(پاکستان ایک نظر میں) - تھرڈ ایمپائر

شاہد کاظمی  ہفتہ 23 اگست 2014
تھرڈ ایمپائر تو چاہتا ہے کہ فریقین معاملہ کو افہام و تفہیم سے حل کرلے کیونکہ اگر اُس نے مداخلت کی تو پھر  نیا میچ ہی شروع کرنا پڑے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

تھرڈ ایمپائر تو چاہتا ہے کہ فریقین معاملہ کو افہام و تفہیم سے حل کرلے کیونکہ اگر اُس نے مداخلت کی تو پھر نیا میچ ہی شروع کرنا پڑے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

کرکٹ کا بانی گوروں کو کہا جاتا ہے۔ گوروں سے مطلب ’’برطانوی گورے‘‘ ۔ اس کھیل کو آج کی جدید شکل میں لانے کا سہرا بھی برطانیہ کے سر ہے۔ اس کھیل میں آج کل ’’11کھلاڑی‘‘ ایک طرف ہوتے ہیں ۔ دو ٹیمیں۔دو فیلڈ ایمپائر۔ تھرڈ ایمپائر۔ اور ریزور ایمپائر۔ اس کے علاوہ دیگر آفیشلز۔

پاکستان میں آج کل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں یہی ’’ کھیل‘‘ کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر اس سارے ’’کھیل‘‘ میں ’’ تھرڈ ایمپائر‘‘ کو خاص حیثیت حاصل ہے۔ دونوں ٹیمیں اپنے کھلاڑیوں کی قابلیت پر بھروسہ کرنے کے بجائے تھرڈ ایمپائر ساتھ ملانے کے چکر میں نظر آ تی  ہیں۔  فاسٹ باؤلرباونسر تو مار رہا ہے لیکن اسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ فیلڈ ایمپائرز اسے ’نو بال ‘قرار دیں یا نہ دیں مگر  اسے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ کہیں  تھرڈ ایمپائر اسے نو بال قرار نہ دے  دے۔ حریف کھلاڑی جوکافی عرصے سے آؤٹ آف فارم تھا اب اپنی فارم بحال کرنے کے چکر میں ہے۔ یہ کھلاڑی کافی عرصہ پابندی کا شکار رہا۔ اور اسی پابندی نے شاید اسے کچھ چڑ چڑا بھی بنا دیا ہے۔ اور اب جب کہ اس کی ٹیم میں واپسی وہ بھی بطور’’کپتان‘‘  ہوئی ہے تو وہ 92ء کے کپتان کے ہاتھوں اپنی وکٹ گنوانے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہے۔ 92ء کا کپتان ، اپنی اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ جس میچ میں اسے شکست ہوئی وہ سراسر’’میچ فکسنگ‘‘ تھی۔ اس میچ فکسنگ کی روک تھام اور اس کے تدارک کے لیے ادارے موجود ہیں۔ لیکن ہم کیوں کہ ابھی کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں لہذا ان اداروں پر بھی اعتماد ختم ہو تا جا رہا ہے۔ اور میچ فکسنگ کی روک تھام کے لیے  ہمیں بھی تھرڈ ایمپائرکی طرف دیکھنا چاہیے  یعنی تھرڈ ایمپائر تو صرف اس وقت حرکت میں آتا تھا جب فیلڈ ایمپائر اسے کسی فیصلے میں معاونت کے لیے کہیں، اس پر ایک اضافی بوجھ ، میچ فکسنگ کا مداوا۔

اب میچ فکسنگ کے لیے متعین فیلڈ ایمپائرز فیصلے میں14 ماہ کا عرصہ لگاتے ہیں تو ایک ٹیم ان پر عدم اعتماد کااظہار کھلے عام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ہارنے والی ٹیم کے کپتان کے خیال میں کیوں کہ تمام فیلڈ اسٹاف بشمول فیلڈ ایمپائرز جیتنے والی ٹیم کے ساتھ مل گئے ہیں لہذا اسے صرف اب یقین شاید  تھرڈ ایمپائر پر رہ گیا ہے۔ اب  تھرڈ ایمپائر پر ایک اور دباؤ کہ ہارنے والی ٹیم کے حق میں فیصلہ آ گیا تو کہا جائے گا  گیم آف جینٹلمین  میں بلاوجہ مداخلت کی گئی ۔ اور اگر فیصلہ جیتنے والی ٹیم کے حق میں چلا گیا تو ہارنے والا کہے گا کہ یہ بھی جیتنے والی ٹیم کے ساتھ مل گئے ہیں۔ لہذا اسی وجہ سے تھرڈ ایمپائر نے کسی حد تک خود کو غیر جانبدار رکھا ہوا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ آخر کب تک ؟ اب جیتنے والی ٹیم کا کپتان کسی بھی طرح اپنی جیت چھوڑنے کو تیار نہیں۔

اس وقت دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہیں۔ اوربظاہر  ہارنے والا کپتان اکیلا کھڑا ہے۔ لیکن اس اکیلے پن میں بھی وہ مایوس نظر نہیں آتا اور جن لوگوں نے اسے میچ میں سپورٹ کیا تھا وہ بھی کسی نہ کسی حد تک اس کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف جیتنے والی ٹیم کے ساتھ کافی لوگ جمع ہیں جو اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ لیکن جیتنے والی ٹیم کا کپتان اس بات سے یا تو بے خبر ہے یا سمجھتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہ رہا کہ اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے حواری شاید اس وقت اس کے ساتھ نہ کھڑے ہوں جب واقعی وہ  میچ فکسنگ کے جرم میں مجرم ٹھہرا دیا جائے۔

اس تمام صورت حال میںتھرڈ ایمپائر ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ دونوں فریق دلائل کی نشتر چلا رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح تھرڈ ایمپائر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک فریق تو تھرڈ ایمپائر  کے پاس جا بھی چکا ہے۔ تھرڈ ایمپائر نے اس کو یہی تلقین کی ہے کہ ہارنے والے کپتان کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے معاملات طے کرو کیوں کہ شاید تھرڈ ایمپائر کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس نے معاملات کو سدھارنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا تو پھر  ایک نیا میچ ہی شروع کرنا پڑے گا۔ لہذا دونوں فریق کے مطالبوں کے باوجود اس وقت تک تھرڈ ایمپائر کوئی واضح رد عمل دینے سے گریزاں ہے جو کہ درست بھی ہے۔ یعنی اس وقت تک تھرڈ ایمپائر کی سکرین پر DECISION PENDING کے الفاظ جگمگا رہے ہیں۔ شاید تھرڈ ایمپائر چاہتا ہے کہ فریق خود فیصلہ کریں۔ لیکن اگر تھرڈ ایمپائر کا فیصلہ کرنا مجبوری بن گیا تو کھیل کا حسن برقرار رکھنے کے لیے اس کا جو فیصلہ ہو گا وہ شاید سب جانتے ہیں۔ 

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔