آزادی مارچ…انقلاب مارچ اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات!!

اجمل ستار ملک  جمعـء 8 اگست 2014
ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے سیاسی قائدین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ریاض احمد

ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے سیاسی قائدین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ریاض احمد

پاکستان میں جمہوری کلچر کی کمی اور عدم برداشت کے باعث ملک کو ہمیشہ سیاسی بحران کا سامنا رہا ہے۔

حکومت کو آئے ہوئے بمشکل ایک سال ہی گزرا ہے کہ ملک میں ’’آزادی مارچ ‘‘ اور ’’انقلاب مارچ ‘‘ کی باتیں ہورہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ’’چار حلقوں‘‘ کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا جس پر حکومت لیت و لعل سے کام لیتی رہی اور کوئی واضح اقدامات نہیں کیے۔

اب تحریک انصاف نے ’’آزادی مارچ‘‘ کا اعلان کردیا ہے۔دوسری جانب طاہر القادری بھی ملک میں ’’انقلاب مارچ‘‘ کی باتیں کررہے ہیں۔ ’’آزادی مارچ‘‘ اور ’’انقلاب مارچ‘‘ کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اسی حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا گیا ۔ پروگرام میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا ثنااللہ (سابق صوبائی وزیرقانون پنجاب)

لانگ مارچ کے حوالے سے کسی بھی صورت میں تصادم کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔افہام وتفہیم کا عمل ہر حال میں جاری وساری رہنا چاہیے۔ اگر انقلاب مارچ یا آزادی مارچ کرنے والی قوتوں کا اب تک حکومت کے ساتھ موثر ڈائیلاگ نہیں ہوسکا یا ایسا مشکل نظر آرہا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے دیگر سیاسی قوتوں کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی حکومت کی ہے کیونکہ وہ یہ کوشش نہ تو حکومت اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے لیے کریں گے بلکہ وہ ایسا جمہوریت اور پاکستان کے لیے کریں گے۔

جمہوری پاکستان جتنا پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے ضروری ہے اتنا ہی جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے لیے بھی ضروری ہے۔ 14 اگست کو ہونے والے مارچ کو سیاسی اور انتظامی دونوں بنیادوںپرmanage کیا جانا چاہیے۔ یہ کہنا کہ 100 فیصد سیاسی بنیادوں پر ہی ڈیل کیا جائے اور انتظامی معاملات کو بالکل دیکھا ہی نہ جائے مناسب نہیں۔

جس شہر میں وہ لوگ اکٹھا ہونے جارہے ہیں وہاں کچھ ایریاز ایسے ہیں جن کو حساسیت کی بنا پر ریڈزون کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں غیر ملکی سفارت خانے اور دوسری اہم تنصیبات ہیں۔ اس لیے اس حد تک انتظامی معاملات کو بروئے کار لانا ہوگا کہ ریڈ زون کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس کے لیے کوئی زورزبردستی نہ کی جائے بلکہ بیٹھ کر بات کی جاسکتی ہے کہ اس احتجاج کو کس مقام تک محدود رکھا جائے۔

فرض کیجئے کہ اگر ایک لاکھ لوگ بھی اسلام آباد چلے جائیں تو عین ممکن ہے کہ اس مجمع میں سینکڑوں دہشت گرد بھی وہاں پہنچ جائیں اور اگر وہ سینکڑوں دہشت گر اس مجمعے سے نکل کر حساس تنصیبات پر حملہ آور ہوجاتے ہیں تو پھر شاید عام قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال کو کنٹرول نہ کرسکیں۔ اس لیے اگر ان بلڈنگز پر فوج کو تعینات کیا گیا ہے تو اس اعتراض کو سکیورٹی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی جب کسی حساس بلڈنگ پر درجن بھر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے تو وہاں فوج نے ہی صورت حال کو کنٹرول کیا ہے۔

مثال کے طور پر کراچی ائیرپورٹ پر کنٹرول کے لیے فوج کو طلب کیا گیا تھا جس کے آنے سے پہلے کافی نقصان ہوچکا تھا۔ اسلام آبادمیں آرٹیکل 245 کے نفاذ کے حوالے سے بات کریں تو فوج اس وقت اسلام آباد کی صرف چند مخصوص عمارتوں پر تعینات ہے اور لانگ مارچ کے شرکاء سے بات کرنے یا انتظامی طور پر کنٹرول کرنے میں فوج کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ بہر حال آرٹیکل 245 کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے اور اگر پارلیمنٹ متفقہ طور پر کوئی رائے دیتی ہے تو حکومت اس کی پابندی کرے گی ،کیونکہ پارلیمنٹ کی رائے سپریم ہے۔

موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سے رابطے میں ہے۔ جہاں تک الیکشن میں دھاندلی کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی کا شورشرابا بہت زیادہ اور حقیقت بہت کم ہے۔ مختلف سروے کے مطابق پاکستان میں جتنے بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں ان میں دھاندلی اور بے ضابطگیاں ہوتی رہی ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں کمزوریاں اور کوتاہیاں ضرور تھیں۔ مگر 2013 کے انتخابات 2002 اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات سے نسبتاً بہت بہتر تھے۔

انڈیا میں ہونے والے انتخابات میں ابھی ووٹ بکسوں میں بندنہیں ہوئے تھے کہ وہاں کے میڈیا نے تجزیات میں بتا دیا تھا کہ کونسی پارٹی جیت رہی ہے ۔اور پھر نتائج بھی انہی تجزیات کے مطابق ہی آئے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ یکم مئی سے لیکر 10 مئی تک اخبارات اور چینلز پر آنے والے تجزیات اٹھاکر دیکھ لیں ،پاکستان میں ایک ایک حلقے کا سروے ہوا تھا۔ کوئی سروے ایسا نہیں ہوگا جس میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اکثریت، اندرون سندھ پیپلزپارٹی، کراچی میں تین چار حلقوں میں تحریک انصاف اور باقی حلقوں میں ایم کیوایم کی اکثریت ، خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی اکثریت اور بلوچستان میں مکس نتائج کا نہ کہا گیا ہو۔ اس لیے الیکشن کو بالکل رد کرکے ایک جمہوری حکومت کے معاملات کو ڈیڈلاک پر لے آنا انتہائی نامناسب اور غیر جمہوری رویہ ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے الیکٹرورل سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے جو انتخابات میں شفافیت کو بہتر سے بہتر بنانے پر کام کررہی ہے۔عمران خان نے اپنے مطالبات کو کبھی واضح نہیں رکھا۔ اس وقت وہ چار حلقوں کی بات نہیں کررہے بلکہ وہ نئے پاکستان کی بات کررہے ہیں ۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نیا پاکستان کیسا ہوگا۔ عمران خان اگر ایک لاکھ لوگ لے جانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو بھی ان لوگوں کو وہاں ٹھہرانا آسان نہیں ہوگا۔ حکومت کو اس مارچ سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگر عمران دھرنا دے کر بیٹھے بھی رہتے ہیں تو بھی ان کو حکومت سے مذاکرات کرنا ہی ہوں گے۔ اگر عمران خان آئین کے اندر رہتے ہوئے کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو مسلم لیگ ن ان پر غور کرنے اور مفاہمت کے لیے تیار ہے۔

اعجاز چوہدری (صدر تحریک انصاف پنجاب)

ہم سمجھتے ہیں کہ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلارہتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ چودہ اگست کے بعد بات چیت کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اب بھی بات چیت کا دروازہ کھلا رکھاہے،سیاست میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ بات چیت کے دروازے بند کردیے جائیں۔

ہم چودہ ماہ سے یہ کہہ رہے تھے کہ 11 مئی کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ جولوگ سیاسی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ 1977کے انتخابات میں 7 مارچ کو قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تھا شام کو اپوزیشن الائنس کی یہ رائے بن گئی تھی کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اسی وقت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ تین دن بعد ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا جائے گا اور حکومت کے خلاف تحریک بھی چلائی جائے گئی۔ ہم نے وہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ ہم نے ملکی حالات کی سنگینی کے پیش نظر سوچا کہ ایک مہذب اور جمہوری رویہ اختیار کیا جائے اور حکومت کو چلنے دیا جائے۔

ہم نے حکومت سے کہا کہ ہمارے خیال میں انتخابات شفاف نہیں ہوئے، آپ نمونے کے طور پر چار حلقے لے لیں۔ مگر حکومت نے اس بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے ٹریبیونل، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ الغرض ہر سطح پر آواز اٹھائی۔ جو بات پارلیمنٹ میں ہوئی اس سے ہمیںیہ اندازہ ہوا کہ خود حکومت کو یہ احساس ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ وزیر داخلہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ چار نہیں بلکہ چالیس حلقوں کی دوبارہ گنتی کروالیتے ہیں۔

بیس حلقے تحریک انصاف بتادے اور بیس حلقے حکومت بتادیتی ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ ہر حلقے میں 70 یا 80 ہزار ووٹ ایسے ہوں گے جن کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد حکومت اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی۔ جو حلقے اتفاق سے کسی پروسیس کی وجہ سے کُھل گئے مثلاً NA-118, NA 124,NA 128 وغیرہ ،ان میں بڑے پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیاں نظر آئیں۔ مثال کے طور پر حلقہ NA-124 میں پتہ چلا کہ بہت بڑی تعداد میں ووٹ ایسے ہیں جن کی پڑتال نہیں ہوسکتی۔

ووٹوں میں استعمال کی گئی سیاہی انتہائی ناقص تھی۔ وہاں بڑے پیمانے پر شناختی کارڈ نمبرز سرے سے ہی موجود نہیں تھے۔ پھر نادرا کے سربراہ کے ساتھ حکومت کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کے گھروالوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ۔ چنانچہ انہیں اپنی جان بچانے کی غرض سے ملک چھوڑ کر بھاگناپڑا۔بعد میں خبر آئی کہ نادرا والے ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ظاہر کررہی تھیں کہ حکومت سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے الٹا راستہ اختیار کررہی ہے اور پے درپے ایسی غلطیاں کر رہی ہے جن کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں نظام مستحکم نظر نہیں آتا اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنا کیس پارلیمنٹ سے باہر عوام کے سامنے لانے میں حق بجانب تھے چنانچہ ہم نے یہی راستہ اختیار کیا۔

ہم نے اس سال 11 مئی کو اسلام آباد میں ایک جلسہ کیاجس میں عوام کی بھرپور شرکت سے ہمارے موقف کی عوامی سطح پر بھی تائید ہوگئی۔ پھر ہم نے پے درپے فیصل آباد، سیالکوٹ اور بہاولپور میں جلسے کیے جو انتخابی جلسوں سے دو، تین گنا زیادہ ہجوم پر مشتمل تھے۔ چنانچہ ہمیں یہ بات کنفرم ہوگئی کہ مینڈیٹ چرائے جانے کی وجہ سے لوگوں کے دل زخمی ہیں۔

ہم نے پھر بھی حکومت سے اپنا مطالبہ جاری رکھا لیکن ایک مرحلے پر آکر ہمیں محسوس ہوا کہ حکومت مطالبات پورا کرنے کی بجائے الٹا مذاق اڑارہی ہے۔ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اپوزیشن کے طرح طرح کے نام رکھیں‘ مذاق اڑائیں اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی کوشش کریں۔ حکومتیں تو ہمیشہ دھیان سے بات سنتی ہیں اور لوگوں کی تسلی کرواتی ہیں مگر یہاں ایسا نہیں ہوا۔ ہمارا ایجنڈا بالکل آئینی حدود کے اندر ، جمہوری روایت کے مطابق اور اخلاقی بنیاد پر مبنی ہے۔

ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنے جارہے جس سے ملک میں انارکی پھیلے۔ہماری تاریخ گواہ ہے کہ تحریک انصاف نے جتنا بھی احتجاج کیا وہ پر امن رہا ہے۔ہمارے جلسے، جلوس اور پروگراموں میں فیملیز شرکت کرتی ہیں۔اس لیے کسی سطح پر بھی ہمارے جلسے جلوس کی وجہ سے نقص امن کاکوئی اندیشہ نہیں ہے۔اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت خوف اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ہم کسی صورت میں فوج سے نہیں ٹکرانا چاہتے۔اس وقت 70 سے 80 فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ یہ نظام نہیں چل سکتا۔

اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب حکومت کی 14 ماہ کی کارکردگی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں معاملات کو بہتر کرنے کے لیے تھوڑا وقت چاہیے تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ پہلی دفعہ حکومت میں آئے ہیں تو انہیں تھوڑا وقت دیا جانا چاہیے مگر جو لوگ پچھلے 32 سالوں سے حکومت میں ہیں اور پچھلے سات سالوں سے پنجاب میں مسلسل حکومت کررہے ہیں وہ بھی کہیں کہ وقت درکار ہے تو یہ ممکن نہیں ۔پولیس کی اپنی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں سٹریٹ کرائم میں 110 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ایک سال میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہم پر قرضے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ آنے والی دو نسلیں بھی قرضے نہیں ادا کر سکتیں۔

اگرچہ ہم نوازشریف کو ڈی فیکٹو وزیر اعظم سمجھتے ہیں تاہم تحریک انصاف نے ان کو کہا تھا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے آپ گفت و شنید کا راستہ اختیار کریں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن دہشت گردی پر بھی وہ کوئی صحیح پالیسی نہیں بنا سکے۔ہمارے مطالبات بالکل واضح ہیں۔ اگر کسی نے کچھ کرنا ہوتا ہے تو خود ہی اعلان کردیتا ہے۔ وزیر داخلہ نے اگر چالیس حلقے کھولنے کا کہا تھا تو حکومت اس بات کو پورا کرتی۔ اس وقت تحریک انصاف کی پوزیشن یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ 10 سے 12 لاکھ لوگوں کو سڑکوں پرلائیں تب حکومت کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح ان کے پاؤں سے زمین نکل چکی ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ محسوس کریں گے کہ اب کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوری حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمارے مطالبات پر عمل کرے۔ دوسری بات یہ کہ یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ عوام کا بنیادی حق ہے کہ جنہیں وہ ووٹ دیں ، انہی کی حکومت بنے اور عوامی مینڈیٹ نہ چرایا جائے۔اگر کوئی سنجیدہ ہوتا تو جن حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت ملے ہیں وہاں ریٹرننگ افسران کو پکڑا جاتا اوران کے خلاف ایکشن لیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس بات کو دیکھے کہ کیا یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ نہیں ہے۔اتنے بڑے پیمانے پر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو خود سپریم کورٹ نوٹس لے۔

اگر افغانستان میں عبداللہ عبداللہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اشرف غنی انتخابات کی دوبارہ گنتی کروائے ،اگر وہاں ہوسکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ۔اس صورتحال میں حکومت بالکل تنہا کھڑی ہے۔ساری جماعتیں اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں ۔ہم طاہر القادری سے بھی رابطے میں ہیں اور اگر انہوں نے مجھے یوم شہدا پر مدعو کیا تو میں ضرور جاؤں گا۔

نوید چوہدری (مرکزی رہنما پاکستان پیپلزپارٹی)

اگرپاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہاں بہت سی ایسی تحریکیں چلی ہیں جن کا ابتدا میں مقصد کچھ اور ہوتا تھا اور انجام کچھ اور ہوتا تھا۔ایوب خان کے دور میں فاطمہ جناح کے الیکشن میں دھاندلی کے نام سے بات شروع ہوئی اور سقوطِ ڈھاکہ پر جا کر ختم ہوئی۔

اسی طرح 1977 میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تحریک چلی جو نظام مصطفی پر ختم ہوئی اور نتیجے میں مارشل لاء لگ گیا۔ آج بھی حالات اس ڈگر پر چل رہے ہیں۔آج بھی الیکشن میں دھاندلی کے ساتھ ساتھ انقلاب کی باتیں ہورہی ہیں۔موجودہ سیاسی منظر اور پاکستان کی تاریخ کواگر ملاکر دیکھا جائے تو حالات کہیں اور جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے بھی سیاسی رہنماؤں کو اسی لیے فون کیے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو تشویش ہے کہ آزادی مارچ اور انقلاب کی باتوں کے نتیجے میں کچھ اور ہی نہ ہوجائے اور جمہوریت پٹری سے اتر جائے۔

یہ خالی جمہوریت ڈی ریل ہونے کی بات نہیں ہے یہ طویل جنگ ہے جس میں پیپلز پارٹی تو کیا تمام پارٹیوں کی حیثیت زیرو ہوجائے گی۔موجودہ حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتی۔مگر معذرت کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔حکومت کی جانب سے کچھ فیصلے بہت جلدی میں ہوئے۔حکومتی وزراء کی جانب سے تندوتیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے حالات تصادم کی طرف جارہے ہیں۔

تصادم سے بچنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔اور ان خطرات کو دور کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کردار ادا کرنا چاہیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے دن سے ہی پتا تھا کہ 2013 کے انتخابات ’’ROs‘‘ یعنی ریٹرنگ افسران کی مدد سے لڑے جارہے ہیں۔مگراس کے باوجود بھی ہم نے نتائج کو قبول کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے یہاں تک کہا کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ ۔

ہم پر سخت تنقید کی گئی مگر ہم نے پانچ سال میں مفاہمت کی بنیاد رکھ کر جمہوریت کو چلایا اور اس کے نتیجے میں جو قیمت ادا کی وہ سب کی سامنے ہے۔جہاں تک چار حلقوں کی بات ہے تو چار حلقے پورے ملک پر بھاری نہیں ہوتے۔مگر حکومت نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنالیا اور انا کے دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ آج اتنی تاخیر کے بعد حکومت سوچ رہی ہے کہ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے کیا پہلے یہ ضرورت نہیں تھی؟ دوسری طرف اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے نفاذ نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔

نااہل اور عوام دشمن وزراء کی وجہ سے حکومت خطرات میں نظر آرہی ہے کیونکہ ماضی میں تصادم کی صورت میں ہمیشہ غیر سیاسی قوتوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور کسی نہ کسی طالع آزما نے آکر جمہوریت پر شب خون مارا ہے۔اب یہ خطرات دوبارہ منڈلا رہے ہیں۔عوام کے اندر بے چینی ہے، حکومت آگے بڑھ کر انار کی جیسی صورتحال کو کنٹرول کرے۔ نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے ہیں ان کو پتا ہونا چاہیے کہ محاذ آرائی کی سیاست کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ ابھی تک جو بھی بیانات آرہے ہیں وہ جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ جس کا فائدہ نہ تو حکومت کو ہوگا اور نہ ہی اپوزیشن کو۔ اگر حکومتی وزراء اسی طرح بیانات دیتے رہے تو حالات بہتری کی جانب جاتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سال میں حالات اس نہج تک کیسے پہنچ گئے۔

اگر بادشاہوں کے طریقے سے حکومت چلائی جائے گی تو ایسے ہی حالات پیداہوں گے اور اگر جمہوری انداز سے حکومت چلائی جائے تو حالات میں واضح تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 245 کا نفاذ ختم کیا جائے اور میاں نواز شریف نااہل وزراء سے جان چھڑائیں۔عوام ہرگز نہیں چاہتی کہ جمہوریت کو نقصان پہنچے۔ لیکن اگر حکومت خود ہی خودکش حملے کرنے کو تیار ہے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور ہم حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ہم سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار اداکرنے کو تیار ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کیا سوچ رہی ہے۔ اگر حکومت نے چار حلقوں کو انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے تو پھر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوں گے، وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔پھر مڈٹرم الیکشن کی بجائے بات کہیں اور چلی جائے گی۔ پھر کوئی چھپا ہوا ایجنڈا آسکتا ہے ، چاہے وہ انقلاب کی صورت میں ہویا مڈٹرم الیکشن کی صورت میں۔

نذیر احمد جنجوعہ (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پنجاب)

اس وقت پاکستان میں جمہوریت پر بڑے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ لوگ بہت پریشان ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف بہت واضح ہے کہ ہم کسی بھی ایسی تبدیلی کے حق میں نہیں جو ماورائے آئین ہو۔

آئین و قانون میں رہتے ہوئے جو بھی تبدیلی لائی جائے گی جماعت اسلامی اس کی حمایت کرے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ جو قوتیں اس وقت سرگرم ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کا کوئی مخفی ایجنڈا بھی ہو لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے جلسے جلوس، ریلیاں اور لانگ مارچ ہر پارٹی کا حق ہے اور انہیں یہ حق آئین اور قانون نے دیا ہے۔اس میں حکومت کو رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے ۔ کیونکہ اس سے بہت بڑی قیامت نہیں آنے والی۔ اگر کچھ ایشوز پر پارٹیاں احتجاج کرنا چاہتی ہیں تو ان کو پورا پورا حق حاصل ہے۔

گزشتہ روز تحریک انصاف کے وفد نے جماعت اسلامی کے امیر اور دوسرے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں انہوں نے ہمیں باضابطہ لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی ۔ اس پر ہم نے ابھی کوئی باضابطہ فیصلہ تو نہیں کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف خود بھی لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی واضح سوچ نہیں رکھتی۔ اور انہوں نے بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ اسلام آباد میں پہنچ کر ایک یا دو دن دھرنا دینے کے بعد کیا ہوگا۔آئین نے حکومت میں تبدیلی کے لیے الیکشن کا راستہ دیا ہے مگر وہ مرحلہ ابھی بہت دور ہے۔

میرا خیال ہے اگر اس لانگ مارچ سے کوئی طالع آزما فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو کوئی بھی جمہوری طاقت اس کی حمایت نہیں کرے گی ۔ بالخصوص جماعت اسلامی کا یہ ٹریک ریکارڈ ہے کہ ہم کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرتے جس سے مارشل لاء لگے یا اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ قوتیں آکر ملکی اقتدار پر براجمان ہوں۔

جماعت اسلامی لانگ مارچ کے حق میں ہے ۔ اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور ماڈل ٹاؤن واقعہ جیسی تاریخ نہ دہرائی جائے۔ جس طرح حکومت نے ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو مِس ہینڈل کیا اس طرح لانگ مارچ کو مس ہینڈل نہ کیا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدا میں جس طرح چار حلقوں کی بات کی گئی تھی، حکومت اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرلیتی تو معاملات اس نہج تک ہی نہ پہنچتے۔دوسری طرف طاہرالقادری کی ملک میں آمد کو بھی مس ہینڈل کیا گیا۔اس سے دو دن پہلے ماڈل ٹاؤن میں جو کارروائی کی گئی تھی اس کی کسی بھی سیاسی قوت نے حمایت نہیں کی۔

80 سے زائد لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں اور 14 سے 15 لوگ جاں بحق ہوئے ہیں مگر حکومت نے ایف آئی آر تک نہیں کاٹی اور ابھی تک حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔الیکشن کے حوالے سے جماعت اسلامی کا خیال ہے کہ الیکشن اصلاحات ہونی چاہیں اور ہم نے اس حوالے سے ایک پروگرام بھی دیا ہے۔ اس میں بہت سی اصلاحات پر مل بیٹھ کر بات کی جانی چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سیاسی معاملات کو سیاسی طور پر حل کرے۔اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ ایک غیر سیاسی فیصلہ ہے اور اس کو واپس لیا جانا چاہیے۔

اس وقت ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں اور بہت سے لوگ نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے ، پرویز مشرف پر بھی مقدمات کا معاملہ ہے اور ممکن ہے کہ اداروں کے درمیان بھی تناؤ موجود ہو۔ایسے حالات میں فوج کو شامل کرنا اور بذات خود دعوت دینا کوئی بہت بڑی دانشمندی کا ثبوت نہیں ہے۔ہمارا خیال ہے کہ حکومت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن جماعتیں بھی کسی طالع آزما کو آکر کھیلنے کا موقع نہ دیں۔آئین کے اندر مڈٹرم انتخابات کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور الیکشن پانچ سال بعد ہونے چاہیں۔

2013 میں الیکشن کے حوالے سے ہمیں بہت سے تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنہیں مینڈیٹ ملا ہے انہیں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں کبھی بھی مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرتیں۔ مذاکرات کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ ہمیں بھی کہا گیا ہے کہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ ہم انشاء اللہ فریقین سے بات چیت کرکے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔میرا خیال ہے کہ عمران خان نے جو سخت موقف اپنایا ہے وہ درست نہیں ۔ ان کو مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔

حکومت کو بھی سنجیدگی سے عمران خان کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دینی چاہیے۔ جس طرح پہلے بھی میاں نواز شریف عمران خان کے گھر تشریف لے گئے تھے اس طرح اب بھی اس کا اعادہ کیا جانا چاہیے۔مجھے تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کے بعد محسوس ہوا کہ وہ بھی کوئی انتہائی قدم نہیں اُٹھانا چاہتے۔ میرا خیال ہے اگر حکومت انکے مطالبات خاص طور پر چار حلقوں والا مطالبہ شروع میں مان لیتی اور ن لیگ کے جیتے ہوئے افراد سے استعفے لے لیے جاتے تو شاید آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔

جہاں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے اگر اس معاملے کو بھی سابقہ معاملات کی طرح ہینڈل کیا گیا تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیںہوگا۔ اگر تحریک انصاف اسلام آباد پہنچ کر دو یا تین دن دھرنا بھی دے دیتی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اس سے پہلے بھی طاہرالقادری پچاس ہزار سے زائد لوگوں کے ساتھ ڈی چوک پر دھرنا دے کر بیٹھے رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان کو بہت اچھے طریقے سے ہینڈل کیا۔اس وقت حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں تک حکومت کے طرز عمل کی بات ہے تو آپ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود احمد کی پریس کانفرنس دیکھ لیں۔ ایسے لب و لہجے میں مذاکرات کامیابی کی طرف جاتے دکھائی نہیں دیتے۔وزیراعظم میاں نواز شریف خود اپنے وزراء کو تند و تیز بیانات دینے سے روکیں۔ حکومت کو آگے بڑھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔