سیاست دان ملک کا مستقبل تاریک نہ کریں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 28 جولائی 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

اخبارات میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹر و صنعت کاروں کی جانب سے ایک اپیل بنام مذہبی رہنمائوں اور سیاست دانوں کے شایع ہوئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پچھلے ادوار سے ملک مختلف قسم کے بحرانوں میں مبتلا ہے، ملک میں ترقی کا سفر رک گیا ہے۔ صنعتی ترقی کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، حکومتی عدم توجہی، توانائی کے بحران اور دہشت گردی جیسے شدید مسائل کی وجہ سے صنعتی ترقی کا عمل بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔

موجودہ وفاقی و پنجاب حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات تمام بحرانوں کے موثر اور پائیدار حل کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں، کم وسائل، دہشت گردی ودیگر مسائل کے باوجود بجلی کے منصوبوں سے امید کی کرن نظر آنا شروع ہوگئی ہے، ملک و قوم ترقی کے سفر پر چل رہے ہیں۔ مختصر سے عرصے میں مختلف شعبوں میں بہتری آئی ہے۔ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں تو آپ لوگوں کو ملک اور حکومت کو ڈی ٹریک کرنے کی سوجھی ہے۔

آپ حکومت کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے ہیں اور نہایت قیمتی وقت اور وسائل کا ضیاع کروا رہے ہیں، جب کہ یہ واضح ہے کہ ان گمبھیر مسائل کے ہوتے ہوئے حکومت اچھے طریقے سے ترقی کی راہ پر چلانا آپ تمام میں سے کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے، آپ تقریباً سبھی کسی نہ کسی اختیار کے حامل ہیں یا رہے ہیں، آپ کی کارکردگی سب پر عیاں ہے، آپ کے طرز عمل سے اب پھر ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ ایکسپورٹ کے آرڈر منسوخ ہورہے ہیں، غیر یقینی صورت حال کے باعث خریدار پاکستان کا رخ نہیں کررہے جس کی وجہ سے خصوصاً ایکسپورٹ بزنس سے متعلق صنعتی ادارے تیزی سے مشکلات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ان حالات میں نئے صنعتی اداروں کا قیام تو دور کی بات موجودہ اداروں کا چلتے رہنا بھی محال ہورہا ہے، بیروزگاری ودیگر شدید مسائل کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آپ سب سے درد مندانہ اپیل ہے کہ سڑکوں پر آنے کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے اپنا رول ادا کریں جو جمہوریت اور حالات کا تقاضا ہے، ہمارا ملک کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا، ملک و قوم کے حال پر رحم فرمائیں، حکومت کو ترقی کی راہ پر کام کرتے رہنے کے لیے اسے مضبوط کریں، کہیں اﷲ کی طرف سے عطا کردہ یہ موقع آخری نہ ہو اور کہیں خدانخواستہ اندھیرے ہمارا مقدر نہ بن جائیں،  آئیے  ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔

برآمد کنندگان اور صنعت کاروں کی طرف سے شایع شدہ یہ اپیل لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض لوگ اس کو خوش آمد، چاپلوسی اور حکومتی چال سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ اپیل تمام درد دل رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے، پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں اور دانشوروں کی رائے بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پی پی پی نے واضح طور پر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کرنے کا اعلان کردیا ہے، امین فہیم نے کہا ہے کہ ن لیگ کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔

ملک میں مڈٹرم انتخابات نہیں ہوں گے مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ آزادی مارچ اور انقلاب والوں کے پیچھے کون ہے۔ سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے بھی کہا ہے کہ بعض سیاستدان جس طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں اور جو ان کا لب ولہجہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی لابی موجود ہے جو سسٹم کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے۔ عمران کا طرز عمل سیاسی ناپختگی، جلد بازی اور مایوسی ظاہر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس سے دور ہوگئی ہے۔ ہوتی نے کہا کہ  پہلے انتخابی نتائج تسلیم کییگئے لیکن آج سب کچھ بدل گیا ہے، اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے  شارٹ کٹ تلاش کیا جا رہا ہے۔

ان کی حکومت KPK میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی، بعض مذہبی سیاستدان ایک مرتبہ پھر انقلاب کا علم لے کر میدان میں نکلے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ چند ہفتوں میں انقلاب برپا کردیںگے، اس کے بعد تبدیلی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اس تحریک میں جو لوگ شریک ہوںگے اقتدار میں بھی ان کو شریک کیا جائے گا، کارکنان اس کے لیے اچھے افراد کی فہرست تیار کرلیں، ہم 10 لاکھ افراد کو شریک اقتدار کریںگے، انقلاب کے بعد کسی ایک جماعت کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ مڈٹرم انتخابات کی بات کرنے والے استحصالی نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے وزیراعظم کو مناظرے کا چیلنج بھی دیا ہے، عمران خان نے 14 اگست کو بادشاہت کا خاتمہ کرکے نئے پاکستان کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا ہے اور صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مرکز کے خلاف میدان میں نکل کر اپنے حقوق حاصل کرے جس کا مظاہرہ ان کے وزیراعلیٰ پہلے ہی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی سرپرستی کرکے کرچکے ہیں۔ ان کی پارٹی کے مرکزی رہنما اعظم خان سواتی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم پوری تیاری سے ہیں، 14 اگست کو حکومت کو چلتا کردیںگے، ایک غیر سنجیدہ اور دھاندلی کی بنیاد پر بننے والی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے گرانا پڑا تو گرادیںگے۔

بعض اپوزیشن سیاستدانوں نے حکومت مخالف محاذ کھولے ہوئے ہیں، آئے دن ان کے موقف اور مطالبات تبدیل ہوتے ہیں، وہ آج اپنی تمام توانائیاں  نواز حکومت کو ختم کرنے پر ضایع کر رہے ہیں، ملک و قوم کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے اس پر کتنے ہی منفی اثرات مرتب ہوں ایسے موقع پر جب کہ حکومت کو آئے سال بھر بھی نہیں گزرا تھا ملک پہلے سے معاشی بدحالی، عدم استحکام، اندرون و بیرون خطرات میں گھرا ہوا ہے، دہشت گردی، بدامنی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے لاتعداد مسائل نے عوام اور خواص کو عذاب مسلسل میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

گونا گوں اندرونی و بیرونی مسائل و خطرات میں گھری حکومت کی کوششوں سے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، ریلوے جیسے اداروں کی بحالی کے ساتھ ساتھ توانائی کے منصوبوں کی بنیادیں بھی ڈالی جا رہی ہیں، گو معیشت میں بہتری کے اثرات ابھی تک براہ راست عوام تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ ایسے موقع پر مہم جو سیاسی رہنمائوں کو عوام اور ملک کے حال پر رحم کھانا چاہیے جس کے عوام کی اکثریت خوراک کی قلت، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہے، جس کے دو کروڑ سے زائد شہری دماغی اور اعصابی امراض کا شکار ہیں۔

اس وقت سیاسی استحکام ملک کی معیشت، دفاع اور وجود کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے، آئی سی یو میں پڑی ملکی معیشت اور مستقبل کو آکسیجن سپلائی کرنے والے پائپ پر سیاست دانوں اور مہم جوئوں کا انگوٹھا عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔ ناکام اور جز وقتی سیاست دان ریاست کو ناکام بنانے کی کوششیں نہ کریں، قوم ان کی کارکردگی اور سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان سے کسی اچھے کی توقع بالکل نہیں رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔