(پاکستان ایک نظر میں) - میرا حکمراں چور تو میں بھی چور

سعید احمد  ہفتہ 20 ستمبر 2014
میں کیوں انقلاب کی حمایت کروں؟ ابھی تو جب بجلی جاتی ہے میں کنڈا لگالیتا ہوِں جب وہ بھی بندوبست نہیں ہوتا تو میں غیرقانونی طریقے سے گیس پر جنریٹر چلالیتا ہوں ۔۔۔ غرض یہ کہ میں چاہتا کہ میرا حکمراں چور ہو تاکہ وہ مجھے بھی چوری کی اجازت دے۔ فوٹو: فائل

میں کیوں انقلاب کی حمایت کروں؟ ابھی تو جب بجلی جاتی ہے میں کنڈا لگالیتا ہوِں جب وہ بھی بندوبست نہیں ہوتا تو میں غیرقانونی طریقے سے گیس پر جنریٹر چلالیتا ہوں ۔۔۔ غرض یہ کہ میں چاہتا کہ میرا حکمراں چور ہو تاکہ وہ مجھے بھی چوری کی اجازت دے۔ فوٹو: فائل

عمران خان اور طاہر القادری نے عوام کو نہ جانے کیا گھول کر پلا دیا ہے کہ جہاں جاؤ اورجس کو دیکھو وہ ملک میں انقلاب کی بات کرتا نظر آتا ہے چاہے اس کو انقلاب لفظ کے معانی کا سرے سے پتہ ہی نہ ہو۔

ہر ذی شعور اور عقل مند شخص تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مطالبات کو درست تسلیم کرتا ہے لیکن اُن مطالبات کی منظوری کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو غلط قرار دیتا ہے۔

دو روز قبل میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کا حامی ہوں اور نہ ہی تحریک انصاف کا ووٹر لیکن اس بات کا کریڈٹ خان صاحب کو دوں گا کہ انھوں نے عوام میں سیاست کا کچھ شعور ضرور اجاگر کیا ہے اور اب لوگ اپنے حق کی بات بھی کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان ب باتوں کے باوجود اگر کوئی کراچی میں انقلاب کی بات کرے گا تو میرے خیال میں وہ دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف شخص ہی ہو گا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ بھائی آپ نے یہ کیا بات کردی تو جواب ملا کہ دیکھو، جب کراچی میں بجلی جاتی ہے تو ہم دوسری لائن سے کنڈا لگا لیتے ہیں اور اگر دوسری طرف کی لائٹ بھی چلی جاتی ہے تو ہم غیر قانونی طریقے سے گیس کے ذریعے جنریٹر چلا لیتے ہیں، نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت ہے کہ کوئی ہم سے پوچھے کیوں کہ ہم کراچی میں رہتے ہیں  اور اگر ملک کے دیگر شہروں اور دیہات کی بات کی جائے تو وہ بھی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔

اس کے بعد ان موصوف کا کہنا تھا کہ پورے شہر میں بمشکل 15 سے 20 فیصد ایسے ایماندار لوگ ہوں گے جو پانی اور بجلی کا بل باقاعدگی سے اور پورا ادا کرتے ہوں گے تو ہم پاگل ہیں کہ انقلاب کی بات کریں۔ اگر اس ملک میں انقلاب آ گیا، جس کے آنے کے دور دور تک آثار نہیں ہیں تو پھر جب لوڈ شیڈنگ ہو گی تو ہم بجلی کیسے چوری کریں گے اور پھر ہمیں پانی اور بجلی کے بل بھی پورے ادا کرنے پڑیں گے۔ میں نے اپنے دوست کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ بھائی جب انقلاب آئے گا تو ملک کے نظام میں بہتری بھی تو آئے گی اور لوڈ شیڈنگ بھی کم ہوا کرے گی نا تو اس پر جواب ملا کہ بھائی جاؤ اپنا کام کرو یہ افسانوی انقلاب کی باتیں کراچی میں تو ممکن نظر نہیں آتیں۔

اتبا بڑا لیکچر دینے کے بعد میرے انقلاب مخالف دوست نے بریک نہیں لگائی بلکہ ملک کی ابتر صورتحال پر ایک اور موضوع کو چھیڑدیا۔ کہنے لگے کہ ان کے ایک جاننے والے ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ 20 سال سے سرکاری اسکول میں ٹیچرکی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے  ہیں لیکن جب سے خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے تو ان کا معمول ہے کہ صبح ہوتے ہی عمران خان کے خلاف مغلظات بکنا شروع کرتے ہیں اور شام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اس حکومت کے آنے سے پہلےوہ  اسکول جائیں یا نہیں یہ اُن کی اپنی مرضی ہوا کرتی تھی اور جس دن اُن کی مرضی  اسکول کا رُخ کرنے کے لیے حامی بھرتی تھی اُس دن بھی وہ  جب دل چاہے واپس آ جاتے تھے غرض یہ کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا لیکن جب سے صوبے میں عمران خان کی حکومت بنی ہے تو  اُن کی  زندگی عذاب بن گئی ہے ۔ اب انہیں  روزانہ 5 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے اسکول جانا پڑتا ہے اور پھر تھمب امپریشن کی مدد سے آنے اور جانے کا ٹائم بھی نوٹ کرانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اُن کے مال مویشی سارا دن بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور پھر جب میں واپس جاتا ہوں تو ان کی خدمت کرتا ہوں۔

اتنے بڑے لیکچر سننے کے بعد مجھے میری کمزوریوں کا بھی احساس ہوا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنی دوست کی بات کی حمایت کرنی پڑی اور اُن سے کہا کہ واقعی کہا تو آپ نے درست ہی ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی سرکاری نوکری ہو تاکہ وہ بھی اپنی مرضی سے دفتر جائے اور ہفتے میں 4 دن جائے یا  پھر پورا ہفتہ بھی غائب رہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اگرچہ گزشتہ 67 کی خرابیوں نے مجھے بھی  غلطیوں اور خرابیوں کا پیکر بنا دیا ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا حکمران چور ہو تاکہ مجھے بھی چوری کا پورا اختیار ہو۔ لیکن یہ میرا ذاتی فائدہ ہے اِس ملک کا نہیں۔ اِس ملک میں رہنے والوں کی اکثریت اب بھی  ایسی زندگی گزاررہی ہے جو کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ اگر چہ اُس اکثریت  کو کچھ کہنے کا حق نہیں دیا گیا مگر سوچنے پر کوئی پابندی نہیں لگاسکتا ۔ وہ آج بھی اِس وطن عزیز کو فلاحی ریاست بنتا دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ سب کچھ روایتی  حکمرانوں کی موجودگی میں تو  مکمل طور پر ناممکن ہے ۔ لہذا میری عمران خان اور طاہر القادری سے ایک چھوٹی سی التجا ہے کہ خدارا لوگوں نے آپ سے اگر امیدیں باندھ ہی لی ہیں تو انھیں پچھلے حکمرانوں کی طرح مایوس مت کیجیئے گا کیونکہ اگر آپ دونوں نے بھی قوم کو مایوس کیا تو یہ نہ ہو کہ قوم کو آئندہ انقلاب کے نام سے بھی نفرت ہو جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔