(میڈیا واچ)- ’’علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈین‘‘

سدرہ ایاز  پير 23 جون 2014
دن رات موجود حکومت کو کوسنے اور مختلف القابات سے نوازنے والوں کو پہلا اپنا آپ کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو ایکسپریس نیوز

دن رات موجود حکومت کو کوسنے اور مختلف القابات سے نوازنے والوں کو پہلا اپنا آپ کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو ایکسپریس نیوز

’’علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈین‘‘۔ لگتا ہے کچھ لوگوں کو میرے’ کینیڈین‘ لفظ کے استعمال کرنا سخت ناگوار گزرا ہے ظاہر ہے علامہ کہنے پر تو کسی کو اعتراض ہو نہیں سکتا۔ لیکن میں کون ہوتی ہوں حقیقت کی پردہ پوشی کرنے والی۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قادری صاحب دہری شہریت کے مالک ہیں۔ لہذا کینیڈین کا لفظ اضافی نہیں۔

2 سال پہلے تک پاکستان کی 50 فیصد نہیں بلکہ 80 فیصد عوام ’انقلاب بابا‘ کو نہیں جانتی تھی۔ لیکن اچانک ہی 14 جنوری 2013 کی روشن صبح نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں طاہر القادری کا نام روشن کردیا۔ ہاں البتہ ان کا دعوی نیا ضرور تھا کہ چاہے آندھی آئے یا طوفان  ’ انقلاب‘ کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔ کہا تو صحیح تھا اندھی تو نہیں آئی موسلادھار بارش ہوگئی، طوفان تو نہیں آیا لیکن لوگوں کے سیلاب ڈی چوک امڈ آیا۔

لگاتار 4 دن 14 جنوی سے 17 جنوری 2013 تک، دن رات، اٹھے جاگتے، چلتے پھرتے اطراف میں صرف انقلاب بابا کی ہی گونج سنائی دیتی۔ مجھے تو خواب میں بھی دھرنا دینے والوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ بلآخر 17 جنوری 2013 کو 10 رکنی حکومتی ٹیم سے  مذاکرات کے بعد قادری صاحب نے اپنے بلٹ پروف محفوظ کنیٹر سے باہر آکر دھرنا ختم کرنے کی نوید سنائی۔ میرے نزدیک ایک سیاستدان جب تک لوگوں کے درمیان بیٹھ کر ان کی طرح تکلیف اور اذیتیں نہیں سہتا اسے عوام کے دکھ اور جذبات کا احساس نہیں ہوسکتا۔ ڈی چوک پر جس طرح بوڑھے، خواتین اور شیر خوار بچوں نے دن رات اذیتیں سہیں انہیں دیکھ کر کسی بھی نرم دل انسان کا پسح جائے، لوگ سردی سے ٹھٹرتے رہے، دھوپ اور بارش میں ثابت قدمی سے اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے کھڑے رہے۔ اور دوسری جانب قائد صاحب خود نہ صرف دن رات کنٹینرز میں آرام فرماتے رہے بلکہ اپنی شراگیز تقاریر سے ڈی چوک کو کربلا بنانے کی پوری تیاری کرچکے تھے۔ وہ تو بھلا ہو حکومت کا ورنہ منہاج القرآن کی تاریخ میں سانحہ ڈی چوک اور سانحہ لاہور کی طرح دو سیاہ دن رقم ہوجاتے۔

 photo 725462-JanReuters-1403456700-348-640x480_zps91a9e543.jpg

میرے نہیں خیال کہ مجھے سانحہ لاہور، جاں بحق اور زخمی افراد، گلو بٹ، شہباز شریف کے بیانات، رانا ثنااللہ کے استعفے، سیاسی تجزیوں اور جوڈیشل کمیشن کے بارے میں چند سطریں بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔ جو ہوا، جیسا ہوا، کس نے کیا کہا، اور ساتھ ہی گلو بٹ جیسے نامعلوم افراد کا راز افشاں ہونا سب کے سامنے ہی ہے۔ یہاں تک کہ منہاج القرآن کے کارکنان کا اپنے قائد کے فتویٰ کے خلاف جانا بھی سب نے ہی دیکھا ہے۔

پھر چند دن گزرے اور آج بالآخر ’انقلاب بابا‘ پاکستان کی سرزمین پر اتر ہی گیا۔ گذشتہ 3 روز سے ہمارا میڈیا جس طرح دن رات انقلاب بابا کے نام کی تسبیح پڑھ رہا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ انقلاب کا نہ آنا ہے۔ بلاوجہ عوام بجلی، لوڈشیڈنگ، گیس، بے روزگاری، غریب، تعلیم اور صحت جیسے مسائل اور سیاستدان دھاندلی، کرپشن، منصفانہ وسائل کی تقسیم کا رونا روتے ہیں۔ اتنے سالوں سے ہم یہ تمام مسائل سنتے چلے آرہے ہیں لیکن آج مجھے پتا چلا کہ اصل مسئلہ ہی انقلاب کا نہ آنا ہے۔ لیکن میڈیا پر جاری نشریات میں ایک چیز کی کمی ہے ’پیڈ کانٹینٹ‘ یعنی خریدا ہوا وقت۔ ویسے قادری صاحب آپ بھی ایک سے ایک عجیب حکمت عملی سامنے لے کر آتے ہیں۔ آپ اپنی تشہیر کے لئے کوئی اور راستہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ تمام کے تمام میڈیا کو خریدنے کی کیا ضرورت تھی؟

میں تو پچھلے تین گھنٹے سے براہ راست جہاز کے اندرونی مناظر دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہوں۔ اتنا غور تو ہماری قوم نے جہازوں کی آمد و رفت پر کبھی نہیں کیا ہوا جتنا پچھلے تین گھنٹے میں کرلیا۔  پرویز رشید نےٹھیک ہی تو کہا ہے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے جہاز کو ہائی جیک کرلیا ہے اور اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو بحفاظت گھر پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، صرف سیکیورٹی خدشات کی باعث جہاز کا رخ موڑا گیا۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ طاہر القادری، شیخ رشید اور عمران خان کی طرح ایک عام شہری اور ہر جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں۔ اس کے باوجود آپ ایک جہاز کو یرغمال بنا کر بیٹھے ہیں۔ مجبور ہوکر ایمریٹس ایئرلائن کی انتظامیہ نے بھی پاکستانی حکام سے طیارے کو جلد خالی کرنے کا مطالبہ کردیا۔

کیا حکومت کی جانب سے اتنا حوصلہ افزا بیان کافی نہیں ہے؟ جو قادری صاحب نے حکومت پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک فوج کا کوئی افسر نہیں آتا تب تک وہ جہاز سے نہیں اتریں گے۔ معاف کیجئے گاقادری صاحب کیا آپ کے نظر میں ہماری پاک فوج کی یہ اہمیت ہے کہ وہ سیاستدانوں کے آگے پیچھے گھوم کر انہیں سیکیورٹی پروٹوکول دیتی پھرے؟ آج آپ یہ مطالبہ کررہے ہیں کل کو کوئی اور اٹھ کر میدان میں آجائے گا۔ ایک طرف تو آپ شمالی ویزستان میں جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ کی حمایت کے دعویدوار ہیں۔ اور دوسری جانب ایسا غیر ذمہ دارنہ رویہ کہ صرف سیکیورٹی پروٹوکول کے لئے فوج کو آپریشن چھوڑ کر آنے دعوت دے رہے ہیں۔ فوج کے افسران کو طلب کرنے کا بیان تو سیدھا سیدھا آپریشن میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔

 photo 265001-TahirQadri-1403507371-874-640x480_zpsb6b634bb.jpg

انقلاب کے نعرے لگانے کی آڑ میں آپ کی عمل کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ دن رات موجود حکومت کو کوسنے اور مختلف القابات سے نوازنے والوں کو پہلا اپنا آپ کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف حکومت مخالف بیانات اور دوسری طرف عوامی تحریک کے کارکنوں کے اشتعال انگیز رویے، مظاہرے، نعرے بازی، ایئرپورٹ میں گھسنے کی کوشش، توڑ پھوڑ اور پولیس پر دھاوا بول دینا، کیا منہاس القرآن میں کارکنوں امن و امان کا یہ درس دیا جاتا ہے؟ پرامن جماعت کا نعرہ لگانے والوں کے چہرے حالات کی سختوں سے آگے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں۔

 photo 725462-image-1403513543-334-640x480_zpsc5e1082c.jpg

صرف دعوں سے ملک میں انقلاب برپا نہیں ہوتا۔ اس کے لئے حقیقی رہنما بن کر سالوں محنت کرنی پڑتی ہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، شرانگیز بیانات سے قوم کو بھڑکانے کے بجائے  بے خوفی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ شاید اس طرح کےرویے سے پاکستان میں آپ کی دال گل جائے۔  لیکن ایک دفعہ ذرا کینیڈا میں دھرنا دیں، وہاں کے حکومتی نظام کو چیلنج کر کے تو دیکھائیں، سڑکوں پر نکل کر آئیں اور شرانگیز بیانات سے وہاں بیچ سڑک پر بیٹھ  کربلا کے میدان کی منظر کشی تو کریں، شرائط رکھیں اور حکومت کو مختلف القابات سے نوازیں بلکہ کھلے عام کینڈین گورنمنٹ طالبان کا ساتھی قرار دیں۔ ذرا یہ سب کر کے تو دیکھائیں۔ آپ کو آٹے دال کا بھاؤ پتا چل جائے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔