روٹی، کپڑا اور مکان کا ڈیپارٹمنٹ

سعد اللہ جان برق  بدھ 2 جولائی 2014
barq@email.com

[email protected]

چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ کے ناظرین کو ہماری نشریات سے یہ پتہ تو ہے کہ مملکت خداداد ناپرسان کی سب سے بڑی اور کیش کراپ ہے۔ مسائل میں حکومت نے لیڈروں کی مدد سے اس قیمتی پیداوار کی بڑھوتری اور ترقی کے لیے ہر قسم کے خاطر خواہ انتظامات کر رکھے ہیں خاص قسم کے منتخب نمایندے سرکاری محکموں کے تعاون سے مسائل پیدا کرنے کے اتنے ماہر ہوگئے ہیں کہ جس طرف سے گزر جاتے ہیں سڑک کے دونوں کناروں میں مسائل کی ڈھیریاں پڑ جاتی ہیں جیسے کسی کٹائی والی مشین نے گندم کی کٹائی کرکے چھوڑی ہو۔

چنانچہ وہاں کے لیڈر تاجر افسر اور محکمے و ادارے سب ان مسائل ہی کا دیا کھاتے بھی ہیں‘ پیتے بھی ہیں اوڑھتے بھی ہیں اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ لے جا کر جمع بھی کرتے ہیں، لیکن آج ان ایک لاکھ چوالیس ہزار چار سو چوالیس مسائل میں سب سے بڑا ‘سب سے سینئر اور اور سب سے ہمہ گیر مسئلہ روٹی کپڑا اور مکان کا ہے، اس لیے ہم نے اس پر چرچا کرنے کے لیے وہاں کے سب سے سینئر دانشور اور تجزیہ نگار کو بلوایا ہے باقی دانشور اور تجزیہ نگار تو صرف ایک ’’فن‘‘ کی مولی ہوتی ہے لیکن موصوف ہر فن مولی ہیں ‘اس لیے ان کا نام نامی اور اسم گرامی بھی ’’دانش مولی‘‘ ہیں لیکن اس لفظ مولی کا تعلق اس ’’مولی‘‘ سے نہیں جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ پلیٹوں میں کٹتی ہے‘ پیٹوں میں پڑتی ہے اور گیس بن کر اڑتی ہے بلکہ اس لفظ کا تعلق مول تول والی ’’مولی‘‘ سے ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی دانش کے ذریعے یہی تو کرتے ہیں تا کہ نام ہی سے ظاہر ہو کہ وہ ’’انمول‘‘ نہیں بلکہ ’’مولی‘‘ ہیں۔

باقی دو میں ایک تو ہمارے علامہ بریانی عرف برڈفلو ہیں جو مشہور و معروف بلکہ رسوائے عالم غذائی تجزیہ نگار ہیں اور ہر قسم کی مفت ملنے والی غذاؤں پر اتھارٹی ہیں دوسرا وہی قہر خداوندی ہے جو کل بھی تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، تو چلیے سنبھالیے اپنا پروگرام چونچ بہ چونچ ۔۔۔ ہاں تو جناب دانش مولی صاحب ۔۔۔ اسٹارٹیے ۔۔۔ اور یہ بتائے کہ مملکت ناپرسان میں یہ روٹی کپڑا مکان کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا

دانش: پیدا تو ہر جگہ ہوتا ہے بلکہ جہاں جہاں انسان پایا جاتا ہے وہاں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے لیکن ناپرسان میں یہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر ہو گیا ہے۔

اینکر : وہ کیوں ۔۔۔

دانش : اس کے لیے ہمیں پیچھے جا کر تاریخ میں جھانکنا ہو گا

چشم : تو جھانکیے کس نے روکا ہے۔

اینکر : تم چپ رہو دونوں… ہاں دانش مولی صاحب

دانش : بہت عرصے کی بات ہے مملکت ناپرسان میں اچانک بہت بڑی ہستی پیدا ہوئی جسے فخر براعظم  کہتے تھے

اینکر : یہ وہی تو نہیں تھے جس کے لیے کوئی نرگس نامی محترمہ ہزاروں سال سے رو رہی تھی

دانش : وہی ہاں وہی تھے نرگس کا رونا ایک دو ہزار سال بعد کام آیا اور دیدہ ور پیدا ہو گیا

اینکر : اچھا ۔۔۔۔

دانش : اس دیدہ ور نے جب دیکھا کہ انسان کی کل ضروریات صرف تین ہیں روٹی کپڑا اور مکان ۔۔۔

چشم : علامہ اس پر آپ کا کیا خیال ہے

علامہ : حق بات ہے

اینکر : یا جس طرح جمال ناصر نے نہر سویز پر قبضہ کیا تھا

چشم : یا جس طرح علامہ نے گاؤں کی مسجد پر قبضہ کیا تھا

علامہ : بکواس مت کرو میں نے لوگوں کے بے حد اصرار پر مسجد کا عہدہ امامت سنبھالا تھا

دانش : خیر جیسے بھی تھا لیکن اس نے کہا کہ آسمان چونکہ بہت دور ہے اس لیے کم از کم مملکت ناپرسان میں روٹی کپڑا مکان کا ڈیپارٹمنٹ میں خود چلاؤں

اینکر : پھر چلایا

دانش : کوشش کی تھی، پکی پکائی روٹی کے کارخانے قائم کیے، کپڑے کی ملیں لگائیں اور سیمنٹ سریا کے کارخانے لگائے

اینکر : رکاوٹ کیا پیدا ہوئی

دانش : سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ خود تھا جن لوگوں کو اس نے اپنے گرد جمع کیا تھا، وہی تو روٹی کپڑا اور مکان پر قابض تھے اب تو ڈیپارٹمنٹ بھی ان کے قبضے میں آ گیا چنانچہ جو بچی کچی روٹی تھی کپڑے تھے اور ٹوٹے پھوٹے مکان تھے وہ بھی چھین لیے گئے

اینکر : عوام کو کیا ملا

دانش : عوام کو قائد عوام ملا، فخر ایشیاء ملا، بابائے جمہوریت ملا

چشم : تو اب مسئلہ کیا ہے

علامہ : مطلب یہ کہ تکلیف کیا ہے

اینکر : بتایئے پھر ہوا کیا

دانش : ہوا یہ کہ نہ تو روٹی کپڑا مکان کا ڈیپارٹمنٹ ہم سے چلا اور نہ اب کوئی دوسرا قبول کر رہا ہے کہ تمہارے راشن کارڈ تو تم خود لے گئے ہو

اینکر : مطلب یہ کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہوئے، آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹک گئے، نہ خلا ہی ملا نہ وصول صنم، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

دانش : یوں سمجھو کہ وہی ہو گیا جسے کسی کا نام نقل مکانی کے بعد پرانے شہر سے بھی کٹ جائے اور نئے شہر میں بھی راشن کارڈ نہ بنے

اینکر : پھر کیا ہوا

دانش : وہی ہوا جو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، لیکن آدمی ہوشیار تھا عوام کو غچہ دینا اسے آتا تھا چنانچہ عوام کے لیے کچھ ایسے انتظامات کر گیا کہ ہر چڑھتے سورج کے ساتھ نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ اس میں مصروف رہتے ہیں

اینکر : تازہ ترین صورت حال کیا ہے

دانش : وہی ہے جو بدبختوں کا ہوتا ہے زمین میں جگہ نہیں آسمان والے قبول نہیں رہے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے، جو خود محتاج ہو وہ کسی کا رازق اور رزاق کیسے بن سکتا ہے

چشم : ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا

اینکر : ذرا اس مسئلے کی گمبھیرتا پر گمبھیریئے

دانش : گمبھیرتا یہ ہے کہ ناپرسان کے باسی آج کل یوسف بے کارواں ہو کر پھر رہے ہیں باقی اللہ کا دیا سب کچھ ہے حکومت ہے ایک سے ایک بڑھ کر لیڈر ہیں‘ عالم میں انتخاب محکمے ہیں زمین ہے آسمان ہے پانی ہے ہوا ہے دھوپ ہے لیکن اگر نہیں ہے تو روٹی کپڑا مکان ۔۔۔۔

اینکر : تو لوگ کرتے کیا ہیں

دانش : ایک دوسرے سے چھین کر گزارہ کر رہے ہیں یا دنیا کا قدیم ترین کامیاب ترین اور آسان ترین پیشہ اپنا رہے ہیں

چشم : کون سا پیشہ

دانش : بھیک مانگنے کا

اینکر : تو کیا ناپرسان کے لوگ بھکاری ہیں‘ سب تو نہیں لیکن حکومت کی سرپرستی سے سب ہو جائیں گے

چشم : مگر میں نے تو کچھ اور سنا ہے

علامہ : کیا ۔۔۔۔۔۔

چشم یہ کہ وہاں زیادہ تر لوگ چھیننے کا پیشہ کرتے ہیں

دانش : ٹھیک سنا ہے یہی دو پیشے ہی تو وہاں کے سب سے بڑے پیشے ہیں چھیننا یا مانگنا

علامہ : لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ رب عزیز کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں کہ دعائیں مانگیں

دانش : لوگ دعائیں تو مانگ رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ کب شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔