’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کا سفر

عبید اللہ عابد  جمعـء 15 اگست 2014
تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی تحریک اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوپائے گی؟  فوٹو : اے ایف پی

تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی تحریک اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوپائے گی؟ فوٹو : اے ایف پی

کہانی شروع ہوتی ہے 15 مئی 2013ء کو، جب عام انتخابات منعقد ہوئے چار روز بیت چکے تھے، پاکستانی سیاست پر تیزی سے ابھرنے والی ایک نئی سیاسی قوت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انتخابات کے صاف وشفاف نہ ہونے کا عندیہ دیا اور کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن سے بہت سی توقعات تھیں لیکن کمیشن ان توقعات پر پورا نہیں اترا۔

ان کی جماعت کو قومی اسمبلی کے 25 حلقوں کے نتائج پر خدشات ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان میں سے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانوں کی مدد سے ووٹوں کی تصدیق اور دوبارہ گنتی کروائے۔ ان کے بقول: ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جسے ووٹ دیا وہ شکلیں سامنے نہیں آئیں۔ اب اس میں حقیقت کتنی ہے، کتنی نہیں یہ جاننا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ عمران خان نے کہا کہ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں کو مطمئن کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ بھی انتخابی عمل قابل قبول انداز میں چلے اور یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو مایوس نہ ہونے دے کیونکہ اگر یہ نوجوان مایوس ہوگئے تو پھر یہ انتخابی عمل میں واپس نہیں آئیں گے۔‘‘

10 جون2013ء کو عمران خان نے بسترعلالت ہی سے اعلان کیا کہ وہ صحت یاب ہوکر الیکشن دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ ان کے بقول: ’’ انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی اور یہ واحد انتخابات ہیں جن میں ہر پارٹی دھاندلی کا الزام عائد کر رہی ہے۔

مسلم لیگ نون سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر دھاندلی کا الزام عائد کر رہی ہے اور دیگر جماعتیں پنجاب میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔ عمران خان کاکہناتھاکہ انتخابات کے نتائج کے فوری بعد وہ ہسپتال میں تھے اور انہیں دھاندلی کا مکمل اندازہ نہیں ہوا لیکن جب پورے پاکستان سے دھاندلی کی شکایات آنا شروع ہوئیں تو انہیں علم ہوا کہ کتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ انھوں نے اس روز ایک بار پھر کہا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کے کردار سے مایوس ہوئے ہیں، الیکشن کمشن اور عدلیہ نے جانبدارانہ کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جن چند حلقوں کی وہ نشاندہی کر رہے ہیں وہاں مکمل اور غیر جانبدارانہ چھان بین ضروری ہے اور ایسی انکوائریاں ایک سبق ہوتی ہیں تاکہ آئندہ الیکشن میں دھاندلی کاراستہ روکا جائے۔‘‘

٭٭٭

انتخابات کا ایک سال مکمل ہوا تو عمران خان نے رابطہ عوام مہم شروع کردی۔ یوںسونامی اسلام آباد کے بعد فیصل آباد سے ہوتا ہوا 7 جون کو سیالکوٹ اور پھر 22 جون کو بہاولپور پہنچا۔ ان جلسوں کے خطاب کے دوران عمران خان نے 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ قرار دیا جس کے ذریعے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرایا گیا۔

انہوں نے انتخابات کو فراڈ ثابت کرنے کیلئے کئی مثالیں بھی دیں، پھرانھوں نے فراڈ کی کہانی یوں سنائی: ’’ این اے 118 جہاں ٹریبونل نے گنتی کا فیصلہ کیا، اور 15 دن میں گنتی کے بعد انکشاف ہوا کہ 1 لاکھ 65 ہزار میں سے 90 ہزار ووٹ بوگس تھے، نادرا کا چیئرمین 68 بیگ کھول کر اندر ووٹ ڈالتا رہا۔ تحریک انصاف کے حامد زماں نے انصاف کے حصول کے لیے 57 لاکھ روپے خرچ کئے۔ ایک سال لگ جاتا ہے دھکے کھاتے ہوئے… 57 لاکھ روپے وکیل، نادرا اور ٹریبونل پر خرچ کئے۔

تب جج نے فیصلہ دیا… اور حامد زمان کا مخالف ن لیگی بیگ کھول کر ووٹ تبدیل کررہا ہوتا ہے، جہانگیر ترین کے حلقہ میں بھی گنتی کے لیے ان کے 2 کروڑ روپے خرچ ہوئے،کراچی کے حلقہ این اے 258 میں زبیر خان نے 15 لاکھ روپے چندہ اکٹھا کر کے 70 ہزار ووٹوں کی گنتی کروائی تو صرف ساڑھے 6 ہزار اصلی، باقی جعلی نکلے۔ سرگودھا کے ایک پولنگ اسٹیشن میں جہاں نوازشریف امیدوار تھے، 1500 کل ووٹ تھے لیکن 8 ہزار نکل آئے، الیکشن کمیشن کو یاد آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ٹائپنگ کی غلطی ہے۔

میں پوچھتا ہوں ٹائپنگ کی کتنی غلطیاں ہیں؟ 2008ء میں ن لیگ 68 لاکھ ووٹ لیتی ہے۔ 2008ء میں اگر ن لیگ کو 68 لاکھ ووٹ پڑے تو 2013ء میں 1 کروڑ 45 لاکھ ووٹ کیسے پڑ گئے؟ پچھلے پانچ سال میں ن لیگ کی حکومت کے دوران کیا روز گار کے مواقع بڑھے، پولیس کا نظام بہتر ہوا، صحت کا نظام بہتر ہوا؟ ڈاکٹروں، ٹیچرز کو ماریں پڑیں، نرسوں اور کسانوں کا برا حال ہے…  بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ہے… آپ نے ایسا کون سا کارنامہ کیا کہ 68 لاکھ سے 1 کروڑ 45 لاکھ ووٹ لے لیے! کیا یہ بھی ٹائپنگ کی غلطی ہے؟ ہم نے صرف 4 حلقوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا، اسے مانتے ہوئے آپ کو کون سا خوف ہے؟ لوگ سوچتے ہوں گے کہ عمران خان 4 حلقوں کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ میں اس لیے اس مطالبے کو لے کر کھڑا ہوں کہ جب تک حقیقی جمہوریت نہیں آئے گی۔

آپ کو ترقی، خوشحالی اور روزگار نہیں ملے گا۔ پاکستان میں ووٹ کسی کو ڈالا جاتا ہے، منتخب کوئی اور ہوجاتا ہے۔ حافظ آباد میں تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب ہوا تو اب تک 37 ایف آئی آرز ہمارے خلاف کٹ چکی ہیں۔ یہ ظالم طبقہ آپس میں بندربانٹ کررہا ہے، 5 سال تم مرکز میں حکومت کرو میں سندھ میں کروں گا، پھر باری بدل لیں گے۔

اْدھر تم، اِدھر ہم… دونوں بڑی جماعتیں مل کر نیب بنائیں گی، اپنا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت بنائیں گی…لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ سڑکوں پر نکلیں گے، عدالتوں میں بھی جائیں گے، لیکن ایسا الیکشن پھر کبھی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

٭٭٭

اگلے دنوں میں عمران خان دھاندلی کی کہانی میں مزید کئی لوگوں کے کردار کو بیان کرتے رہے۔ اسی دوران انھوں نے 14 اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ اس وقت تک اسلام آباد میں دھرنادیں گے جب تک وہ اپنے مطالبات تسلیم نہیں کرالیتے۔

یہ مطالبات کیا تھے، وہ واضح نہیں کررہے تھے۔ ان کی باتوں سے یہ تاثر یہ مل رہا تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے جارہے ہوں ۔ دھاندلی کے ذمہ داران میں عمران سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور نجم سیٹھی کا نام بھی لے چکے تھے، کہا گیا کہ نجم سیٹھی نے 35 سیٹیں مسلم لیگ ن کو دلائیں، اسے 35 پنکچر لگانے سے تعبیر کیا گیا، تاہم چار روز قبل(گیارہ اگست 2014ء کو) عمران خان نے جسٹس(ر) خلیل الرحمن رمدے، جسٹس(ر) ریاض کیانی سمیت دیگرکئی نام بھی شامل کردئیے۔ اب ان کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف مستعفی ہوں، ازسرنو انتخابات کرائے جائیں۔

اگلے ہی روز شام کے وقت ایک نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں عمران خان نے اپنے مطالبات کو مزید واضح کیا۔ اوّل: نوازشریف کا استعفیٰ، دوم: ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومت، سوم: دھاندلی کی عدالتی تحقیقات۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ناصرالملک پر اپنے کامل اعتماد کا اظہار کیا۔ ایک گھنٹہ بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے قوم سے براہ راست خطاب میں چیف جسٹس ناصر الملک سے درخواست کی کہ وہ ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کریں جو ان الزمات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔

٭٭٭

وزیراعظم نوازشریف نے اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پر یلغار کرنے والے بتائیں کہ ہمارا قصور کیا ہے اور کس طرح کا انقلاب چاہتے ہیں جو لوگ ہماری ٹانگیں کھینچ رہے ہیں دراصل وہ قوم کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ 90 روز میں انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پاس خیبر پختونخوا کی حکومت ہے لیکن وہاں تو ان کے وعدے وفا نہیں ہوئے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2013ء کے الیکشن پہلی بار اتفاق رائے سے چنے گئے چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں ہوئے جس میں انتخابات پہلی بار نئی آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم ہونے والی نگراں حکومتوں کی نگرانی میں کرائے گئے جبکہ ان ہی الزام تراشیاں کرنے والوں کے مطالبے پر عدالت عظمیٰ نے اجازت دی کہ عدلیہ کے جج صاحبان ریٹرننگ افسران کے فرائض سرانجام دیں گے۔

عام انتخابات کو ملکی و غیر ملکی میڈیا نے کوریج دی اور انہیں غیر ملکی مبصرین نے ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات ہمارے منشور کا حصہ ہے جس کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو خط لکھا تھا کہ دونوں ایوانوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وسیع تر بنیادی اور موثر انتخابی اصلاحات کا جامع نقشہ تجویز کریں جس کے بعد 33 اراکین پر بننے والی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے اور حکومت اس کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر صدق دل سے عمل کرے گی۔

چاہے اس کے لیے قانون بدلنا پڑا یا آئین میں ترمیم کرنا پڑی تو کریں گے، بلکہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا ڈھانچہ بدلنے کو بھی تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک میں پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں کیے جائیں کیونکہ اب یہاں کسی کی بادشاہت ہے اور نہ ہی آمریت۔ وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا حکومت واضح کرنا چاہتی ہے کہ ہر سیاسی، آئینی، قانونی اور قومی معاملے میں اصلاح احوال کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں اور ہم ملکی سیاسی قیادت کی مشاورت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنا آئین اپنا قانون اور اپنا جمہوری نظام رکھنے والی ریاست ہے ہم پاکستان کے آئین و جمہوری تشخص پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،کسی کو انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور کسی کو یہ بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کی گردنیں کاٹنے پر اکسائے اور انتہا پسندی، دہشتگردی کے خلاف جتھا بندیوں کے ذریعے ریاستی نظام کو یرغمال بنالے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملکی صورتحال کا جائزہ لینے اور اجتماعی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے آزادانہ اور شفاف تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا ایک کمیشن قائم کرانے کا فیصلہ کیا، اس اقدام کے بعد کیا کسی احتجاجی تحریک کی گنجائش ہے اس سوال کا جواب میں قوم پر چھوڑتا ہوں۔

٭٭٭

وزیراعظم کے خطاب کے بعد ماہرین اور تجزیہ نگار امید ظاہر کررہے تھے کہ عمران خان سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن پر اظہاراعتماد کریں گے تاہم ایسا نہ ہوا۔ عمران خان نے کہا کہ عوامی دباؤ پر حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام پر راضی ہوگئی تاہم وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کے مستعفی ہونے کے بعد ہی جوڈیشل کمیشن کو قبول کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف کے ہوتے ہوئے کوئی کمیشن کام نہیں کرسکتا کیونکہ وہ انصاف دینا ہی نہیں چاہتے، ان کی موجودگی میں شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتی۔ اسی دوران پاکستان کی وزارت قانون نے عمران خان کی طرف سے مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو عدالتی کمیشن تشکیل دینے کیلئے خط لکھ دیا۔ خط میں پاکستان کے چیف جسٹس سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ تین رکنی بینچ تشکیل دیں جو 90 روز میں اس بات کا تعین کرے گا کہ عام انتخابات میں کس کو فائدہ پہنچایا گیا؟

عمران خان کے برعکس قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے تحریک انصاف کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اب عدلیہ آزاد ہے، اس پر ہم سب کو اعتماد ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ اب خطرہ ٹل جائے گا۔

٭٭٭

عمران خان نے عدالتی کمیشن کے آپشن کو مسترد تو کردیا لیکن اسے ان کی اپنی پارٹی کے اندر اچھی نظرسے نہیں دیکھا گیا۔ مثلاً تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہہ الدین وزیراعظم کی پیشکش کو قبول کرلینے کے حق میں ہیں۔

عمران خان کے ٹیکنوکریٹس والے مطالبے کو تحریک انصاف کے صدرجاوید ہاشمی نے مستردکردیا۔ وہ لانگ مارچ میں شرکت کا ارادہ ختم کرکے اسلام آباد سے ملتان روانہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا  کہ ججز اور ٹیکنوکریٹس حکومت نہیں کر سکتے۔ سات سال قید کاٹی ہے، جمہوریت ان کے ایمان کا  حصہ، جمہوریت کی پاسبانی اور پہرہ ان کی سیاست کا حصہ ہے، کسی طالع آزما کو 20 کروڑ عوام کے حقوق غصب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے عمران خان کی طرف سے ٹیکنوکریٹ حکومت کے مطالبہ کو غیر آئینی اور قابل مذمت قرار دیا۔ ان کے مطابق کوئی جمہوری جماعت ٹیکنوکریٹ حکومت کو قبول نہیں کرے گی اور نہ ہی عدلیہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کی اجازت دے گی۔ ان کے بقول: ’’آخر بلی تھیلے سے باہر آہی آگئی، عدالتی کمیشن کے قیام سے قبل عمران خان کے مطالبے پر وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا تو وہ بھی غیر آئینی وغیر جمہوری اقدام کے زمرے میں آئے گا‘‘۔

شدید ری ایکشن کے بعد عمران خان نے اپنے مطالبے میں ’’ ٹیکنوکریٹس کی حکومت‘‘ کو’’ غیرسیاسی اور غیرجانبدار حکومت‘‘ کے مطالبہ میں تبدیل کرلیا۔ ساتھ ہی تحقیقاتی کمیشن کی اہمیت پر بھی نظرثانی کی۔ اب ان کا کہنا تھا: ’’ ملک میں حمود الرحمان کمیشن سے لے کر آج تک کسی کمیشن نے فیصلہ نہیں کیا جبکہ ماڈل ٹاؤن میں قتل عام پر ہی کمیشن بنا لیکن اس کے نتیجے میں گلو بٹ رہا ہوگیا۔‘‘

٭٭٭

یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کی دھاندلی کے الزامات، تحقیقات کے مطالبات سے شروع ہونے والی تحریک اب حکومت گرانے اور ’’ غیر سیاسی اور غیر جانبدار حکومت‘‘ کی کوشش میں بدل چکی ہے۔ طاہر القادری کی عوامی تحریک اور چوہدری برادران کی قاف لیگ بھی اس مہم میں شریک ہے۔ شیخ رشیدکہتے ہیں کہ نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہی ان کا یک نکاتی ایجنڈا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو شاید خدشہ ہے کہ عمران خان حکومت کی برخاستگی کے ایجنڈے پر ٹھہر نہ سکیں اور اس سے کم کسی بات پر مان جائیں، چنانچہ وہ بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ عمران خان اور طاہرالقادری میں سے جو بھی قوم سے غداری کرے گا وہ سیاست سے نیست ونابود ہوجائے گا۔ طاہرالقادری کابیان زیادہ خطرناک اور سنگین ہے کہ مقصد حاصل کئے بغیر جو بھی واپس آئے ، اسے شہید کردیاجائے۔

حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سن کر زیادہ خوفزدہ ہوئی اور مسلسل اسی سوچ بچار میں ڈوبی رہی کہ اسلام آباد کو کیسے بچایا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی تیز رفتار مفاہمتی کوششوں کے نتیجے میں حالات یوں سازگار ہوئے کہ حکومت نے عمران خان اور طاہرالقادری ،دونوں کے قافلوں کو اسلام آباد آنے کی اجازت دیدی۔

٭٭٭

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ اسلام آباد کی طرف سفر کرتے ہوئے عمران خان قوم کو پیغام دے رہے تھے کہ ’’شریفوں کی بادشاہت ختم ہونے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف استعفیٰ دے کر گھرچلے جائیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو ریلیف محسوس رہاہے، فیصلے کے مطابق دونوں جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے استعفے، پارلیمان کی تحلیل، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تشکیل اور نئے انتخابات کے مطالبات غیر آئینی ہیں۔ عمران خان اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کیلئے ایک آپشن یہ ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کو خاطر میںنہ لائیں اور اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں۔

دوسرا آپشن فیس سیونگ کا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالبات منوا کر اسلام آباد سے واپسی کا راستہ اختیارکرلیں۔ استعفیٰ ایک ریڈلائن ہے، حکومت ہر قیمت پر، ہرکسی کو اس ریڈ لائن کے نزدیک آنے نہیں دے گی۔ تاہم دیگر مطالبات پر مذاکرات کا راستہ کھلے گا۔ زیادہ امکانات ہیں کہ کچھ ایسا ہو گا جس پر عمران خان مطمئن ہوجائیں گے اور حکومت بھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ دونوں طرف یہ عزم نظر آتا ہے کہ تیسری قوت کو مداخلت کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ اب حکومتی زعما کو کم ازکم یہ احساس ضرور ہو چکا ہے کہ مسائل اور مطالبات کو نظرانداز کرنے سے کیا ہوتا ہے۔

سراج الحق کی مفاہمتی کوششیں

عمران خان کے تند وتیز بیانات، طاہرالقادری، چوہدری برادران اور شیخ رشید کی طرف سے حکومت کے خاتمے کے دعووں نے پاکستان بھر کے ماحول کو شدید ہیجان خیز بنادیا۔

قوم کا ایک بڑا حصہ تصادم اور اس کے نتیجے میں تیسری قوت کی مداخلت کا خدشہ محسوس کرنے لگا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق اس خدشہ کو محسوس کرتے ہوئے فوراً اپنا کردار اداکرنے لگے۔ وہ عمران خان اور نوازشریف کو مسلسل سمجھاتے رہے کہ تصادم سے گریز کیاجائے اور کسی درمیانی راستے پر اتفاق کرلیا جائے۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ کوئی حادثہ ہوا تو ٹریفک پولیس نے آکر راستہ صاف کرنا ہے جو ہم نہیں چاہتے۔

ٹریفک پولیس نے آکر سب کا چالان کرنا ہے کیونکہ یہ دنیا کا قانون ہے حادثوں کے بعد راستے کھولے جاتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ کسی کا چالان ہواور بعد میں دیکھا جائے کہ کس کی غلطی ہے اور کس کی نہیں انہوں نے کہا کہ ملک کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے اور چاروں طرف خطرات ہیں اس لیے ہم سیاست سے بالاتر ہوکر ملک وقوم اور جمہوریت کے لئے محنت کررہے ہیں اور ہماری جدوجہد کا مقصد یہی ہے کہ ان خطرات میں ملک آئین اور جمہوریت کو بچایا جائے۔

سراج الحق نے کہا کہ دونوں طرف منتخب سیاسی جماعتیں موجود ہے اس لیے ہمارا پیغام ہے کہ تمام مسائل بات چیت اور سیاست کے ذریعے ہی حل کیے جائے۔ ہماری کوشش ہے کہ اسلام آباد کے چوراہوں پر خون بہے اور نہ ہی لاشیں گریں اور پاکستان دنیا کے سامنے تماشہ بننے سے بچ جائے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ہم بھی انتخابی نظام میں اصلاحات چاہتے ہیں اور دھاندلی کا راستہ بند کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں چاہتے۔

تصادم سے جمہوریت کو بچانے کے لئے سراج الحق کی کوششوں کو ملک میں وسیع پیمانے پر تعریف وتحسین کی نظروں سے دیکھا گیا۔ وہ مسلسل وزیراعظم نواز شریف کو سمجھاتے رہے کہ مارچ اور دھرنا عمران خان کا سیاسی حق ہے، انہیں اسلام آباد آنے دیا جائے۔

نتیجتاً نواز شریف نے سراج الحق کے کہنے پر عمران خان کو ان کا سیاسی حق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ یوں قوم نے اس فیصلہ پر سکون کا سانس لیا۔ حیران کن طور پر حکومت نے طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کو بھی اجازت دیدی حالانکہ زیادہ گمان یہی تھا کہ عمران خان کو اجازت مل جائے لیکن عوامی تحریک کے قائد کو نہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے انھیں اجازت مختلف سیاسی رہنماؤں کی ضمانت اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی سفارش پر دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔