عراق میں رجعتی بر بریت

زبیر رحمٰن  ہفتہ 6 ستمبر 2014
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

عراقی صدرصدام حسین پرکیمیائی ہتھیار رکھنے کے جھو ٹے الزام میں امریکا نے عراق پر حملہ کر کے اس کو تہہ با لا کر دیا۔ اس کے بعد  امریکا اور ایران نے مل کر مالکی کو عراق کا صدر بنا دیا۔ مالکی نے  فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا۔ جسکی وجہ سے سنی انتہا پسند فرقہ واریت شروع ہو ئی۔ امریکا نے ہی عراق میں مذہبی انتہا پسندوں کو تر بیت دی ، پھر اسی دہشت گرد تنظیم میں سے ایک دھڑا داعش کے نام سے تشکیل پایا۔

خودکو خلیفہ قرار دینے وا لے ابوبکرالبغدادی نے اس کی قیادت سنبھال لی ا ور اب قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ظلم اور بر بریت کی  شا ید ہی کو ئی حد ہو جسے ان مذہبی جنونیوں نے عبور نہ کیا ہو۔ان کا تازہ شکار یزدی فرقے کے بے گناہ عوام ہیں۔ مردوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور عورتوں کو اغوا کر کے لونڈیاں بنایا جا رہا ہے۔ بچوں کو زندہ دفن کر نے کے واقعات منظر عام پہ آ ئے ہیں ۔ عراق کے وزیر خارجہ حوشیار زیباری نے 15 اگست کو بیان میں بتایا کہ ’یہ لوگ بڑی گاڑیوں میں آ ئے اور دوپہر سے ہی قتل عام شروع کر دیا۔ یہ زبردستی لو گوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں اور انکارکرنے وا لوں کو قتل کر دیتے ہیں ۔

ان جہا دیوں نے مو صل پر قبضے کے وقت بھی  عیسا ئی آبادی کو مذہب تبدیل کر نے یا قتل ہو نے کا آ پشن دیا تھا ۔ مذہب کے نام پر بے گناہوں کے خون سے ہو لی کھیلنے اور خواتین کی عزت و آبرو لوٹنے وا لے یہ لوگ کون ہیں؟ یہ آسمان سے تو نا زل نہیں ہو ئے۔ یہ افغان ڈالر جہاد کا ہی ری پلے ہے جو زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ شام میں مغرب کے حمایت یافتہ اعتدال پسند جنگجوؤں  پر مشتمل ’آ زاد شا می فوج‘ ٹوٹ کر بکھر ر ہی ہے۔ اس وقت شام میں مذہبی جنو نیوں کے 3 بڑے گروہ اسلامک اسٹیٹ،النصرہ فرنٹ اور اسلا مک فرنٹ ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ اسلا مک اسٹیٹ اور النصرہ در اصل القاعدہ سے الگ ہو نے وا لے دھڑے ہیں جنھوں نے شام اور عراق کے مختلف علاقوں میں اپنی خلافتیں قائم کی  ہو ئی ہیں اور ان خلافتوں کے پیرو کار ایک دوسرے کو ذبح کر نے میں مصروف ہیں ۔ ہر صورت میں محنت کش ہی ما رے جا تے ہیں ۔ڈیڑھ لا کھ پناہ گزین، جن میں اکثریت یزدیوں کی ہے، 50 ڈگری کی گر می میں بے سرو سامان ہیں ۔

پا نی  اورخوراک کی قلت سے ہر روز بچوں کی ہلا کتیں ہو ر ہی ہیں ۔ بڑی تعداد میں لوگ عراق کے متا ثرہ علاقوں سے جان بچا کر شام جا رہے ہیں ۔2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے پیشتر فر قہ وارانہ اور لسانی منافرتیں اتنی شدید نہ تھیں ۔ شیعہ ،سنی ، یزدی اور کرد نہ صرف پر امن طریقے سے اکٹھے رہتے تھے بلکہ آ پس میں شادیاں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ امریکہ نے جس ’القاعدہ‘ اور’بڑے پیما نے پر تباہی کے ہتھیاروں‘ کو اپنے حملے کا جواز بنا یا تھا، ان کا نام و نشان بھی عراق میں نہیں تھا ۔ سامراجی جارحیت کے بعد القاعدہ سے دو ہا تھ آ گے کی مخلوق پیدا ہو چکی ہے ۔ پو رے خطے کو تاراج کر نے والوں میں اب ’انسا نی ہمدردی‘ جاگ اٹھی ہے۔ یہ ’انسانی ہمدردی‘ تب کہیں سو  رہی تھی جب نیٹو کا با رود لا کھوں عراقیوں کو زندہ جلا رہا تھا ۔

منا فقت کی کو ئی انتہا نہیں ہو تی ۔ مغربی سامراج کے نما ئندے اب یزدی برادری کے قتل عام پر مگر مچھ کے آ نسوبہا رہے ہیں ۔سامراجیوں نے ہی اس بربریت کو سرد جنگ کے دوران پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا ۔ اس بر بریت کو آ ج بھی شام کی پراکسی جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ سامراج اور اسلا می پرستوں کے تعلقات جتنے بھی کشیدہ رہے ہوں کبھی منقطع نہیں ہو ئے۔

اسلا می بنیاد پرستی دو دھا ری  تلوار ہے جسے ایک طرف مختلف مما لک میں جارحیت کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ’بیرونی خطرے‘ کے طور پر مغربی محنت کشوں کے شعور پر حاوی کر کے استحصالی نظام اور طبقا تی تضادات کو اوجھل کر نے کی کو شش کی جا تی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ امریکا اور اس کے خلیجی ا تحاد یوں کی ہی پیداوار ہے جو اب اپنے آقا ؤں کے قابو سے با ہر ہو چکی ہے ۔ پہلے اسلحے، تر بیت اور مالی امداد کے ذریعے شام میں جہادی تیارکیے گئے ۔

پچھلے سال مارچ میں نیو یارک ٹائمز میں وہ منصوبے بے نقاب کئے گئے تھے جن کے تحت سی آئی اے تر کی اور قطر وغیرہ کے ذریعے ان جنونیوں کو فوجی امداد کر رہی تھی ۔ شامی حزب مخالف کے ایک لیڈر نے نیو یا رک ٹائمز کو  انٹرویو دیتے ہو ئے کہا تھا کہ ’ جو کو ئی بھی ان مذہبی جنو نیوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے وہ غلط کر رہا ہے۔‘ انھی جہا دیوں میں سے اسلا مک اسٹیٹ (داعش )بر آ مد ہو ئی جو عراق میں سرا ئیت کر کے مختلف علا قوں پر قابض ہو تی چلی گئی اور بھاگنے وا لی عراقی فوج کے چھوڑے ہو ئے جدید امریکی اسلحے سے مزید مضبوط ہوئی ۔ زیر قبضہ علا قوں میں تیل کے ذخائر اور ریفا ئنریوں کی آمدنیوں سے اس گروہ کی مالی حیثیت بھی مستحکم ہو تی گئی۔ اسلا مک اسٹیٹ اس وقت دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ بن چکا ہے  جسکے اثاثے 2 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔

اب امریکا اپنے تیارکر دہ جہا زوں کے زیر استعمال اپنا ہی اسلحہ تباہ کر نے کے لیے اربوں ڈالر کا مزید اسلحہ چلا نے کی تیا ری کر رہا ہے۔ شام میں ایک دوسرے سے متصادم امریکا اور ایران اب عراق میں اسلا مک اسٹیٹ کے خلاف مشتر کہ حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ عجیب پا گل پن ہے جس میں لا کھوں بے گنا ہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ عراق میں امریکا کی تا زہ عسکری مداخلت سے کو ئی بہتری نہیں بلکہ مزید بر بادی ہی ہو گی۔ لو ئی انٹوائن نے کہا تھا کہ’ یہ جرم سے بھی زیادہ بھیا نک ہے۔ یہ حماقت ہے۔‘ عراق میں اسلا مک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر امریکی بمبا ری ایسی ہی حما قت کا آ غاز ہے۔ یہ سا مراجی اور مذہبی جنو نی نسل انسانی کو صرف ذلت اور اذیت کی موت ہی دے سکتے ہیں۔ اسلا مک اسٹیٹ کی درندگی اور سامراج کی وحشت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

اب یہ نا سور افغا نستان اور پا کستان تک پھیلنے لگا ہے ۔پشاور، فا ٹا اور افغانستان میں دا عش کا منشور تقسیم کیا گیا جس میں کہا گیا کہ’ خراسان‘ یعنی پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک خلا فت کو پھیلا یا جا ئے گا۔ ادھر داعش کے خلاف  حکو مت مو ثر کارروائی نہ کر نے کے خلاف، اغوا و قتل کیے گئے 1700 فو جیوں کے اہل خانہ اراکین  پارلمینٹ سے دست و گریباں ہو گئے۔ پا کستان میں صرف اگست کے مہینے میں کراچی میں157 افراد قتل ہو ئے جبکہ ’ضرب عضب‘ کی  کارروائی میں اب تک 82 فو جی اور 902 عسکریت پسند یعنی کل تقریبا ایک ہزار افراد ما رے  جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ طالبان کی گود میں القاعدہ پلے، پھر القاعدہ کی گود میں داعش پل رہے ہیں، ان سب کے پا لن ہار ا مریکی  سامراج  اور سی آئی اے ہے ۔ اسکا واحد علاج محنت کشوں کا عالمی انقلاب ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔