دنیا بھر سے عید الفطر کے ذائقے

صدف آصف  اتوار 27 جولائی 2014
اجتماعیت میں رنگی مختلف روایات۔ فوٹو: فائل

اجتماعیت میں رنگی مختلف روایات۔ فوٹو: فائل

عید کا ذکر ہو اور خواتین کی بات نہ ہو، تو خوشیوں کے رنگ کچھ پھیکے پھیکے سے لگنے لگتے ہیں۔ دنیا بھر کی مسلم خواتین خوشی کے اس تہوار پر جاذب نظر پہناوے زیب تن کرتی ہیں۔

برصغیر میں دل کش روایتی ملبوسات کے ساتھ بہت سے علاقوں میں منہدی اور چوڑیوں کے بغیر عید کی مسرتیں نامکمل سمجھی جاتی ہیں۔ عید کے دن خواتین کی دوسری بڑی ترجیح ان کا پر رونق دسترخوان ہوتا ہے، جسے روایتی اور جدید کھانوں سے سجایا جاتا ہے۔ مختلف روایتی پکوانوں کی تیاری چاند رات سے ہی شروع کر دی جاتی ہے۔ صرف ہمارے یہاں ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں رہنے والی مسلمان خواتین عید کے دن مہمانوں کی تواضع کے حوالے سے بہت حساس ہوتی ہیں۔ اس لیے اس تہوار کے لیے  خاص اہتمام کیے جاتے ہیں۔

عید الفطر کی روایت سے جڑی ہوئی ہر علاقے کا اپنی کوئی نہ کوئی خاص میٹھا پکوان بھی ضرور ہوتا ہے، جیسے ہمارے ہاں عید میں مہمانوں کی تواضع کئی قسم کی سویوں، شیرخرمہ اور کچوریوں سے کی جاتی ہے۔

انڈونیشیا میں روایتی طور پر مونگ پھلی سے تیار کردہ میٹھا بہت مرغوب ہے۔ یہ ہمارے ہاں کے حلوے سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ عراق میں کھجور کا حلوہ بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ وہاں زیادہ تر گھرانوں میں نماز عید سے قبل ناشتے میں کریم اور شہد سے روٹی تناول کی جاتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے لیے بھیڑ ذبح کر کے اس کا گوشت پکایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میٹھے کے طور پر گھروں میں ہی چھوٹے چھوٹے کیک بنائے جاتے ہیں۔

عید الفطر  کے دن مصر میں مہمانوں کی مدارت روایتی مٹھائیوں ’’کنافہ‘‘ اور ’’قطائف‘‘ سے کی جاتی ہے۔ خشک دودھ، میوہ جات اور گندم کے آٹے سے بنی یہ مٹھائی وہاں بے حد پسند کی جاتی ہے۔ مصری خواتین ناریل سے تیار کیا جانے والے ایک خاص قسم کے بسکٹ بناتی ہیں۔ اس کے اوپر آخر میں چینی چھڑکی جاتی ہے۔ جب لوگ عید ملنے جاتے ہیں تو بطور خاص یہ بسکٹ لے کر جاتی ہیں۔

اسی طرح کشمیر ی خواتین  عید کا رنگ دوبالا کرنے کے لیے  فیرنی بناتی ہیں، جو دودھ میں پسے چاول ور چینی ملا کر پکائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سویوں اور حلوے بھی اس دن اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ کشمیر ی عورتیں گھروالوں اور مہمانوں کو بڑے شوق سے یہ میٹھے کھلاتی ہیں۔

عید کے موقع پر بنگلا دیش میں تلی ہوئی مچھلی کا سالن، چاول اور مٹھائی وغیرہ سے دسترخوان کی زینت بڑھائی جاتی ہے۔ بحرین میں عید کا تہوار کئی دنوں تک منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر نہ صرف گھروں میں ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرایا جاتا ہے، بلکہ ہم سایوں میں بھی مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ وہاں زیادہ تر گھروں میں دوپہر کے کھانے کے لیے چاول پکتے ہیں، جس میں گوشت کے علاوہ دالیں بھی شامل کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں روایتی ’’گوشت کا حلوہ‘‘ بھی پکایا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں عید والے دن روایتی پکوان ’’ہریس‘‘ بنایا جاتا ہے۔ گندم اور گوشت سے تیار کردہ اس پکوان کے بنانے کا طریقہ ہمارے یہاں کی حلیم سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے علاوہ عید والے دن خاص طور پر میمنے کے گوشت کی بریانی ’’الکبسہ‘‘ بہت ذوق و شوق سے کھائی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں روایتی مٹھائیوں سے بھی مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ عرب ممالک میں خواتین مہمانوں کے لیے قہوہ ضرور بنواتی ہیں، لہٰذا  اس تہوار پر بھی اس مشروب کا بطورخاص اہتمام ہوتا ہے۔

برونائی کی خواتین خاص طور ہر عید کے دن ایک مخصوص مٹھائی ’’بقلاوہ‘‘ سے تواضع کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ہر دوسرے گھر میں ایک خاص قسم کا کیک ضرور کھایا جاتا ہے، جوتہہ در تہہ میووں، کھجوروں اور موسمی پھلوں کی باریک پھانکوں کی مدد سے بنایا جاتا ہے۔

برما کے مسلمان صرف ایک دن ہی عید مناتے ہیں، وہاں کی مسلم خواتین عید کے لیے خاص طور پر سویاںپکاتی ہیں، جس کو میوہ جات اور دودھ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

صومالیہ میں عید تین دن تک منائی جاتی ہے۔ خاتون خانہ عید  کی مناسبت سے ایک مزے دار پکوان پکاتی ہیں، جس کے لیے آٹے میں پسی ہوئی چینی اور بیکنگ پاؤڈر کو ملا کر گرم پانی سے گوندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے چھوٹے چھوٹے  بسکٹ بنا کر کڑھائی میں تل لیا  جاتا ہے، لوگ عید الفطر پر یہ کھاجا بڑے شوق سے نوش فرماتے ہیں۔ دوپہر میںعورتیں چاول، سبزیوں اور گوشت کا ایک روایتی کھانا تیار کرتی ہیں۔ اسے انجیرا نامی پتلی روٹی سے کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں مہمانوں کے  لیے دالیں بھی تلتی ہیں، مہمان عید پر حلوے اور کسٹرڈ بھی شوق سے تناول کرتے ہیں۔ بھارت اور چلی میں مسلمان  عورتیں  عید کے دن  دوسرے پکوانوں کے ساتھ مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سویاں ضرور پکاتی ہیں۔

ملائیشیا میں عید کے روز کھائی جانے والی خاص مٹھائی ’’کوئی موئی‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ وہاں کی قدیم روایات کی آئینہ دار ہے۔ عورتیں ہر عید پر اس رواج کو زندہ رکھنے کے لیے ’’کوئی موئی‘‘ کو دسترخوان کی زینت ضرور بناتی ہیں۔ عید کے دن ناریل کے پتوں پر چاول پکائے جاتے ہیں۔ ملائیشیا میں عید کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں ملائیشیائی خواتین اور مرد اپنے اپنے گھروں کے دروازے عید کے دن کھول دیتے ہیں اور جو بھی ان کے گھر مہمان بن کر آ جاتا ہے، اس کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں، اس رسم کو ’’اوپن ہاؤس‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد عید کی نماز کے لیے مساجد جاتی ہے۔

دنیا بھر کی مسلمان خواتین عید الفطر میں چاہے مختلف، رنگ خوش بو اور ذائقوں کے کھانوں سے اپنے دسترخوان کی زینت بڑھاتی ہوں، تاہم ان سب کے پیچھے خوشی کے اس تہوار کو جوش و خروش کے ساتھ منانے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ نماز عید کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، جس سے مسلمانوںمیں اجتماعیت کا تصور مضبوط ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی مسلم خواتین اپنے اپنے گھروں میں دعوتوں کا انتظام کرتی ہیں، مزے دار روایتی کھانوں سے دسترخوان کو آراستہ کرتی ہیں۔

عید کی مناسبت سے پکائے گئے روایتی میٹھوں سے خواتین مہمانوں کا منہ میٹھا کراتی ہیں۔ محافل سجائی جاتی ہیں۔ کارڈ، کیک، مٹھائی، تحفے تحائف اور عیدی کے لین دین بہت سارے گھرانوں میں بہت اہتمام سے کیے جاتے ہیں۔ رشتے داروں، دوستوں اور دیگر جاننے والوں کے یہاں عید ملنے جاتے ہیں۔ بزرگوں کے ہاتھ چومے جاتے ہیں، چھوٹوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دی جاتی ہیں۔ کہیں ناشتے تو کہیں دوپہر اور رات کے کھانوں پر دعوت کا انتظام  ہوتا ہے۔ بالآخر یہ پر مسرت تہوار سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتا ہوا اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔