کیا ایسا ہی چلتا رہے گا؟

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 13 ستمبر 2014

ایک محفل جس میں فیض احمد فیض بھی موجو د تھے باتیں ہورہی تھیں کہ اس ملک کا مستقبل کیاہوگا کسی نے کہا انار کی ہوجائے گی کسی کے خیال میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوگا اور کچھ کے خیال میں ملک مزید ٹوٹ بھی سکتا ہے۔

ایسے میں فیض احمد فیض کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہاکہ’’ بھئی میرے خیال میں اس سے بھی برا ہوگا‘‘ سب نے حیران ہوکے پوچھا وہ کیسے ؟فیض صاحب نے جواب دیا کہ ’’مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسا ہی چلتا رہے گا ‘‘ فیض صاحب کی سالوں پہلے کہی بات ہوبہو سچ ثابت ہوئی ۔ اور آج بھی ملک ایسا ہی چل رہا ہے جیسا سالوں پہلے چل رہا تھا۔ سائنس دانوں نے انکشاف کیاہے کہ بڑے گوشت خور ڈائنو سار گزشتہ پانچ کروڑ برسوں میں سکڑ سکڑ کر پرندے بن گئے ہیں ان کے مطابق تھیر و پوڈ وہ واحد ڈائنو سار تھے جو مسلسل سکڑتے رہے ان کے ڈھانچے چارگنا تیزی سے تبدیل ہوئے جس سے انھیں اپنی نسل کی بقا میں مدد ملی۔

تحقیق کے سربراہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کے مائیک لی کہتے ہیں کہ سکڑنے اور پرندوں جیسی خصوصیات وہ عوامل تھے جنہوں نے ڈائنو ساروں سے پرندوں میں تبدیل ہونے کے ارتقا میں مدد دی اس خصوصیات نے انھیں شہاب ثاقب کے تباہ کن اثرات سے بچنے میں مدد دی جس نے ان کے رشتے دار بڑے ڈائنو سار کو ختم کرڈالا تھا۔ ڈائنو سار بدل گئے وقت بدل گیا دنیا بدل گئی ہم دنیا کی واحد مخلوق ہیں جو سالوں میں بھی نہ بدل سکے اگر کوئی چیز بدلی ہے تو وہ صرف حکمرانوں کے دن بدلے ہیں باقی سب چیزیں جوں کی توں ہیں۔

ایک روز میری ملاقات اندھیرے سے ہوئی، مجھے دیکھتے ہی زور زورسے چلانے لگا ’’اے میری نگری کے باسی یہاں آجا میں یہاں ہوں کہاں مارا مارا پھر رہا ہے کہاں بھٹکتا پھر رہا ہے‘‘ پھر مجھے زور سے پکڑ کر اس نے اپنے پاس بٹھا لیا اور شکایت بھر ے لہجے میں کہنے لگا ’’تو نے بہت کوشش کی کہ مجھ سے جان چھڑا لے لیکن تیری ساری کوششیں بے سو د ثابت ہوئیں جہاں میرا راج چلتا ہے آج بھی تو اس نگر ی میں بستا ہے مجھ سے دشمنی کرکے تو کہیں کا نہیں رہے گا حالانکہ تو نے میرے خاتمے کی اپنی تئیں ساری کوشش کرکے دیکھ لی لیکن مجھ سے چھٹکارا تجھے حاصل نہ ہوسکا۔

ابے پاگل تیرے دیس میں سب ہی میرے عاشق ہیں انھیں میرے راج میں بھی سکون ملتا ہے وہ میرے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب روشنی دیکھ کر سب اندھے ہوجائیں گے‘‘ اور پھر وہ اتنی زور زور سے ہنسنے لگا کہ میرا دل دہل گیا ۔بعد میں، میں نے سوچا کہ کہتا تو وہ ٹھیک ہی ہے اگر ہمیں اندھیرے پیارے نہ ہوتے تو ہمارا کیا یہ حال ہوتا۔

پاکستان کے لوگ سالوں سے پریشان کن معاشی ، سماجی اور سیاسی بحران کا شکار ہیں ہر شخص ان حالات کی وجہ سے بیزار ، مایوس ،غیر مطمئن نظر آتا ہے وہ اس حد تک بیزار ہوگیا ہے کہ فوری تبدیلی چاہتا ہے جو اس کو درپیش تمام عذابوں سے نجات دلوا دے ، عدم تحفظ، مہنگائی ، بیروزگاری ، بجلی اور گیس کا بحران ، پانی کی قلت ، ناانصافی ، بدامنی، دہشت گردی،ظلم اور مایوسی ہمیں اکتاہٹ ، افسردگی اور خاموشی جیسی ذہنی کیفیات میں مبتلا کر رہے ہیں اگر یہ کیفیت دیر تک انسان میں قائم رہے تو وہ پھر ذہنی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج پاکستان میں 60 فیصد انسان کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اگر یہ صورتحال اور دیر تک برقرار رہی تو پھر کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں بسنے والے تمام عام لوگ ذہنی مریض بن چکے ہونگے۔

کیا یہ ملک ذہنی مریض بننے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ کیا یہ ملک فاقے کرنے اور خود کشیاں کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ کیا یہ ملک اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں ، تمناؤں، خواہشوں کو قتل کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا ان باتوں کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے اور اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ موجودہ حکمرانوں نے پوری کر دی ہے۔ ایک اہم بات جو اس موجودہ بحران میں کھل کر سامنے آگئی ہے وہ حکومت کی اصل مسائل سے عدم دلچسپی ہے اس پوری صورتحال اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عوام کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگ گیا ہے کہ پاکستان کے اصل مسائل اور پاکستان کی سیاست کا ایک دوسرے سے تعلق نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بیٹھے عوام کے نمایندوں کو بڑھتی غربت سے کوئی دلچسپی ہے۔

کیا دنیا بھر کی جمہوری ریاستوں کی طرح ہماری جمہوری حکومت کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرے انھیں پینے کے لیے صاف پانی فراہم کرے، روز مرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمیوں کی جیب کے حساب سے ہوں۔ کیا ملک میں سماجی ، سیاسی اور معاشی انصاف و مساوات قائم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟ کیاامن و امان کی صورتحال بہتر بنانا اور بجلی و گیس کے بحران پر قابو پانا حکومت کی ذمے دار ی نہیں ہے ؟ کیا چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے کیا عام لوگوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرنا اور مفت تعلیم مہیا کر نا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟

کیا ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا ملک سے رشوت اور کرپشن کوختم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟ کیا اداروں کو مستحکم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے کیا عام لوگوں کو انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟ کیا ملک سے ظلم و ستم و زیادتی اور ناانصافی ختم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھرحکومت اپنی اصل ذمے داری کیوں نہیں پوری کر رہی جس کے لیے لوگوں نے اسے ووٹ دیے ہیں اور جو تمام جمہوری حکومتوں کی اولین ترجیح ہوتی ہیں اور اگر حکومت اپنی ذمے داری پوری نہ کرسکے تو جناب اعلیٰ پھر آپ ہی بتائیے کیا کیا جائے بس جمہوریت ، جمہوریت کا کھیل بہت ہو چکا بہت تقاریر ہوچکی۔

ایوانوں میں بیٹھے رہنے کے بجائے نکلیے سیلاب میں ڈوبے لوگ آپ کے منتظر ہیں بھوک ، غربت ، ظلم و ستم ، ناانصافی سے متاثر لوگ آپ کے منتظر ہیں ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کے مسائل آپ کی سیاست کے ایجنڈے پر ہے ہی نہیں بلکہ آپ کی سیاست کا اصل ایجنڈہ اعلیٰ عہدوں کا حصول اور انھیں برقرار رکھنے کی کوشش ہے دوسری جانب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تنقید تو خوب کی گئی لیکن بہت ہی کم اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ یہ نوبت یہاں تک پہنچی، کس طرح آیا یہ سب کچھ، یکایک ہوگیا یا اس کا کوئی پس منظر بھی ہے۔

سیاست پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ 2013 کے انتخابات کے نتائج کے فوراً بعد ہی سے تحریک انصاف نے اس پر احتجاج کرنا شروع کردیا تھا اور وہ بار بار حکومت کو متنبہ کر رہے تھے کہ وہ اس سلسلے میں احتجاج کریں گے دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری بھی گزشتہ 3 ماہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف کے طلبگار ہیں اور وہ مسلسل احتجاج کرتے بھی رہے ہیں جو لوگ اس ساری صورتحال پر سازش کے پہلو تلاش کر رہے ہیں وہ تو ہوا کے تیز چلنے کو بھی سازش قرار دے سکتے ہیں اگر اس ساری صورتحال کا سد باب پہلے ہی کرلیا جاتا تو کیا یہ نوبت یہاں تک پہنچتی۔

پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر رکھنے والے اہل دانش کو تبصروں، تجزیوں سے باہر نکل کر عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے ایک ایسے لائحہ عمل کی نشان دہی کرنی چاہیے یا تجاویز دینی چاہیں جس کے نتیجے میں محاذ آرائی اور انتشار کا خاتمہ ہو اور قومی اتحاد فروغ پائے لیکن ایسا محسو س ہوتاہے کہ بجائے اس کے کہ اہل دانش خود کو جانب داری سے دور رکھیں وہ خود اس بحران کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس لیے اگر اپنا سر نہ پیٹا جائے تو کیا کیا جائے۔ آپ ہی بتائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔