(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - بیٹی

 جمعرات 28 اگست 2014
میرے ملک میں حوا کی بیٹیاں غیر محفوظ ہیں،کہیں عزتیں پامال ہو رہیں ہیں تو کہیں زندگی سے محروم ہورہی ہیں ۔معاشرہ غیرت،محبت،عزت وآبرو کے نام پر قتل کا نام دے کر روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

میرے ملک میں حوا کی بیٹیاں غیر محفوظ ہیں،کہیں عزتیں پامال ہو رہیں ہیں تو کہیں زندگی سے محروم ہورہی ہیں ۔معاشرہ غیرت،محبت،عزت وآبرو کے نام پر قتل کا نام دے کر روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

کیا کہا برادری سے باہر کا رشتہ آ رہا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کردیں گے۔ او ٹھیک ہے اسلام میں تاکید ہوگی کہ لڑکی کی مرضی معلوم کرو۔ لیکن اسے دینِ دنیا کی الف ب کا کیا پتہ۔ یہ کیسے اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے؟ اسلام نے تو اور بھی بہت کچھ تاکید کی ہے توکیا اس پر عمل ہوتا ہے؟ بس ہم نے جہاں شادی طے کر دی وہیں پر ہوگی۔

اگر بات نہ مانی تو کی تو مار کے اسی صحن میں گاڑ ڈالیں گے۔ بیٹی آخر ہم تیرا برا کیوں چاہنے لگے بھلا۔بیٹی تو کجا بیٹے کی نہیں سنی جاتی،چاچے،تایوں کی قبریں بچانے کیلئے اولاد کو قربانی پہ چڑھا دیا جاتا ہے،بیٹا انجینئر ہوتا ہے تو اس کی شادی ان پڑھ لڑکی سے کردی جاتی ہے،بیٹی ڈاکٹر تو اسے کسی’’بابے دلہے‘‘کی دلہن بنا دیا جاتا ہے،جیسے اولاد نہ ہو بھیڑ بکری ہو،جہاں چاہا،جیسے چاہا کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔ کیا سارا سماج بچپن سے بڑھاپے تک اسی گھٹی پر نہیں پلتا۔ اور پھر یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدل جاتا ہے۔کہیں’’کالی‘‘قرار دے کر عورت قتل ہو رہی ہے تو کہیں’’ونی‘‘کے نام پر رسوا ہو رہی ہے۔ بھرے جرگے میں عورت کی زندگی و موت، غلامی و آزادی کا فیصلہ کرنے والے کسی کھوسے،لغاری،مزاری،بلوچ،پٹھان،سردار،مہر کو سزا نہیں ہوئی، جن کو قانون نے گرفت میں لیا بھی تو’’چمک‘‘کے کمال سے چھوٹ گیا،ہر سال شہری حقوق کی زنانہ و مردانہ تنظیمیں جانے کیوں اعداد و شمار جمع کرتی رہتی ہیں کہ اس سال ڈیڑھ ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوگئیں۔ پچھلے سال ایک ہزار ہوگئی تھیں۔ اور اس سے پچھلے سال۔ کیا ان تنظیموں کو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔کسی کی بہن،بیٹی کے احساس کے لئے نہیں،یہ سب پیسے کا چکر اور کھیل ہے،ہمدرد ہوتیں توصرف سیمینارز تک محدود نہ رہتیں،خواتین،معاشرے کے ہر فرد کو تعلیم دیتیں،سیمینارز میں کیا ہوتا ہےٗ؟ انہی وڈیروں کو مہمان بنایا جاتا ہے جو معصوموں کے گلے گھونٹنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

مگر اِس سب کے باوجود میرے ملک میں حوا کی بیٹیاں غیر محفوظ ہیں،کہیں عزتیں پامال ہو رہیں ہیں تو کہیں زندگی سے محروم ہورہی ہیں ۔معاشرہ غیرت،محبت،عزت وآبرو کے نام پر قتل کا نام دے کر روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ہر جگہ،ہر روز نئے نئے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔

کہیں پولیس کی ستائی مظفر گڑھ کی آمنہ خود سوزی کررہی ہے تو کہیں ملتان کی طالبہ سماج کے رواجوں پر جان دے دیتی ہے جبکہ لاہور کی فرحانہ کا انصاف کی دہلیز پر خون کردیا جاتا ہے۔ ہر طرف معصوم بچیوں سے زیادتی کی گونج سنائی دیتی ہے،ایسا کیوں؟ ذمہ دار کون؟ معاشرہ یا میڈیا،حکومت یا عوام،والدین یا کوئی اور؟ سب سوالات جواب کے منتظر ہیں۔اس پاک سرزمین میں اب تک کتنے غیرت کے نام پر قتل کرنے والے پھانسی پر لٹک چکے ؟ یہاں عورت کو مار ڈالنا بہت آسان کام مگر قاتل کو پکڑنا ناممکنات میں شمار ہوتاہے۔

یہ بیوی،بہو،بیٹی مارنے کاکھیل کب تک جاری رہے گا؟ظالم سماج کب تک رشتوں کے ارمانوں کا خون کرتا رہے گا؟ کیا ملک میں انقلاب کیلئے لڑنے والے طاہرالقادری اور کیا نئے پاکستان کے داعی عمران خان اِس قسم کا بدبودار نظام  بدل سکیں گے ؟ جب میں ان دونوں لیڈروں کو اسی نظام کے ’’چٹوں بٹوں‘‘میں گھرا دیکھتا ہوں تو مستقبل کے پاکستان کا منظر دھندلا دکھائی دیتا ہے،اللہ خیر کرے۔۔نیا پاکستان بنے تو نئے نظام کے ساتھ وگرنہ قبول نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔