ہر کوئی سانحے کے انتظار میں ہے

اوریا مقبول جان  اتوار 24 اگست 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

برصغیر پاک و ہند میں انگریز نے جب اقتدار کو طول دینے کے لیے ایک نام نہاد جمہوری نظام تخلیق کیا تو اس نے مراعات‘ سرکاری عہدوں اور علاقائی اختیارات دے کر اپنے ایسے وفادار گھرانے‘ گروہ اور قبیلے پیدا کیے اور پھر ان کے ہاتھ میں تاج برطانیہ کے وفادار جمہوری نظام کی باگ ڈور دے دی گئی۔ یہ گھرانے صرف سیاسی اقتدار میں شریک نہ تھے بلکہ اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں اور مقتدر فوجی جرنیلوں تک انھی گھرانوں کے لوگوں کو نوازا گیا۔ افواج میں کمیشن سے لے کر آنریری مجسٹریٹ تک ہر جگہ انگریز سرکار سے وفادار خاندانی حسب نسب اور خون کو اہمیت دی جاتی تھی۔

انھی مراعات یافتہ طبقات کو انگریز حکمرانی کے گر سکھانے اور انگریزی طرز زندگی کے رنگ میں رنگنے کے لیے چیف کالج جیسے ادارے قائم ہوئے‘ جہاں نسل در نسل ان خاندانوں کی اولادیں تربیت حاصل کرتیں۔ کچھ سیاست کے میدان کے شہسوار بن جاتے تو کوئی اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج چلے جاتے اور واپسی پر سول سروس کے امتحان کا دروازہ انھیں بیورو کریسی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا دیتا۔ عام آدمی کی واجبی تعلیم اسے اس دروازے پر دستک تک دینے سے بھی روکتی رہتی۔

فوجی بھرتی بھی انھی علاقوں سے کی جاتی جہاں ان وفادار گھرانوں کا اثر و رسوخ مستحکم ہوتا اور ان کے افراد اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز ہو چکے ہوتے۔ نسلی اور پیشہ ورانہ امتیاز کا یہ عالم تھا کہ اسکول میں داخلے تک کے فارم میں کاشت کار اور غیر کاشتکار کے خانے رکھے گئے تھے جو پاکستان میں 70ء کی دہائی تک قائم رہے تا کہ اس بات کا ادراک رہے کہ زمین کا مالک کون ہے اور جولاہے‘ موچی‘ ترکھان جیسے کمی کمین کون۔ ان سب مقتدر گھرانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

آج بھی ملکی سیاست پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو پنجاب کے الپیال‘ پراچے‘ ٹوانے‘ چٹھے‘ چیمے‘ جنجوعے‘ دریشک‘ دولتانے‘ روکڑی‘ ڈاہا‘ کھوسے‘ قریشی‘ گیلانی‘ گردیزی‘ لغاری‘ مزاری‘ موکل‘ کھرل‘ قصوری‘ نون‘ وٹو‘ وریو‘ سندھ کے ارباب‘ انٹر‘ بجارانی‘ بھٹو‘ تالپور‘ جام‘ جاموٹ‘ جتوئی‘ جونیجو‘ چانڈیو‘ زرداری‘ سومرو‘ قاضی‘ کھوڑو‘ گبول‘ وسان‘ مہر‘ مخدوم‘ سید‘ خیبر پختونخوا کے ترین‘ تنولی‘ جدون‘ خٹک‘ گنڈا پور‘ بلور‘ ارباب‘ ہوتی‘ یوسف زئی‘ اور بلوچستان کے بزنجو‘ بگٹی‘ مری‘ مینگل‘ اچکزئی‘ جمالی‘ جام‘ جوگیزئی‘ رئیسانی‘ زہری‘ مگسی‘ کھوسے اور کھیتران نظر آئیں گے۔

یہ چند ایک گھرانے ہیں اور اگر ان کی پوری تعداد بھی لکھی جائے تو اس کالم کے ایک چوتھائی حصے میں پوری آجائے گی۔ یہ وہ قابضین ہیں جو اس ملک میں ایک ایسا آئین تخلیق کرتے ہیں جس میں ہر طرح سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر اس کو چھیڑا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ لیکن جب انھوں نے ملک توڑنا تھا تو انھیں کسی آئین کو توڑنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ یہ قابضین فوج‘ بیورو کریسی اور سیاسی اشرافیہ کی صورت میں متحد ہو گئے بنگالیوں کی ایک ایسی عوامی یلغار کے سامنے جو پہلے فاطمہ جناح کو ووٹ دے کر ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور پھر 1970ء میں اس نے ان سب کو مسترد کر کے رکھ دیا۔

ان سب نے مل کر ان بنگالیوں سے نجات حاصل کر لی جو ان کی سیاسی جاگیر کے لیے خطرہ تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ایک دستوری دستاویز تیار کی اور پوری قوم کو اس خوف میں مبتلا کر دیا کہ اگر تم نے اسے ہاتھ بھی لگایا تو یہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ یہ دستاویز چار اکائیوں نے مل کر تحریر کی ہے۔ وہ چار اکائیاں جن پر یہ قابض رہنا چاہتے ہیں۔ کیا زمینی سطح پر اور حقائق کی دنیا میں واقعی یہ چار اکائیاں وجود رکھتی ہیں۔

قابضین کے نعروں اور دعوؤں کو ایک طرف رکھ دیں تو کیا کراچی‘ حیدر آباد اور باقی سندھ ایک اکائی ہے‘ بلوچستان کے پشتون علاقے‘ مکرانی بلوچ اور بروہی ساراون اور جھالاوان ایک اکائی ہے۔ پنجاب کے سرائیکی اور پنجابی اور سرحد کے ہزارہ اور پشتون ایک ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان سب نے ایک دوسرے کی اتنی لاشیں گرائی ہیں کہ اب نفرت دلوں میں پیوست ہو چکی ہے۔ کراچی کی خون آشام زندگی اور 1988ء میں کوئٹہ میں لگنے والا پشتون بلوچ تنازعے پر ایک ماہ کا طویل کرفیو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن قابض قوتیں اپنے اپنے مرکز اقتدار‘ لاہور پشاور‘ کراچی اور کوئٹہ کا قبضہ نہیں چھوڑنا چاہتیں‘ خواہ اس کی قیمت ہزاروں جانوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ تیس سال کی جدوجہد کے بعد اٹھارویں ترمیم سے صوبائی خود مختاری حاصل کی۔ تعلیم صوبوں کے پاس گئی۔ لوگوں نے اپنے رویے سے ان کا تصور ان کے منہ پر دے مارا۔ گوادر سے گلگت تک تمام انگلش میڈیم اسکولوں کے ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہیں‘ ایک نصاب تعلیم اور ایک اساتذہ کی ٹریننگ‘ مکمل مرکزیت‘ ہاں وہ غریب اور مفلوک الحال لوگ باقی رہ گئے جنھیں سرکاری اسکولوں میں داخلے کے سوا اور وسائل ہی میسر نہ تھے۔

صوبائی خود مختاری کے ان دعویداروں اور دستور تحریر کرنے والوں کے بچے صوبائی خود مختاری کے منافی اس مرکزی نظام کے تحت قائم انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس سے بڑی منافقت کیا ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف آئین بلکہ دستوری ڈھانچہ ایسا مرتب کیا ہے کہ جس کے ذریعے صرف یہی گھرانے برسراقتدار آ سکیں۔ حلقہ بندیاں ایسی ہیں‘ کہیں برادری‘ خاندان‘ قبیلے اور زبان کی بنیاد پر اور کہیں اثر و رسوخ کی بنیاد پر۔ پارلیمانی نظام کو قرآن کی مقدس آیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

پورے حلقے سے 15 فیصد ووٹ لینے والا اسمبلی کا ممبر بنتا ہے اور باقی 85 فیصد گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ اس نظام میں غیر نمایندہ۔ اس نظام کے تحت 1954ء سے الیکشن ہوتے آ رہے ہیں اور خواہ وہ آمریت کے تحت ہوں یا جمہوری حکومت کے زیر سایہ یہی لوگ اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کس قدر شاندار بندوبست ہے اور پھر سوال کرتے ہیں کہ کوئی متبادل بتائو۔ جمہوری نظام کو پٹری سے اکھاڑا تو فوج آجائے گی۔ فوج آتی ہے تو کون آتا ہے۔ یہی لوگ آتے ہیں۔ یہی اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔

دنیا میں اس کے ہزاروں متبادل ہیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں۔ وفاق ٹوٹ جائے گا‘ فوج آ جائے گی‘ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ان قابضین میں اب وہ مذہبی گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں جنھیں اقتدار میں مسلسل حصہ ملنا شروع ہو چکا ہے۔ ان کا قبضہ گروپ مسلک کے تعصب کی خوفناکی سے بھرا ہوا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ کی نشست پر سرفراز جماعت اسلامی کے سراج الحق کو اگر مصر میں اخوان المسلمین کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار اور پھر ہزاروں شہدا کی لاشیں نظر نہیں آتیں تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی چند افراد کی جماعت تھی لیکن جماعت اسلامی مولانا مودودی کے علمی ورثے اور اسلامی انقلاب کی داعی تھی۔ اس عظیم ورثے کو قابضین کی جھولی میں ڈال کر آپ کا قد تو شاید بلند ہو جائے لیکن وہ لوگ جو حق کو کھرا‘ سچا اور اس نظام سے علیحدہ تصور کرتے ہیں ان کی مایوسی دیدنی ہو گی۔

ایک ہنگامہ برپا ہے۔ علامہ طاہر القادری کی شخصیت اور اس کے کردار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کیا کوئی نکتہ ایسا ہے جس پر اختلاف کیا جا سکے۔ عمران خان کے لہجے اور انتقامی رویے پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ جو لوگ ہیں‘ کیا انھیں 1954ء سے نافذ قبضہ گروپ کے اس الیکشن نظام نے مایوس نہیں کیا۔ یہ مایوسی اگلے سو سال تک قائم رہے گی۔ اس نظام میں اگر کوئی بھولا بسرا عام آدمی آ بھی جائے تو چند سالوں بعد وہ اور اس کا خاندان بھی قبضہ گروپ کا حصہ بن جائے گا۔

کیا ان دونوں دھرنے والوں کے مطالبات اور نعرے یہ تمام سیاسی جماعتیں اختیار نہیں کر سکتی۔ یہ نہیں کریں گی کیونکہ یہ سب کے سب ایک انتظار میں ہیں۔ یہ انتظار سو سالہ قابضین کا انتظار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مٹھی بھر لوگ تھک ہار کر چلے جائیں گے‘ بیمار پڑ جائیں گے‘ ان میں پھوٹ پڑ جائے‘ ان کے خلاف مختلف سیاسی گروہوں کی ریلیاں نکلیں گی اور یہ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ فتویٰ بازی کا سلسلہ شروع ہے‘ بریلوی اور شیعہ مسلک کے نمایندے انقلاب مارچ میں ہیں‘ ان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کے سرفروش دوسرے مدرسوں سے نکلیں گے۔

انتظار یہ ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے خود بہ خود لڑ پڑیں۔ لیکن ان قابضین کو اندازہ نہیں کہ اسی دن کا انتظار تو عالمی طاقتیں بھی کر رہی ہیں جو بیج بحرین‘ سعودی عرب‘ شام اور عراق میں بویا گیا اور جس کی تلخی عراق اور شام میں قتل غارت کی صورت میں نظر آئی‘ وہی خار دار پودا یہاں بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ صرف چند لاشیں اور پورا ملک خون میں لتھڑا ہوا۔ ایسے میں عالمی برادری کو مطمئن کرنا کتنا آسان ہو گا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کسی بھی وقت کسی اور کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔

ایک انتظار ان کا بھی ہے جس کو یہ قابضین تیسری طاقت کہتے ہیں‘ لیکن ہر دفعہ یہ قوت کے آمرانہ اقتدار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس قوت کا انتظار وقت کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔ ان کے سامنے ایک سوال ہے۔ لاشیں گرنے سے پہلے یا لاشیں گرنے کے بعد۔ پہلے حرکت میں آئیں تو سب لعن طعن کریں گے کہ جمہوریت کی بساط الٹ دی‘ بعد میں آئیں تو حالات سنبھالنا مشکل۔ ہر کوئی سانحے کے انتظار میں ہے‘ ہر کوئی سانحے کا منتظر ہے۔ لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ اگر سانحہ ہو گیا تو پھر شاید خون کا دریا عبور کر کے بھی امن کی منزل حاصل نہ ہو سکے۔ پتہ نہیں کتنی خون آشام راتیں اور قتل و غارت سے بھری صبحیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔