(کھیل کود) - پاکستان کرکٹ کی تباہی کا ’’سکرپٹ‘‘

فرحان خان  جمعرات 18 ستمبر 2014
اگر ہم نے پاکستان میں کرکٹ کو ہاکی اور سکواش والے حالات سے بچانا ہے تو ان تمام باتوں پر کافی غور کرنا ہوگا اور پی سی بی میں بہت سی اصلاحات کرنی ہونگی تاکہ پاکستان کرکٹ میں وہ مقام حاصل کرسکے  جس کا وہ مستحق ہے۔ فوٹو: فائل

اگر ہم نے پاکستان میں کرکٹ کو ہاکی اور سکواش والے حالات سے بچانا ہے تو ان تمام باتوں پر کافی غور کرنا ہوگا اور پی سی بی میں بہت سی اصلاحات کرنی ہونگی تاکہ پاکستان کرکٹ میں وہ مقام حاصل کرسکے جس کا وہ مستحق ہے۔ فوٹو: فائل

پچھلے دو سالوں سے جو پی سی بی چئیرمین کی آنکھ مچھولی کھیلی جا رہی ہے اس نے پاکستان میں کرکٹ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستانی کرکٹ پر ہمیشہ سے غیر یقینی کے بادل منڈلاتے رہے ہیں یہاں تک کہ  کپتان کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا میں اگلی سیریز میں کپتان رہوں گا بھی یا نہیں؟ 

خیر، جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلق ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنےکا ایک اسکرپٹ ہے اور اُس سکرپٹ کا آغاز تو 2009 میں ہو گیا تھا جب پاکستان میں سری لنکن ٹیم کو دہشتگردو ں نے نشانہ بنایا ۔ دہشتگرد کسی سری لنکن کھلاڑی کو نقصان  تو نہ پہنچا سکے لیکن پاکستان  میں کرکٹ  کی تباہی کی کتا ب کا پیش لفظ لکھ دیا ۔  اور پھر کرکٹ کے زوال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس زوال کے نتیجے میں پاکستان میں کرکٹ کے لا تعداد شائقین  جو کرکٹ کو اپنے قومی کھیل سے بھی زیادہ چاہتے ہیں، اپنے ملک میں کرکٹ دیکھنے کو ترس گئے  اور دوسری طرف  کرکٹ ٹیم  ہوم ایڈوانٹیج سے محروم ہوگئی۔ اب تو حال یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں بمشکل دو یا تین کھلاڑی ہیں جس نے پاکستان میں کوئی بین الاقوامی میچ کھیلا ہوا ہے۔

یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو مسلسل تکلیف کا سبب بن رہی ہے مگر ایک اور دکھ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب گزشتہ 2 ورلڈ کپ کی طرح اِس بار بھی عین عالمی میلے سے قبل سعید اجمل پر پابندی کی صورت میں  پاکستان کے پیٹ پر ایک اور چھوڑا گھونپا گیا ہے۔ کسی “سازشی مفروضے ” میں جائے بغیر  یہ بڑی تعجب کی بات ہے پاکستان اپنے سٹار کھلاڑیوں سے ہمیشہ ورلڈ کپ سے  چند مہینے پہلے  ہی محروم ہو جاتا ہے، خواہ وہ 2010 میں سپاٹ فکسنگ سکینڈل ہو یا  حال ہی میں سعید اجمل پر پابندی ہو۔

اگر پاکستان کرکٹ کے زوال کا ذکر کرتے ہوئی پی سی بی کے کارناموں کا ذکر نا کیا جائے تو ان کے ساتھ نہایت نا انصافی ہوگی۔ پاکستان میں ڈومیسٹک اسٹرکچر میں بار بارردو بدل نے پاکستان میں کرکٹ کو کافی نقصان پہنچایا۔ کافی کرکٹر ز غیر یقینی کی صورت حال سے دو چار ہو کر  کہتے ہیں کبھی ڈیپارٹمنٹ اور علاقائی ٹورنامنٹ اکھٹے کرا لئے جاتے ہیں تو کبھی الگ۔  کبھی ٹی وی رائٹز کا مسئلہ تو کبھی پاکستان سپر لیگ کی نیلامی کے مسائل ۔ پی سی بی کی جانب سے کرکٹ دشمنی پر مبنی اِ ن فیصلوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ پی سی بی موجودگی  میں پاکستان میں کرکٹ کو تباہ کرنے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔

آجکل بھارت میں چیمپین لیگ ٹی ٹوینٹی لیگ چل رہی ہے جس میں دنیا بھر کی ڈومیسٹک ٹیمیں شامل ہیں بشمول پاکستان کی لاہور لائنز  جو ہمارے اور آپکے کے لیے ایک اچھی بات ہے۔ مگر حیرت تو اِس بات پر ہورہی ہے کہ پی سی بی  یہ سب کچھ جانتے بھوجتے کس طرح ڈومیسٹک ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ کا انعقاداِسی دوران کرسکتی ہے؟۔ کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ پچھلی بار کی ٹی ٹوئنٹی  کی فاتح ٹیم  ملک سے باہر ٹورنمنٹ کھیلنے گئی ہو اور آپ ملک میں ڈومیسٹیک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد انہی دنو ں میں کر دیں۔ اگر پی سی بی اِس ٹورنامنٹ کا انعقاد اگلے ماہ کرلیتی تو کیا مشکل ہوجاتی؟  یہ تو پی سی بی میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے یا پھر یہ سب کچھ اسکرپٹ کا حصہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ دونوں ایونٹس کے ایک ساتھ انعقاد پر میرے اور بہت سارے اعتراضات ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے شائقین بھی دونو ں ایونٹس  سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے کیونکہ پی ٹی وی جس کے پاس دونوں ایونٹس کے ٹی وی رائٹز ہیں دونو ں کے میچز ایک وقت پر دکھا نہیں سکتا۔

بس آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر اگر ہم نے پاکستان میں کرکٹ کو ہاکی اور سکواش والے حالات سے بچانا ہے تو ان تمام باتوں پر کافی غور کرنا ہوگا اور پی سی بی میں بہت سی اصلاحات کرنی ہونگی تاکہ پاکستان کرکٹ میں وہ مقام حاصل کرسکے  جس کا وہ مستحق ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔