(پاکستان ایک نظر میں) - ریڈ زون بمقابلہ تحریر اسکوائر!

ام کلثوم  بدھ 20 اگست 2014
جو لوگ آزادی و انقلابی مارچ کو تحریر اسکوائر سے جوڑ رہے ہیں اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ وہاں ذاتی مفاد کے لیے بلکہ جمہوریت کے قیام کے لیے احتجاج کیا گیا تھا؟۔ فوٹو: ایکسپریس

جو لوگ آزادی و انقلابی مارچ کو تحریر اسکوائر سے جوڑ رہے ہیں اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ وہاں ذاتی مفاد کے لیے بلکہ جمہوریت کے قیام کے لیے احتجاج کیا گیا تھا؟۔ فوٹو: ایکسپریس

انقلاب، انقلاب، انقلاب۔۔۔۔۔۔ آزادی ، آزادی ، آزادی ۔۔۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے اسلام آباد گذشتہ کچھ دنوں سے گونج رہا ہے۔ انقلاب اور آزادی  مارچ ساتھ ساتھ شہرِ اقتدار میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ ہر لمحے بدلتی صورتحال سے تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر آنے والا بیا ن کشیدگی کو بظاہر بڑھا نے کا داعیہ ہے۔ مگر پسِ پردہ ہونے والی حرکات و سکنات کے بارے میں عوام اپنے قیاس سے ہی کام لے رہے ہیں۔

اگرچہ ا نقلاب اور آزادی دونوں کی مفا ہمت کا دور دور تک کوئی شا ئبہ نہیں لیکن دونوں کا مقصد موجودہ نظامِ حکومت کو ہٹانا ہے اور نیا پا کستان بنا نا ہے۔ بات یہاں کسی جماعت کے صیحح یا غلط ہونے کی نہیں اور نا ہی یہ ہے کہ کون اگلے اقتدار کے لئے موزوں ترین ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ تو شا ئد کچھ اور ہے۔ دونوں دھرنوں کے شرکاء میں اگر کچھ مشترک ہے تو وہ یہ کہ انھوں نے اپنی سوچ کو اپنے قائدین کے تا بع کر دیا ہے۔ جو بیان ان کے قائدین داغ دیتے ہیں اُس کے مطا لب و مقا صد سے قطع نظروہ حرفِ آخر سمجھ لیا جا تا ہے۔

دونوں دھرنوں کی طرز کو دیکھ کر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تحریر سکوائر کو اپنا لائحہ عمل بتانے والے اُس کی اصل روح کو پہچا ننے سے قا صر ہیں۔ شا ید ایک عام پا کستانی تحریر سکوائر کے با رے میں جا نتا بھی نہ ہو۔ با لکل ایسے ہی جیسے دھرنے میں شامل بیشتر افراد سول نا فرمانی کی تحریک کے با رے میں بات کرنے سے قا صر ہیں۔ وہ یہ تک نہیں جا نتے کہ سول نا فرمانی کی تحریک کا مطلب کیا ہے اور ما ضی میں اس تحریک کا مقصد کیا رہا ہے۔ مصر کے 846 نوجوانوں نے تحریر سکوائر کے مقام پر اپنی جان دے دی تھی لیکن حسنی مبا رک کی طا قت کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔ایک بات قا بلِ ذکر ہے کہ اُن کا یہ فعل اقتدار کے لئے ہر گز نہیں تھا۔ وہ صرف ملک میں جمہوریت لانا چا ہتے تھے۔ مگر ہمیں تو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا پا کستان میں کوئی آئین موجود نہیں ؟ کیا پا کستان میں بھی کوئی حسنی مبا رک اپنی تمام تر رعونت کے ساتھ غا صبا نہ قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر واقعی انقلاب کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی جان لینا چا ہیے کہ انقلاب لانے کے لئے جمہوریت کو گندگی سے پا ک کرنے سے پہلے اپنے اندر کی گندگی کو پا ک کرنا ضروری ہو گا۔

پانچ روز سے جاری انقلاب اور آزادی دھرنے میں صفائی کاکوئی خیا ل نہیں رکھا گیا۔ قادری صاحب کے گذشتہ دھرنے کے خا تمے کے بعد شہرِ اقتدار سے گندگی صاف کرنے میں کئی دن صرف ہوئے تھے ۔ اس بار چونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہیں اس لئے صفا ئی کی نا قص صورتحال کو آسا نی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پرا نے پا کستان کو گندا کرکے کے نیا پا کستان بنا نے والوں کو اور تحریر سکوائر کی مثالیں دینے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مصر کے نوجوان جتنا عرصہ احتجاج پر رہے وہ ہر روز تحریر سکوائر کی سڑکوں پر جھا ڑو دیا کرتے تھے اور ہر شام کو سڑکوں کو دھویا کرتے تھے۔  سب سے بڑھ کر کہ جو لوگ آزادی اور انقلاب کو تحریر اسکوائر سے تشبیح دے رہے ہیں کیا اُن کو یاد نہیں کہ تحریر اسکوائر کا بالاخر اختتام مصر میں ایک اور منتخب مارشل لا کی صورت میں نکل آیا جس کے بعد لوگوں کے بنیادی حقوق سلب ہوگئے ہیں ۔۔۔۔ اگر ہم بھی جمہوریت کا بوری بستر بند کرکے اپنے حقوق سلب کروانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ڈتے رہنا چاہیے اپنے مطالبات پر لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر اپنے مطالبوں میں کچھ لچک پیدا کرنے اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اور جو لوگ آج نئے پا کستان کا دعویٰ لے کر سڑکوں پر نکلے ہیں اُن میں سے کتنے لوگ آئین کے آرٹیکل 63 یا62 پر پورے اُترتے ہیں؟ جو لوگ بجلی کی تا روں میں کنڈے ڈال کر اپنے سیل فون چا رج کر رہے ہیں اور پکڑے جا نے پر یہ کہہ کر اپنی جا ن چھڑا رہے ہیں کہ پبلک پڑاپڑٹی کو استعمال کرنا نا جا ئز نہیں ہے تو ایسے لوگ صادق اور امین ہونے اک دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ایک لمحے کے لئے فرض کر لیا جا ئے کہ ان تمام کرپٹ حکمرانوں کر کیفرکردار تک پہنچا دیا گیا ہے ۔ تو کیا ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی قوانین یا پا کستانی آئین کے مطا بق حکومت کرنے کے اہل ہیں؟ اگر ہم تما م جماعتوں کو ملک سے با ہر پھینک کر نیا پا کستان بنا نا چاہتے ہیں تو پھر نئے پاکستان میں بسنے والے عوام بھی لانے پڑیں گے کیونکہ ہم اس اسلامی جمہوریہ پا کستان میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ انقلاب کسی نعرے کا نا م نہیں بلکہ یہ آپ کی سوچ کو بدلنے کا نا م ہے۔ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تب تک انقلاب بس نعروں میں ہی رہے گا!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔