14 اگست اور نیا پاکستان

طلعت حسین  پير 21 جولائی 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

فوج کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری کے باوجود نواز شریف حکومت ابھی بھی سیاسی دبائو میں ہے۔ مستقبل قریب میں یہ دبائو بڑھے گا یا اس میں کمی آئے گی اس کا فیصلہ چند ایک ایسے عوامل کریں گے جن میں سے کچھ پر نواز لیگ کا کنٹرول ہے۔ اور کچھ اس کے قابو سے باہر ہیں۔ طاقت کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کا جھکائو تبدیلی یا تسلسل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ حالیہ رفوگری کے بعد پنڈی میں غصہ اور ناراضی کم ہوگئی ہے مگر تب تک میڈیا بحران اور پرویز مشرف کیس لٹکا رہے گا پرانے دنوں کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ ان دونوں معاملات پر حکومت خود کو بہتر پوزیشن میں لانے کے لیے فی الفور بڑے اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔

مشرف کیس پر سیاسی قدم اٹھانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب جو بھی ہو گا قانونی راستے کے ذریعے ہو گا۔ اگر عدلیہ کوئی درمیانہ رستہ نکال دے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف ذاتی غم اور سیاسی دھچکے لیے بغیر اس باب کو بند نہیں کر سکتے۔ میڈیا بحران کی فائل آدھی کھلی اور آدھی بند ہے۔ ریاست کو سبق سکھانے اور خود کو سب پر حاوی کرنے والے اب درخواستوں کے ذریعے اس جھنجھٹ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے نمایندگان کی طرف سے درگزر کرانے کی تمام ترکیبیں بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔

حکومت کی سیاسی کیفیت پر پاکستان تحریک انصاف کی سیاست بھی گہرے اثرات چھوڑ سکتی ہے۔ الیکشن سے پہلے تحریک انصاف پنجاب میں بالخصوص اور ملک میں بالعموم متبادل قیادت کے طور پر سامنے آ رہی تھی۔ ایک طویل عرصے کے بعد نواز لیگ کو پنجاب میں سے ایک بڑے خطرے کا سامنا تھا۔ عوام کے پا س پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے علاوہ بھی کسی تیسری سمت دیکھنے کا موقع  میسر تھا۔ یہ سب کچھ اب بھی موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف، حزب اختلاف کا حصہ ہے جب کہ نواز لیگ حکومت میں ہے۔ اور یہ ایک بڑا فرق ہے۔

سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے مختلف حالات میں اپنا لوہا کیسے منواتی ہیں ان کی دیرپا ساکھ کو بنا نا یا بگا ڑنا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف بطور سیاسی متبادل نہیں بلکہ حزب اختلاف کے طور پر پرکھی جا رہی ہے۔ عمران خان نے احتجاج کے گھوڑے پر مسلسل سواری کر کے خود کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ سخت گیر، اکھڑ، دھونس، دھمکی، اور اپنے سوا کسی کو گھاس نہ ڈالنے کے طریقے نے ان کو ایک ایسی قوت کے طور پر متعارف کروا دیا ہے جو تبدیلی سے پہلے انتشار پھیلانے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ تصور مکمل طور پر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔

عمران خان انقلابی نہیں ہے (ڈاکٹر طاہر القادری تو بالکل نہیں ہے) ان کے اردگرد موجود سیاسی قوتیں عوامی حکومت قائم کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتیں۔ گدی نشین مریدوں کے ساتھ بیٹھ کر نوالے نہیں توڑ سکتے۔ ذاتی جہازوں میں آسمانوں پر گھومنے والے جن کے گھروں میں ملازمین کا ننگے پائوں ہو نا لازم ہے۔ کسان اور مزدور حکومت کے باعث نہیں بن سکتے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت تمام سیاسی جما عتوں کے لیڈران اس طبقے کے نمایندے ہیں جسکو تبدیلی سے کوئی غرض نہیں۔ وہ امراء اور روساء کی مسند پر بیٹھے ہیں۔

میلے کچیلے عوام اور اُن کے درمیان شیشے کی ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ جسکو توڑنا ان کے لیے اپنے وجود کو ختم کر نے کے مترادف ہے۔ لہذا عمران خان کے لیے تمام ملکی مسائل کے باوجود لندن میں کرکٹ میچ دیکھنا اتنا ہی اہم ہے جتنا نواز شریف کے لیے بیرونی ممالک کے دورے ہیں۔ آصف علی زرداری نے تو خیر کبھی خود کو مشقت میں ڈالا ہی نہیں مگر تحریک انصاف کی قیادت سیاسی طور پر خود کو عوامی نمایندگی کے اس رہنما کے طور پر متعارف کراتی ہے جس کا طویل عرصے سے سب کو انتظار ہے۔ مگر فی الحال احتجاج کو ملک بھر میں قابل قبول بنانے کا مسئلہ درپیش ہے۔

پاکستان کی قوم کا وہ حصہ جو حالات سے بری طرح تنگ ہے ہلکی پھلکی تبدیلی کو انقلاب سمجھ کر قبول کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے اس کو روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم، بنیادی انصاف وغیرہ جیسے الفاظ سننے کو ملنے چاہئیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف اسکو روزانہ حلقوں اور دھاندلی کی پڑیا کھلاتی ہے۔ ان اصطلاحوں کی آئینی اور قانونی وقعت ہو گی مگر یہ عوام کو قومی تحریک میں شامل کرنے والے نعرے نہیں ہیں۔ لہذا فی الحال تحریک انصاف اپنے احتجاج کو وہ قومی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہے جس کے بغیر وہ نواز لیگ کے لیے ملک گیر مسئلہ نہیں بن سکتی‘ معاملہ دس بیس لا کھ افراد اکھٹے کرنے کا نہیں ہے (اگرچہ یہ دس لاکھ افراد اسلام آباد میں کیسے سمائیں گے‘ ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے۔

اس شہر کی ہر سڑک کھدی ہے، ڈی چوک کا بس نام ہی موجود ہے۔ سٹرکیں میٹرو بس کھا گئی ہے۔ بڑے بڑے گڑھوں اور مٹی کے انباروں کے درمیان جلسہ کیسے ہو گا یہ 14 اگست کو دیکھیں گے۔ اہم پہلو اس جلسے میں مختلف جماعتوں کی شرکت کا ہے۔ اگر اسٹیج پر آٹھ دس ملکی اور علا قائی جماعتوں کے نمایندگان موجود ہوں اور حکومت سے نئے الیکشن کا مطالبہ کریں تو بات بنتی ہے۔ ایک جماعت اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود خود کو پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کے مخالف کھڑا نہیں کر سکتی۔

ایک اور نقطہ تحریک انصاف اور ریاست کے درمیان موجود حالات سے متعلق ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف وہ واحد جماعتیں ہیں جو آپریشن ضرب عضب پر تحفظات رکھتی ہیں۔ کہنے کو تحریک انصاف نے ضر ب عضب پر زیادہ شور نہیں مچایا مگر ان کے اہم نمایندگان اب بھی طالبان سے بات چیت نہ کرنے پر کف افسوس ملتے ہیں۔ وہ اس کارروائی کو ’اپنے ملک‘ پر’ اپنے لوگوں ‘ کے خلا ف ’قوت کا استعمال‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کرنے والوں پر تحریک انصاف نے جو موقف اپنایا ہے وہ باوزن ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔ اس وقت نقل مکانی کرنے والوں کا تمام انتظام ، دیکھ بھال حتی کہ رجسٹریشن تک کی ذمے داری فوج نے اٹھائی ہوئی ہے۔

پشاور میں پاکستان افواج کے دفاتر سیکریٹریٹ کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت معاونت کر رہی ہے۔ سرکردگی فوج کے پاس ہے۔ شمالی وزیرستان سے گھر بار چھوڑنے والوں کی حالت زار پر وفاقی حکومت کو ہدف بنانے کے عمل میں یہ زاویہ اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں کیا تحریک انصاف انتخابات کے نتائج پر اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر سکتی ہے کہ نواز لیگ، دوسری سیاسی جما عتیں اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ مجبور ہو کر وہ تمام مطالبات مان لیں۔ جس کے لیے فی الحال قانون اور آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اگر تحریک انصاف اگلے تین ہفتوں میں نواز لیگ کے خلاف قومی محاذ بنانے میں کامیاب ہو گئی تو وفاقی حکومت سیاسی دبا ئو میں آ کر مکمل طور پر پچھلے پائوں پر چلی جائے گی۔

تحریک انصاف پھر اس مقام پر آ پہنچے گی جہاں سے وہ اس ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا خواب پورا کر لے۔ اور اگر یہ نہ ہو پایا تو 14 اگست کو احتجاج صرف اس صورت میں سیاسی تاریخ بن پائے گا اگر اس موقعہ پر خدانخواستہ کوئی بڑا ہنگامہ یا حادثہ ہو جائے۔ اس صورت میں نواز لیگ کے لیے صورت حال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ 14 اگست کو ایک جلسہ ہو گا، تقریریں ہوں گی، اور اگلے جلسے کی نئی تاریخ۔ ہاں عمران خان یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفوں کو کوئی ڈیڈ لائن دے دیں۔ اس سے ایک بڑا تنازعہ ضرور جنم لے گا لیکن فوری تبدیلی کی وہ آس جس نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی احتجاجی پیاس میں اضافہ کر دیا ہے شاید 14 اگست کو پوری نہ ہو پائے۔ نواز لیگ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود عمران خان کی لشکر کشی کو برداشت کر لے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔