غزہ کے خون نے اسرائیل کو کیسے رسوا کیا؟

عبید اللہ عابد  اتوار 17 اگست 2014
اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔  فوٹو: فائل

اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ فوٹو: فائل

غزہ فلسطین پر وحشت ناک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ایک بارپھرملبے کا ڈھیر بنا، اب تک اس کے دوہزار سے زائد شہری شہید اور نوہزار زخمی ہوئے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان  نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیاکہ انھوں نے اہداف حاصل کرلئے۔ حماس کے ترجمان سمیع ابوزہری کہتے ہیںکہ اسرائیل غزہ میں 100فیصد ناکام رہاہے۔کس کا دعویٰ درست ہے ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔ اسرائیلی وزرا کے بیانات دیکھیں تو اسرائیلی فوجی ترجمان کا دعویٰ غلط ثابت ہوتاہے۔ ظاہر ہے اسرائیلی وزرا حقیقت سے آنکھ چرا نہیں سکتے جبکہ فوج کا مسئلہ نوکری بچاناہے۔

اسرائیلی وزیرانصاف زیپی لیونی نے دوران جارحیت اعتراف کیا کہ اسرائیل کوسنگین حالات اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔تین روزہ جنگ بندی کے بعداسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو نے بیان دیاکہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے بقول:’’ ہم غزہ کی پٹی میں ایک اسٹرٹیجک معرکہ میں ہار چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی مدمقابل کو ڈرانے کی صلاحیت ڈرامائی طور پر تبدیل( کم) ہوئی ہے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کا زور توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسرائیلی وزیر سیاحت کے بقول اب فوج حماس کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی میں پس و پیش کر رہی ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ لانڈو بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پرسخت غم زدہ تھے۔

حالیہ جارحیت کے بعد سامنے آنے والے ابتدائی اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی جنگ کے اخراجات9 کھرب اسرائیلی شیکل سے بڑھ چکے ہیں۔ ایک طرف یہ بھاری بھرکم جنگی اخراجات، دوسری طرف معاشی نقصان۔ سب سے زیادہ نقصان سیاحت کے شعبے کو پہنچا۔’نیوز ون‘ نامی پورٹل نے دعویٰ کیا ہے کہ سیاحت کے شعبے میں فضائی کمپنیوں کی پروازوں اور اس سے قبل ہوٹلوں میں کنفرم بکنگ کی منسوخی کے باعث اسرائیلی معیشت کو 2.2 کھرب کا نقصان پہنچا۔غزہ پر اسرائیلی حملے کے باعث صنعتی سرگرمیاں ماند پڑنے سے 445 ملین شیکل کا نقصان پہنچا۔

جنوبی اسرائیل میں واقع فیکٹریوں میں کام بند رہا، ملازمین راکٹ حملوں کے باعث کام پر نہیں آسکے۔ ایسی صورتحال غزہ سے 40کلومیٹر دور اسرائیلی علاقے کے اندر قائم صنعتی زون میں بھی دیکھنے کو آئی، وہاں قائم انڈسٹری کو 180 ملین شیکل جبکہ اسرائیل کے وسطی علاقے سے حیفا تک موجود صنعتی اداروں کو بھی غزہ جنگ کی وجہ سے 220 ملین شیکل  خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ راکٹ باری سے کل 350 (کاروباری اور رہائشی )عمارتیں متاثر ہوئیں، ان کی مرمت پر 50 ملین شیکل لاگت آئے گی۔ جنوبی ریجن میں غزہ جنگ کے باعث عمومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 500 ملین شیکل لگایا گیا۔

اسرائیلی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ان کی پیادہ اور آرمڈ انفنٹری کو اسرائیلی فضائیہ کے ایف سولہ، ایف پندرہ طیاروں سمیت ہیل فائر میزائلوں سے لیس جاسوسی طیاروں کا کور حاصل نہ ہوتا تو وہ غزہ میں ایک ملی میٹر تک بھی اندر آنے کی جرات نہ کرتے۔ اسرائیل میں گرما گرم خبروں کی اشاعت کے لئے مشہور متعدد ویب پورٹلز نے اسرائیلی فوجی افسر کا یہ بیان جلی سرخیوں میں شائع کیاکہ پیادہ اسرائیلی فوج کے غزہ میں داخلے سے ایف سولہ اور ایف پندرہ طیاروں نے ایک سے ڈیڑھ ٹن وزنی بم گرا کر غزہ کی عمارتیں تباہ کیں۔

یہ عمارتیں اسرائیل غزہ سرحد پر واقع تھیں، اس کے بعد صہیونی فضائیہ نے مختلف طرز کے لڑاکا طیاروں کی مدد سے علاقے میں 250 کلوگرام وزنی بم گرائے۔ اتنے بڑے پیمانے پر بمباری کے بعد بھی پیدل فوج کے سورمائوں نے اس خوف سے غزہ کے علاقے میں پیش قدمی نہیں کی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کسی زیر زمین سرنگ سے القسام بریگیڈ کاکوئی مجاہد نکل کر انہیں ہلاک نہ کر دے۔

10دن کی فضائی بمباری کے بعد اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی جانب پیش قدمی کا حوصلہ ہوا۔ زمینی کارروائی کی سست روی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹینک تین میٹر کا فاصلہ تین تین گھنٹوں میں طے کرتے کیونکہ انہیں مسلح فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے بچھائی جانے والی سرنگوں کی موجودگی کا خوف لاحق تھا۔ فوجی عہدیدار کے بقول :’’ہمیں فضائی مدد حاصل نہ ہوتی تو غزہ سے ہمارا ایک بھی فوجی زندہ سلامت واپس نہ آتا‘‘۔

مقبوضہ فلسطین میں سدیروت شہر کے اسرائیلی میئرمسٹر ڈیویڈ نے صہیونی وزیردفاع موشے یعلون پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے بالمقابل یہودی کالونیوں اور دیگراسرائیلی شہروں کو فلسطینی راکٹ حملوں سے بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی میئر آلون ڈفیڈی نے سوشل میڈیاکی ویب سائٹ پر پوسٹ میں موجودہ حکومت اور فوج کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے:’’یہودی آباد کاروں کو فلسطینی راکٹوں سے دفاع کے لیے جس نوعیت کے دفاعی اقدامات کی ضرورت تھی، حکومت نے نہیں کئے۔ غزہ کی پٹی سے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ایک ماہ کی مسلسل بمباری کے باوجود فلسطینی مزاحمت کار پرعزم ہیں۔ مزاحمت کاروں کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے اسرائیلی دعوے قطعی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیلی فوج کے حملوں کا خوف نہیں ہے۔ وہ پوری آزادی اور بے باکی کے ساتھ اسرائیلی کالونیوں پر راکٹ حملے کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی طاقت اب بھی مضبوط ہے‘‘۔

حماس کے ہاتھوں اپنے ڈیڑھ سو سے زائد فوجی ہلاک کرانے کے بعد صہیونی قیادت کیلئے یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ وہ گزشتہ چندبرسوں سے بین الاقوامی محاذ پر مسلسل تنہائی کا شکار ہورہی ہے۔ بالخصوص 2010ء میں فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد یہ تنہائی شدت اختیارکرگئی۔31مئی2010ء کو جب ترکی کی طیب اردگان حکومت کے تعاون سے ’فری غزہ موومنٹ‘ نے غزہ کے محصور ومظلوم لوگوں کیلئے امدادی سامان بھیجنے کی کوشش کی تو اسرائیل نے آزاد پانیوں سے گزرنے والے اس بحری جہاز پر حملہ کردیا اور 9امدادی کارکنوں کو گولیوں سے بھون ڈالا جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔

بعدازاں سب کارکن گرفتارکرلئے۔ ان کارکنوں میں ترکی اور مختلف مغربی مماک کے ارکان پارلیمان بھی تھے اور انسانی حقوق کے کارکنان، امدادی اداروں سے وابستہ لوگ بھی۔ اس واقعے کے نتیجے میں اسرائیل کو ترکی کے شدید غیظ وغضب کا سامنا کرناپڑا۔ مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ، انھوں نے غزہ کے محصورین کے حق میں آواز بلند کی۔ بعدازاں ان آوازوں میں اضافہ اور شدت پیدا ہوتی گئی۔

حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد مسلم دنیا کے علاوہ غیرمسلم ممالک میں بھی فقیدالمثال احتجاج دیکھنے کو ملا۔ جارحیت کی سب سے پر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کی۔ سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کیلیے ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی۔

برازیل کی خاتون صدر ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ پورے خطے میں میکسیکو سے لے کر چلی تک فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ اس مرتبہ عرب ملکوں کی نسبت یورپ اور لاطینی امریکا میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے زیادہ بڑے تھے۔

مغربی ممالک میں بھی سینکڑوں نہیں ہزاروں کے مظاہرے تھے، کسی ملک نے اسرائیل مخالف مظاہروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کی، صرف فرانسیسی حکومت نے ان مظاہروں پر پابندی عائد کی لیکن مظاہرین نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ بعدازاں حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، فرانس، سپین، آئرلینڈ، بلجیم، ہالینڈ اور ڈنمارک میں احتجاج اس قدر بڑے پیمانے پر ہوا اور لوگ اس قدرغم وغصے میں تھے کہ یہاں یہودی معبدوں اور یہودی شہریوں کی سلامتی خطرے میں پڑگئی۔بعض ممالک میں یہودیوں کی املاک پر حملے ہوئے۔ ایکواڈور نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجاً تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا لیاتھا۔ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو نے کہا کہ ہم غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ امریکی جریدے لاس اینجلس ٹائمز نے لکھاہے کہ دنیا بھر میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا سبب غزہ پر اسرائیلی حملے ہیں۔

اسرائیل میں ڈھائی ہزار قدامت پرست یہودیوں اور اسرائیلی عربوں نے غزہ پر وحشیانہ مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔لندن سمیت دیگرکئی مغربی شہروں میں بھی کم یا زیادہ تعداد میں یہودی سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے کہا کہ صہیونی حکومت جو کچھ کررہی ہے، وہ ان کی مذہبی تعلیمات کا عکاس نہیں ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی صہیونی پالیسیوں کو مسترد کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل دوست ممالک میں بھی اس کے حامی لوگ تیزی سے مخالف ہورہے ہیں۔

امریکیوں کی نئی نسل اسرائیل کی حامی نہیں ہے۔ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ادارے’ گیلپ‘ کے مطابق 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکی نوجوانوں کی50 فیصد سے زائد تعدادسمجھتی ہے کہ اسرائیل جو کچھ کررہا ہے ، اس کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے نوجوان جو اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں، کی تعداد 25 فیصد بھی نہیں۔

30 سے 49 برس کے امریکیوں میں43 فیصد اسرائیلی پالیسیوں کو ناجائز سمجھتے ہیں جبکہ اسی کیٹاگری میں جائز قراردینے والے امریکیوں کی شرح36 فیصد ہے۔ پچاس سال یا اس سے زائد عمر کے امریکیوں میں اکثریت اسرائیل کی حامی ہے لیکن اس اکثریت کو ’’بمشکل اکثریت‘‘ کہنا پڑے گا۔ 50 سے 64 برس عمر کے52 فیصد لوگ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیںجبکہ 29 فیصد مخالفت۔ 65 سال سے زائد عمر کے54فیصد امریکی اسرائیل کے حامی ہیں جبکہ 29 فیصد مخالف۔ یادرہے کہ یہ سروے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت سے قبل کیا گیا تھا۔

امریکا کے سیاسی طبقات میں اسرائیل کی حمایت اور مخالفت کاجائزہ لیاگیاتو ری پبلیکن پارٹی کے زیادہ تر لوگ اسرائیل کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس میں زیادہ تر اسرائیل مخالف ہیں، آزاد بھی ڈیموکریٹس جیسا رجحان رکھتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی میں65فیصد لوگ اسرائیل کے اقدامات کے حامی ہیں جبکہ21فیصد مخالف۔ ڈیموکریٹس میں31فیصد اسرائیل کے حامی جبکہ 47فیصد اس کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ آزاد میں بھی48فیصد لوگ مخالف جبکہ 21فیصد اسرائیلی اقدامات کے حامی ہیں۔

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی مخالفت کے علاوہ بہت سے دیگر پہلو ہیں جو اسرائیلی ناکامیوں کونمایاں کررہے ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل خطے میں مصر کے مفیدکردار سے محروم ہوگیاہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اور اس کے ساتھ مختلف معاہدات میں بندھا ہوا مصر اسرائیلی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے لئے کردار اداکرتارہا۔ تاہم حسنی مبارک کے اقتدارکے ساتھ ہی یہ باب بند ہوگیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسرائیل حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دنوں خاصا پریشان رہا۔

بعدازاں نئے مصری صدر ڈاکٹرمحمد مرسی نے مصر کا کردار مکمل طورپر تبدیل کردیا۔ انھوں نے اسرائیل کے لئے رعایات وغیرہ ختم کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرمرسی ان دنوں جیل میں مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ ان کا تختہ الٹنے والے فوجی جرنیل سیسی نے مصرکے پرواسرائیل کردار کو نہ صرف بحال کردیا بلکہ حسنی مبارک دورکی نسبت زیادہ مضبوط کردیاہے۔

اسرائیل کی حالیہ وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے بعد جب اسرائیل کو القسام بریگیڈ کی طرف سے ٹف ٹائم ملنے لگاتو مصر نے (اسرائیل کے ایما پر ) اس اندازمیں جنگ بندی کی ایسی تجاویزپیش کیںجو اسرائیلی مفادات کی محافظ تھیں۔ حماس نے مصری تجاویز کو ماننے سے صاف انکارکردیا۔حماس نے مصرکو ناقابل اعتبار قرار دیا تو امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے مصر کا متبادل ثالث تلاش کرناشروع کردیا۔ اس سلسلے میں ترکی اور قطر سے رابطہ کیاگیا۔ ترکی اور قطر پرو اسرائیل نہیں، اس لئے مصر جیسے دوست کا فلسطینیوں کے نزدیک غیرمعتبر ہونابھی اسرائیل کابڑا نقصان ہے۔

چلتے چلتے اس سوال کا جواب اس رپورٹ سے لے لیجئے کہ آگے کیاہونے والا ہے؟ غزہ پر12 جولائی 2014ء کو شروع ہونے والی وحشیانہ جارحیت کے مستقبل کے حوالے سے اسرائیلی فوج اور حکومت میں واضح تقسیم نظرآ رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاھو کی انتہا پسند کابینہ کی خواہش تھی کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کر لیا جائے اور علاقے کے تمام اہم مقامات پر فوج تعینات کر دی جائے لیکن فوج نے کابینہ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ اتنا آسان نہیں جتنا حکومت نے سوچ رکھا ہے۔کابینہ میں ہونے والی بحث کے منظرعام پرآنے پربھی اسرائیلی حکومت سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ راز خود وزیراعظم کے دفتر سے ا ن کی ہدایت کے مطابق ہی افشا ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی کابینہ میں غزہ کی پٹی میں مستقل بنیادوں پر فوج داخل کیے جانے کے معاملے پر بحث چل رہی تھی۔ اس دوران محکمہ دفاع، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے غزہ پر مستقل قبضے کے مضمرات کے حوالے سے رپورٹس پیش کی گئیںکہ غزہ کی پٹی پرایک مرتبہ پھرسے قبضہ نہایت مشکل اور اسرائیل کیلیے تباہ کن ثابت ہوگا، کیونکہ غزہ کے تمام مقامات تک فوج کا کنٹرول قائم کرنے کے لیے پانچ سال کا عرصہ لگے گا۔ اس عرصے میں اسرائیلی فوج کو کم سے کم 20 ہزار فلسطینی گوریلا جنگجوؤں کو ختم کرنا ہوگا۔

نتیجے میں اسرائیل کو اپنے ہزاروں فوجیوں اور سویلینز کی قربانی بھی دینا ہوگی۔ مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدے کھٹائی میں پڑ جائیں گے جبکہ معاشی میدان میں ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔ فی الوقت اس خسارے کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم یہ کھربوں ڈالر ہوسکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اگراسرائیل غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ کرتا ہے توغزہ کی پٹی میں مزید تباہی پھیلے گی اور ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوسکتے ہیں۔

سینکڑوں اسرائیلی فوجی اغواء کیے جاسکتے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ اسرائیل کو عالمی برادری میں مزیدتنہا کردے گا کیونکہ چوبیس روز تک جاری رہنے والی لڑائی میں اسرائیل کے کئی دوست ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر اسرائیلی معیشت کا بائیکاٹ کیا گیا، جس نے اسرائیلی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں دھماکہ خیز مواد تلف کرنے اور بارودی سرنگوں اور زمین دوز بنکروں کے خاتمے میں بھی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

اسرائیلی محکمہ دفاع کی رپورٹ بتاتی ہے کہ غزہ کی پٹی پر مستقل قبضے کے لیے لڑائی کے دوران اور اس کے بعد مقبوضہ مغربی کنارا، 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کے زیرتسلط آنے والے علاقوں اور دیگر فلسطینی شہروں میں اسرائیل کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ یہ رد عمل اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔

اگر فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح بغاوت شروع کردی تو اس کے نتیجے میں فلسطین کے چپے چپے پرآباد کیے گئے یہودی آباد کاروں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس لیے حکومت غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں فوج داخل کرنا اور مستقل قبضہ چاہتی ہے تو اسے یہ تمام حالات سامنے رکھنا ہوں گے۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کی حقائق پر مبنی رپورٹس کے بعد صہیونی کابینہ خوف کا شکار ہوگئی اور اس مخمصے میں مبتلا تھی کہ آیا وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے۔ یوں کابینہ میں دیکھاجانے والامستقل قبضہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا۔

بین الاقوامی کھلاڑیوں نے بھی درد محسوس کیا

عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے لاتعلق نہ رہے۔ گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے کرسٹینا رونالڈو نے فلسطینی بچوں کو پندرہ لاکھ یورو عطیہ دیا۔ یہ گولڈن بوٹ انھیں سن2011ء میں ملا تھا۔ انھوں نے عطیہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن کی وساطت سے غزہ کے سکولوں کو دیاہے۔ یادرہے کہ رئیل میڈرڈ فائونڈیشن دنیا بھر کے 66ممالک کے 167سکولوں کی امداد کررہی ہے۔ رونالڈو نے گزشتہ برس بھی غزہ کیلئے امداد دی، انھوں نے اپنے متعدد سپورٹس شوز نیلام کئے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی غزہ بھجوائی تھی۔ اس طرح رونالڈو تاریخ میں پہلے عالمی فٹ بالر ہیں جو اہل غزہ کی امداد کررہے ہیں۔

یہ وہی رونالڈو ہیں جنھوں نے حالیہ ورلڈکپ کے کوالیفائنگ رائونڈ میں اسرائیل کے ساتھ میچ کے بعد اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ اپنی شرٹ تبدیل کرنے سے انکارکردیاتھا۔ انھوں نے ایسا اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پرکیا۔ یادرہے کہ رونالڈو متعدد بار آزادفلسینی ریاست کے حامیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر کرچکے ہیں۔

برازیل میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی الجزائر کی ٹیم نے بھی بونس میں ملنے والی رقم فلسطینیوں کو دیدی ۔ الجزائر کے کھلاڑی اسلام سلیمانی کاکہناتھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ کے محصور فلسطینی ہم سے زیادہ اس رقم کے حق دار ہیں۔ یادرہے کہ الجزائر واحد عرب ملک ہے جس کی ٹیم نے برازیل میں ہونے والے فٹ بال عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

مغربی گلوکار بھی اسرائیل مخالف ہوگئے

مغربی دنیا کے عام لوگ ہی اسرائیل کی حمایت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ خاص لوگ بھی تیزی سے اسرائیل مخالف طبقہ میں شامل ہورہے ہیں۔ ذرا! امریکی گلوکار واکا فلاکا فلیم کی ٹویٹ پڑھئے:’’ کس طرح میرے ملک کے بے غیرت حکمرانوں نے فلسطین پر مظالم توڑنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اے خدا! اس ملک( فلسطین) کو طاقت عطافرما‘‘۔ اسی طرح معروف برطانوی موسیقار، گلوکار، نغمہ نگار اور میوزک کمپوزر راجرواٹرز نے کینیڈین گلوکار نیل ینگ کے نام ایک کھلے خط میں کہا کہ وہ تل ابیب میں اپنا شو منسوخ کردیں۔

ان کے بقول:’’ہمیں ان لوگوں بلکہ ان تمام بہادر لوگوں کا ساتھ دینا چاہئے جو فلسطین اور اسرائیل میں رہتے ہیں، جو اسرائیلی حکومتوںکی وحشیانہ پالیسیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ براہ کرم! مظلوم اور محروم لوگوں سے اظہاریکجہتی کیلئے میرا اور دنیا کے دیگربے شمار فنکاروں کا ساتھ دیجئے۔‘‘امریکی گلوکارہ ریحانہ کی اس ٹویٹ نے بھی خوب شہرہ حاصل کیا جس میں انھوں نے ’’فری فلسطین‘‘ لکھاتھا۔

ساتھ ہی انھوں نے ایک فلسطینی اور ایک اسرائیلی بچے کی تصویر لگائی جو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑے تھے۔ ریحانہ نے لکھا:’’آئیے! امن اور تنازعہ فلسطین کے فوری خاتمے کیلئے دعا کریں۔‘‘ نہتے فلسطینیوں پر صہیونیوںکی سفاکی و بربریت کے خلاف امریکی پاپ گلوکارہ سلینا گومز بھی خاموش نہ رہ سکیں، انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر بیان لکھا:’’ انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس وقت غزہ کیلئے دعا کی جائے جبکہ ان خاندانوں اور بچوں کیلئے بھی دعا کی جائے جواس جنگ کے نتیجے میں متاثر ہوئے ہیں‘‘۔

ہم ہار گئے: اسرائیلی میڈیا

اسرائیلی صحافی بن یامین دایان کے مطابق حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو ملیشیاؤں نے امن کے دنوں میں آرام نہیںکیا بلکہ اسرائیلی فوج کا ہر شعبے میں مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل کرتے رہے جن میں اینٹی ٹینکس راکٹوں کا استعمال، چھپ کر حملہ کرنے کی صلاحیت، سرنگوں کی مدد سے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائیاں اور سنائپر رائفلوں سے نشانہ بازی کی مشق کی۔

اسرائیلی جریدے ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کو اپنے 60 فوجیوں کی ہلاکت کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ آخر اسرائیلی انٹیلی جنس حماس جنگجوؤں کے الاقصیٰ اور عزالقسام بریگیڈ کی عسکری مہارت اور جنگی حکمت عملی کا درست اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہی؟ جریدے کے عسکری نامہ نگار ایوی شاؤل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس جنگی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہیں اور ان کا مرکزی ہدف عوامی مارکیٹیں، گھر، مساجد اور تعلیمی ادارے تھے جہاں حماس کے جنگجوؤں کے بجائے عام فلسطینی نشانہ بنے۔

اسرائیلی انٹیلی جنس کے حوالے سے فوجی کمانڈرز نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جنگجوئوں اور ان کے کمانڈرز نے دوران جنگ موبائل فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور کمیونیکیشن کیلئے جنگی کوڈ ورڈز میں بات چیت کی جس کی وجہ سے انٹیلی جنس اور سپیشل آپریشن فورس کے اہلکار حماس کے خلاف موثر کارروائیوں میں ناکام رہے۔ اسرائیلی جریدے ’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق حماس کے اعلیٰ کمانڈرز اور رہنماؤں کو قتل کرنے کیلئے بنائی جانے والی ٹاسک فورس ایک بھی حماس رکن یا کمانڈر کو گرفتار یا ہلاک کرنے میں ناکام رہی۔

صہیونی دفاعی تجزیہ نگار پروفیسراوری یار یوسف نے حماس کے مقابلے میں اپنے ملک کی جنگی صلاحیت پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ڈر تھا، غزہ میںآپریشن میں حماس کے ہاتھوں صہیونی فوج کو بدترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ فوج زمینی کارروائی کی متحمل نہیں تھی۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں شائع ہونے والے اس تجزیہ میں بتایاگیاکہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فوج کا رعب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری فوج نہ صرف حماس کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ ہمیں تو یہ خوف تھا کہ حماس کے خلاف جنگ میں ہماری فوج تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔

دفاعی تجزیہ نگار نے جہاں اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمزوری کا اعتراف کیا وہیں فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس کی عسکری صلاحیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا:’’ہمیں ایک ماہ کی طویل جنگ کے بعد یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہماری فوج حماس کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دفاعی اور فوجی صلاحیت کے بارے میں جو خیالات اس سے پہلے ظاہر کیے جاتے رہے ہیں وہ سب غلط تھے۔

حماس کے مقابلے میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے حماس کے ٹھکانوں پر غیرمعمولی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملے کیے تاکہ حماس کے جنگجوؤں کی عسکری صلاحیت کو تباہ کیا جاسکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ماہ کی طویل جنگ کے دوران حماس کے نیٹ ورک کو کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ حماس نے اپنے معمولی ہتھیاروں کی مدد سے ہمارے تمام شہروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے فوجی اور عام شہریوں کو راکٹ حملوں کے ذریعے کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مقامی سطح پر ایسے راکٹ تیار کرلیے ہیں جو اسرائیل کے تمام شہروں تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔

اسرائیل جنگ ہارگیا: امریکی میڈیا

غزہ پر وحشیانہ جارحیت سے پہلے امریکا میں سابق اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے کہاکہ اب جنگ کو ایک موقع دیدیناچاہئے۔دراصل اس وقت تک اسرائیل میں یہ خیال مضبوط ہوچکاتھا کہ حماس کو حقیقتاً غزہ سے مکمل طورپر اکھاڑ پھینکناچاہئے۔ اسرائیلی سفیر اب تک حماس کا خاتمہ نہ ہونے کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے مذکورہ بالا حل پیش کررہے تھے۔ تاہم انھیں اور بہت سے دیگر اسرائیلی پالیسی سازوں کو اندازہ نہیں تھا کہ غزہ پر جارحیت کرکے حماس کا ایک فیصد بھی نقصان نہیں ہوسکے گا۔

حال ہی میں امریکا کے نہایت موقراخبار’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے تجزیہ شائع کیاہے جس کا عنوان ہے:’’چاراسباب جن کی وجہ سے حماس کو غزہ کی جنگ میں شکست نہیں دی جاسکی‘‘۔ اخبارلکھتاہے کہ حماس کی شکست بہت دور کی بات ہے۔اس کے اسباب یہ ہیں:’’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیل میڈیا وار میں حماس سے شکست کھاگیاہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس ٹویٹر پر حماس کے حربوں کو مختلف کارٹونوں اور تصاویر کے ذریعے دنیا کو دکھاتی رہی جبکہ جن تصویروں نے پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کو آنسوبہانے پر مجبور کیا، وہ عام فلسطینی عوام کی اسرائیلی میزائل حملوں اور بمباری میں ہلاکت کی تھیں۔

پورے کے پورے خاندان ان حملوں میں ہلاک ہوگئے، ان کے گھر مکمل طور پر ملبے کے ڈھیر بن گئے اور جن سکولوں میں بچوں نے پناہ لی تھی، ان پر بھی بمباری کی گئی۔ اب رائے عامہ کے جائزے ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مغرب کے اندر حتیٰ کہ امریکا کے اندر بھی حمایت سے محروم ہوچکاہے۔ بین الاقوامی قائدین نے اس کے تشدد کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی جنگی جرائم کی بات کی ہے۔

آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حماس کے راکٹ حملوں اور اس کی سرنگوں کی باتیں پر وہ سوالات غالب آجائیں گے جو اسرائیل کے اقدامات کے قانونی طور پرجائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں اٹھ رہے ہیں۔ نقاد کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے جس قوت کا استعمال کیا، وہ غیرمتناسب تھی اور اسرائیل کو ’اجتماعی سزا‘ کے حوالے سے جواب دیناپڑے گا۔ یہ متعدد بین الاقوامی قوانین کی رو سے ناجائز ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی عامرہ ہاس نے لکھاہے کہ’’اسرائیل کی اخلاقی شکست برسوں تک اس کا پیچھاکرتی رہے گی‘‘۔

حماس کی قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ اسرائیل کو کون سی قیمت اداکرناپڑے گی۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کہتے ہیں:’’دنیا نے تباہی کی جو تصویر دیکھی ہے، وہ اسرائیلی فوج کی شکست اور بہادرمزاحمت کاروں سے لڑائی میں ناکامی کا ثبوت ہے‘‘۔اخبار لکھتاہے کہ حماس ایک ایسی تحریک ہے جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ ہربار اسرائیل نے حماس کی گھاس کاٹنے کی کوشش کی لیکن آپریشن ختم ہونے کے بعد یہ گھاس پھرسے اگ آتی تھی۔

حالیہ آپریشن کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کی آپریشنل صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا گیا، کمانڈ سنٹرز کو تباہ کیاگیا، حماس نے اسرائیل میں حملے کرنے کیلئے جو سرنگیں بنائی گئی تھیں، انھیں تباہ کردیاگیا اور حماس کے سینکڑوں جنگجوئوں کو ہلاک کردیاگیا۔ یہ بھی کہاگیا کہ حماس کا راکٹوں کا ذخیرہ بھی ختم کردیاگیاہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ حماس کو غیرمسلح کرنا ابھی بہت دور کی بات ہے، فی الحال اسرائیل کے عقابوں کو مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرناہوگا۔

ہفنگٹن پوسٹ بھی مانتاہے کہ اسرائیل غزہ میں لڑائی ہارگیاہے۔ یہ شکست اسی وقت ہوگئی تھی جب اسرائیل کے پہلے میزائل یا گولے نے ایک گھرکوتباہ کیا اور بہت سی خواتین ، بچوں اور معصوموں کو ہلاک کیا۔ ’اجتماعی سزا‘ کے جرم پر جب مستقبل میں عوام کی عدالت میں مقدمہ چلے گا تو اسرائیل کو کم ہمدرد جیوری کا سامنا کرناپڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔