ چھوٹے شہر اور دیہات کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اب حال ہی میں اعلان کردہ بجٹ کو لے لیں جس کو تمام مزدور یونینوں اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین نے مسترد کر دیا ہے۔ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 200 فیصد مہنگائی میں اضافہ کر کے دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا ہے۔

موجودہ قلیل اضافہ صرف ان لوگوں کو ہی ملے گا جو سرکاری اور نیم سرکاری ملازم ہیں۔ باقی کروڑوں ملازمین کے حصے میں تو کچھ بھی نہیں آئے گا۔ ان کی زندگی تو اس وقت ہی آسان ہو سکتی تھی کہ جب مہنگائی میں کمی آتی لیکن یہاں تو ایکسائز ڈیوٹی دکان دار کی سطح پر نافذ کر دی گئی ہے۔ یہ ڈیوٹی وہ اپنی جیب سے تو نہیں دے گا وہ اس اضافے کو عوام کی طرف منتقل کر کے اپنی جاں بچا لے گا۔ بجائے غریبوں کے، بڑے کاروباری اداروں پر ٹیکس عائد کیا جاتا۔

ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ڈائریکٹ ٹیکس کے بجائے جس کی زد میں امیر سرمایہ دار آتے ہیں اِن ڈائریکٹ ٹیکس کو ایک عادت بنا لیا گیا ہے جس میں عوام کی استعمال میں آنے والی ہر شے پر ٹیکس لگا کر بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے بجٹ میں پندرہ سو ارب روپے کا خسارہ دکھایا گیا ہے۔ اب یہ کہاں سے پورا ہو گا، کوئی پتہ نہیں یا اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید بیرونی قرضہ لیا جائے گا جب کہ تیرہ سو ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں نکل جائیں گے جب کہ سات سو ارب روپے دفاع کے لیے چاہئیں۔

جب یہ حالات ہوں تو پاکستان کے غریب عوام لندن میں جاری کردہ دس نکاتی ایجنڈے پر کیوں نہ دھیان دیں جس میں کہا گیا ہے کہ ہم ہر شخص کو روزگار اور بے گھر کو گھر دیں گے۔ پندرہ ہزار سے کم آمدنی والوں کو آٹا کپڑا دودھ آدھی قیمت پر ملے گا۔ بجلی پانی گیس پر ٹیکس ختم کر دیا جائے گا۔ میٹرک تک تعلیم مفت ہو گی۔ روزگار فراہم نہ کرنے کی صورت میں بے روزگاری الائونس دیا جائے گا۔

ایک طرف ہماری معیشت و سیاست سنگین بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کر کے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری ہمارے بحران کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنے گی۔ اس کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔ بلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اس خاص وقت میں الطاف حسین کی گرفتاری کا فائدہ کسے ہو گا۔ اسی دوران پاکستانی عدالت نے 2009ء میں ہونے والے ڈرون حملے کے ضمن میں اسلام آباد میں متعین سابق سی آئی اے اسٹیشن چیف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ غور فرمائیں 3 جون کو الطاف حسین کو گرفتار کیا تو صرف دو دن بعد سی آئی اے چیف کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔

صدر اوباما نے کچھ دن پیشتر امریکی ملٹری اکیڈمی میں امریکی فوجیوں سے خطاب کیا جس میں انھوں نے کہا کہ امریکا کو کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں جب اور جہاں کہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے۔ امریکا وہاں کسی کی اجازت لیے بغیر طاقت استعمال کرنے کا حق استعمال کرے گا۔ امریکا اتحادیوں سے مل کر ناپسندیدہ ملک کو تنہا کرنے کے لیے ڈپلومیسی پابندیاں لگائے گا۔ دنیا میں ایٹمی مواد غیر محفوظ انداز میں موجود ہے جو امریکا کے لیے خطرہ ہے۔ (اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ طالبان کے حوالے سے۔۔۔) ڈرونز کا استعمال جاری رہے گا۔ یعنی اس ضمن میں بھی ہماری خوش فہمی کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چین و روس سے تعلقات بڑھا رہی ہے اور امریکا سے دور ہٹنا چاہتی ہے۔ کیا یہ اتنا آسان ہے؟ ایک اور اعلیٰ امریکی سفارت کار کے مطابق پاک امریکا تعلقات ایک ایسی شادی ہے جس میں طلاق ممکن نہیں۔ کیا ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کیا اس تمام صورت حال میں موجودہ سیاسی ڈھانچہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے درمیان اصل جھگڑا ہی اس بات کا ہے یعنی جمہوریت تو باقی رہے گی لیکن اس کو لیڈ کونسا پاکستانی سیاسی گروہ کرے گا۔

٭…میں نے اس سال فروری میں پیشین گوئی کی تھی کہ مارچ سے جون تک الطاف حسین کے لیے احتیاط طلب وقت ہے اور ایسا ہی ہوا۔خصوصاً جولائی اگست۔

٭… ایم کیو ایم کے لیے اہم تاریخیں 18-7 جون تا 15-14 جون ہیں۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔