موجودہ صورتحال تحمل اور رواداری کی سیاست کی متقاضی

ارشاد انصاری  بدھ 20 اگست 2014
تحریک انصاف اور عوامی تحریک بھی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔  فوٹو : فائل

تحریک انصاف اور عوامی تحریک بھی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے آزادی مارچ و انقلاب مارچ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کو ہیں اس سلسلے میں اگلے دو رو انتہائی اہم ہیں کیونکہ جو ہونے جا رہا ہے ان دو دنوں میں ہی سامنے آجائے گا۔

پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین کے عوامی اسمبلی لگانے کے اعلان اور عمران خان کے ریڈزون میں داخلے کی دھمکی پر سکیورٹی مزیدسخت کردی گئی ہے ۔ وفاقی پولیس و صوبائی پولیس کے علاوہ آرٹیکل دوسو پینتالیس کے تحت موجود فوجی دستے بھی ڈپلومیٹک انکلیو اور ریڈزون کی سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مجموعی طور پر بیس ہزار سکیورٹی سٹاف جوکہ تمام تر تیاری کے ساتھ ہائی الرٹ رکھا گیا ہے جبکہ اہم ترین اور حساس عمارتوں پر بھی پیشہ ورانہ مہارت کے حامل سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں ۔

دوسری جانب اسلام آباد کا سیاسی درجہ حرارت بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹیاں معاملے کا سیاسی حل نکالنے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مختلف آپشنز کومدنظر رکھتے ہوئے تیاری کئے ہوئے ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ معاملے کو سیاسی طور پر بات چیت کے ذریعے حل کرلیا جائے اور ٹکراؤ سے گریز کیا جائے۔ البتہ انتظامی آپشن کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔

تحریک انصاف اور عوامی تحریک بھی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں سے ا ستعفوں کے اعلان کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے وزیراعلی پرویز خٹک کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو چکی ہے جس سے تحریک انصاف کیلئے ایک اور محاذ کھڑا ہوگیا ہے جس سے اسے نبردآزما ہونا ہے۔

علامہ طاہر القادری تو اپنے تاریخی خطاب میں عوامی اسمبلی لگانے جارہے ہیں اور بقول طاہر القادری انقلاب کا سورج طلوع ہو چکا ہے اب دیکھنا ہے کہ انقلاب کے طلوع ہوتے سورج کی کرنیں دیکھنے والے ڈھلتے سورج کے ساتھ کیا ریڈزون کا دریا عبور کرکے عوامی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرسکیں گے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ اگرچہ دونوں کا انداز بیان اور طریقہ کار مختلف ہے مگر مقصد و منزل ایک ہی ہے۔ دونوں موجودہ جمہوری حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کیلئے اسلام آباد میں دھرنے کی شکل اختیار کرنے والے لاہور سے چلنے والے مارچ اب انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہونے کو ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ کہ دونوں جماعتوں کے قائدین ریڈزون میں داخل ہونے پر اپنے کارکنوں سے پُرامن رہنے کے وعدے لے رہے ہیں مگر کیا یہ ممکن ہے کہ اتنے بڑے ہجوم میں اگر کوئی ایک بھی شرپسند شرارت کرتا ہے تو یہ قائدین صورتحال کو کنٹرول کر پائیں گے، مگر کچھ بھی ہو اب ان دھرنوں کا ختم ہونا ہی بہتر ہے کیونکہ مارچ کے شرکاء انتہائی اذیت سے دوچار ہیں خصوصاً خواتین، بزرگ شہری اور بچے زیادہ مُشکلات سے دوچار ہیں، البتہ عوامی تحریک کے لوگ زیادہ پُرعزم اور ڈٹ جانے کے عزائم رکھتے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے لوگ جمع ہیں وہاں لوگ تو عوامی تحریک کے مقابلہ میں کم ہیں اور نظم و ضبط و انتظامات کے لحاظ سے بھی عوامی تحریک سے دور دکھائی دیتے ہیں مگر جوش و جذبہ ان کا بھی جوان نظر آتا ہے مگر تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و جذبہ شام چھ بجے سے رات بارہ سے ایک بجے تک زیادہ دکھائی دیتا ہے اورتحریک انصاف کے قائدین بھی اگرچہ شام کو ہی جلوہ افروز ہوتے ہیں مگر ایک مرتبہ جلوہ افروز ہونے کے بعد فن خطابت سے خوب عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فرط جذبات میں اپنے کارکنوں کو حکومت گھر بھجوانے کی سُنائی جانے والی خوشخبری کب رنگ لائے گی ۔

اسلام آباد کی دو اہم شاہراہیں کشمیر ہائی وے اور خیابان سُہر وردی میلے کا سماں پیش کر رہی ہیں جہاں شام ہوتے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی سے لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ انجوائے کرنے چلے آتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم جسے وہ انٹرٹینمنٹ سمجھتے ہیں نہ صرف ان کیلئے بلکہ ملک کیلئے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں سے ایک انقلاب لانا چاہتا ہے اور دوسرا نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے اور تیسرا فریق حکومت ہے کہ جس نے آزادی مارچ اور انقلابیوں کے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا ہے۔

بجائے اس کے کہ حکومت اس مسئلے کو فوری حل کرتی حکومت نے دونوں کو فری ہینڈ دیدیا اور وہ شائد اس لئے کہ مارچ کے شرکاء کی تعداد حکومتی توقعات سے بھی بہت کم نکلی اور حکومت انقلابیوں اور تحریک انصاف کا سیاسی دیوالیہ نکالنے کا خواب دیکھ بیٹھی اور دونوں کا سیاسی باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرکے اصغر خان بنانے کے درپے ہوگئی، جس نے دونوں کو اتنا زچ کیا کہ حکومت کی طرف سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو نظر انداز کرنا جیسے جیسے بڑھتا گیا ویسے ہی دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے جوش خطابت میں شدت کا عنصر بڑھتا گیا اور یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور پھر ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔

لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک سول نافرمانی کا اعلان کرنے کے بعد عمران خان دھرنا ختم کرنے کا اعلان بھی کردیں گے مگر عمران خان نے ریڈزون میں داخل ہونے کا عندیہ دے دیا اورچیرمین تحریک انصاف عمران خان نے کشتیاں جلا کر قومی اسمبلی سمیت تینوں اسمبلیوں سے استعفٰے دینے کا اعلان کردیا۔ رہی کے پی کے کی حکومت تو وہ سیاسی جماعتوں نے خود عمران خان سے چھیننے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔

دیکھتے ہیں اگلے چند دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ نئی حکومت نیا پاکستان بناتی ہے یا نئے پاکستان کے دعویدار سیاست سے آؤٹ ہوتے ہیں، یہ خیر وقت بتائے گا مگر بارہ گھنٹے سوچنے کے بعد عمران خان کی طرف سے تحریک سول نافرمانی چلانے کے اعلان کردہ الفاظ کی شائع ہونے والی شہہ سُرخیوں کی سیاہی بھی ابھی مانند نہیں پڑی تھی کہ مختلف کارنر سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں اور تو اور خیبرپختونخوا میں قائم ان کی اپنی حکومت کے وزیروں نے وضاحتیں شروع کردی ہیں اورکہا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کے تحت صرف وفاقی ٹیکسوں کی ادائیگی اور بلوں و دیگر واجبات کی ادائیگیوں سے روکا گیا ہے۔

صوبائی ٹیکس اور صوبائی حکومتی واجبات کی ادائیگی بروقت جاری رکھیں۔ دوسری جانب تاجر و صنعتکار برادری کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ایف پی سی سی آئی سمیت ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی تحریک انصاف کی تحریک سول نافرمانی کو مسترد کردیا ہے اور عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی چھٹیوں سے لے کر اب تک اس ہنگامے میں تقریباً 12 ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ باہمی گفت و شنید کے ساتھ حل کر لیا جائے، اسی کے پیش نظر اگر عمران خان اکیلے ریڈ زون جانے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں کہا جائے گاکہ اگروہ جاری اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرناچاہتے ہیں توانہیں محفوظ راستہ مارگلہ روڈ سے جہاں باقی ارکان کوفراہم کیا گیا ہے کی جانب گائیڈ کیا جائے گا مگراس موقع پرانہیں ان کے ڈرائیورکے علاوہ کسی ایک کارکن کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔

مذاکراتی کمیٹیوں کے ذریعے مصالحت کی کوئی ایسی پالیسی اپنانے کی کوشش کی جائے گی جس سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو بھی محفوظ راستہ مل جائے اور حکومت بھی کسی امتحان سے بچ جائے۔ توقع ہے کہ ایک دو روز میں معاملہ حل ہو جائے گا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں نہ صرف پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر بھی یہ اتفاق کر چکی ہیں کہ جمہوریت،آئین اور پارلیمنٹ کی مکمل حفاظت کی جائے گی۔

حکومتی سائیڈ سے میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے سوموار کو آرمی چیف سے ملاقات کی، اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف نے بھی منگل کو آرمی چیف راحیل شریف اور دیگر عسکری قیادت سے ملاقات کی جس میں قومی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ان تمام تر کوششوں کے باوجود اگر خدانخواستہ عمران خان سمیت دیگر تمام سیاستدانوں نے سیاسی بصیرت سے کام نہ لیا اور صبر وتحمل سے پارٹی و سیاسی مفادات پر ملک و قوم کے مفادکو ترجیح نہ دی گئی تو پھر تباہی ہی تباہی ہے اور پھر نہ نئے پاکستان بنانے والے اس تباہی سے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے اور نہ انقلابی اس سے بچ سکیں گے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاستدانوں کو زیادہ نقصان ہوگا، جبکہ طاہر القادری کی نہ سیاست سٹیک پر ہے اور نہ ہی حکومت سٹیک پر ہے وہ بریف کیس تھامے کینیڈا بھی روانہ ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔