(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ’’کاش میں بیٹی نہ ہوتی‘‘

علی رضا شاف  اتوار 13 جولائی 2014
اخلاقی لحاظ سے ہم اس ضمن میں جس حد تک گِر چکے ہیں بات وہی ہے عورت پہلے بھی مظلوم و مغلوب تھی اور آج بھی۔ فوٹو: فائل

اخلاقی لحاظ سے ہم اس ضمن میں جس حد تک گِر چکے ہیں بات وہی ہے عورت پہلے بھی مظلوم و مغلوب تھی اور آج بھی۔ فوٹو: فائل

اس وقت اگر پورے عالم کا طائرانہ جائزہ لیا جا ئے تو نہا یت ہی دلخراش حقیقت منکشف ہو تی ہے کہ کہیں تو اسے آزادی نسواں کے نام پر رونق بازار بنایا جا رہا ہے اور کہیں اسے لفظ عورت جس کے معنی ہی چھپانے والی چیز ہے اس کی عصمت کو چا ک چاک کیا جا رہا ہے اور کہیں اسے شہوت نفسانی تک محدود تصور کیا جا رہا ہے اور یہ سب مذہبی اور اخلاقی قدروں سے دوری اور اندھی مادہ پرستی ہے جس کی کھائی میں ہمارا معاشرہ گرتا چلا جا رہا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو جس نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ہم سب کے دل جانتے ہیں اور دلوں کے راز اللہ خوب جانتا ہے اور بسا اوقات بندوں پر بھی ظاہر کر دیتا ہے۔  رواں دور میں جس قدر مشکلات اور تذبذب کا شکار صنف نازک ہے وہ موجودہ حالات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے اس پر آشوب دور میں صنف نازک ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو ہمارے معاشرے میں رہنے والے درندوں کی جانب سے لگائے گئے زخموں پر ایک مرحم کی حثییت رکھتا ہو۔اس کے ساتھ ساتھ عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے ابن آدم کے لئے بھی ایک سبق ضروری ہے جسے پڑھ کر وہ غیر عورتوں اور اپنی عورتوں میں فرق مٹا دے۔

اس مو قع پر برادرم محمد علی رانا نے نہایت ہی خوبصور ت اور ایک انتہا ئی سبق آموز تصنیف تخلیق کی ہے جو اپنے انداز میں ایک منفرد حثییت رکھتی ہے۔ اس میں جس طریقے سے ہمارے معاشرے کے ان تما م غلیظ پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے جو کہ عام نظروں سے اوجھل ہیں کہ کس طرح بنت حوا بے راہ روی کا شکار ہے اور کیسی چالوں سے ابن آدم اسے اپنے چنگلوں میں پھنسا کر جھوٹی اور بناوٹی ،محبت کے دعووں سے احساسات و جذبات پر قابض ہو جا تا ہے جو صرف چند لمحوں کے بعد ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ مگر ان بنیادوں کو ٹوٹنے اور ریزہ ریزہ ہونے میں ایک لمحہ بھی درکار نہیں ہو تا جنہوں نے پوری زندگی بنیادیں کھڑی کرنے میں صر ف کی ہو تی ہے ان کے دامن پر ایک داغ ان کی تمام زندگی کا روگ بن جا تا ہے ،جنہوں نے زندگی لگائی ہو تی ہے ان کو اپنے دامن کو خوشیوں سے بھرنے کے لئے صرف ایک حقیقی جذبے اور مسکراہٹ درکار ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

اخلاقی لحاظ سے ہم اس ضمن میں جس حد تک گِر چکے ہیں بات وہی ہے عورت پہلے بھی مظلوم و مغلوب تھی اور آج بھی۔ ہمیں عرب میں اسلام سے پہلے صنف نازک کے ساتھ رواں رکھا جانے والا سلوک ذہن نشین کرنا چا ہیے ۔ ۔ اس وقت ہمیں تاریخ دہرانے کی بجائے اصلاح کے پہلو تلاش کر نے چا ہیے ۔جس طرح چرچل نے کہا تھا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘ اس پُرخار دور میں اچھی مائیں تیار کرنے اور تربیت کے لئے ہمیں اس قسم کی تخلیقات کی اشد ضرورت ہے ہماری نوجوان نسل کو معاشرے کے بگڑے ہوئے اس چہرے سے آشنائی ضروری ہے جو اس وقت پوشیدہ ہے جو صرف داغ لگنے کے بعد ہی نمایاں ہو تا ہے مگر اس داغ کے بعد کوئی بھی سفیدی اسے چھپا نہیں سکتی ہے ۔۔۔

آخر میں مصنف نے فکری انداز میں بنت حوا کو مخاطب کرتے ہوئے جھنجھوڑا ہے اور ضمیر جگانے کیلئے عورت کے رتبے اور شان میں شاعری زبان میں تخلیق کیا ہے۔۔۔

تو عظیم ہے جنت کا نشان ہے تو
خود پہ ہو نازاں،پیغمبروں کی ماں ہے تو
بیت گیا تو حاصل کچھ نہ آئے گا
ٹھہر جا اے بیٹی! گزرتا سما ء ہے تو
پاکیزہ ہے تو، تو جنت کا نشاں ہے
ہے شیطان کی پیروکارتو گنا ہ ہے تو
آئندہ نسلیں محتاج ہیں تیری
تیر نکلے جہاں سے وہ کماں ہے تو
ہر سو نظر آتا ہے رنگینوں میں شیطاں
اے پردہ نشین عورت کہاں ہے تو؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔