آمریت سے بدتر جمہوریت

محمد سعید آرائیں  پير 22 ستمبر 2014

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بغیر جمہوریت آمریت سے بھی بدتر ہے جب کہ موجودہ جمہوریت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بہترین آمریت بھی جمہوریت سے بدتر ہے۔ بدتر آمریت اور بہترین جمہوریت کی اس بحث میں حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی نظام بنیادی جمہوریت کی مضبوط بنیاد اور جمہوریت کی نرسری ہے جہاں سے جمہوریت کی کونپلیں نکلتی ہیں۔ بلدیاتی نظام میں پھلتی پھولتی ہیں اور مضبوط ہوکر ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں کے صدور ، وزرائے اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وزرا کی سیاست کی بنیاد بلدیاتی ادارے تھے جہاں سے وہ منتخب ہوتے ہوتے اعلیٰ عہدوں تک اپنی بلدیاتی کارکردگی کی بنیاد کے باعث پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور دنیا میں نام کمایا۔

ایران کے دو بار منتخب ہونے والے صدر احمدی نژاد اور ترکی کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ نومنتخب صدر اپنے اپنے شہروں کے کامیاب میئر ثابت ہوئے تھے اور اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنے ملک ہی میں نہیں انھوں نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

پاکستان میں جو جمہوریت ہے اسے ڈاکٹر طاہر القادری جمہوریت ماننے کو تیار نہیں اور 2013 میں منتخب ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو عمران خان جعلی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان بلدیاتی نظام کے بھی حامی ہیں اور انھوں نے عام انتخابات کے موقعے پر تین ماہ میں منتخب ہونے کی شرط پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا مگر کے پی کے جہاں عمران خان کی حکومت ہے وہاں کے تحریک انصاف کے جمہوریت پسند ارکان اسمبلی عمران خان کے بھی آڑے آگئے اور انھوں نے عمران خان کے اعلان پر عمل نہیں ہونے دیا اور سوا سال گزر جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت وہاں بلدیاتی انتخابات نہیں کرا سکی۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جمہوری کہلانے والی کسی بھی سیاسی حکومت نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور ملک میں باقاعدگی سے انتخابات کرانے کا اعزاز جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہوا جنھیں ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا مگر ان تینوں نے جمہوریت کی بنیادی نرسری بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کو سمجھا اور مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد کسی تاخیر کے بلدیاتی انتخابات کرائے۔

جنرل پرویز نے قوم کو ایسا بااختیار ضلعی نظام دیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ضلع حکومتوں میں کمشنر، صوبائی سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنر سطح کے افسران ضلعی ناظمین کے ماتحت تھے اور یہی وجہ تھی کہ بیوروکریسی ضلعی نظام کے خلاف تھی کیونکہ وہاں اعلیٰ افسروں کی بجائے ناظمین کے احکامات پر عمل ہوتا تھا اور کمشنر اور ڈپٹی کے عہدے ختم کردیے گئے تھے۔

ارکان اسمبلی بھی ضلع حکومتوں کے خلاف تھے کیونکہ ایک تو ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے تھے دوسرے وہ ضلع حکومتوں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتے تھے۔ ناظم ان کی سنتے تھے نہ محکمہ بلدیات ان پر حکم چلا کر غیر قانونی احکام منوا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ناظمین کے اختیارات جو مالی اور انتظامی تھے کو دیکھ کر متعدد ارکان اسمبلی نے مستعفی ہوکر ناظمین کے عہدوں کا انتخاب لڑا تھا۔

2005 میں ملک میں اسمبلیاں قائم ہوچکی تھیں اور  پرویز حکومت کی ترجیح تبدیل ہوچکی تھی جس کا فائدہ اٹھاکر صوبائی حکومتوں نے ارکان اسمبلی کے دباؤ پر ضلع ناظمین کے اختیارات کم کرا دیے مگر پھر بھی ناظمین اتنے بااختیار تھے کہ صحیح کام کرنے والے ناظمین کا محکمہ بلدیات اور ارکان اسمبلی کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ متحدہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے جب بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر بات کرتی ہے تو ٹال مٹول کی جاتی ہے اور اس طرح بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مسلسل تاخیر کی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔

بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی وجہ ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کی مخالفت ہی نہیں بلکہ ایک اہم وجہ صوبوں کے وزرائے بلدیات بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں کیونکہ اس طرح بلدیات کے وزیروں کی من مانیاں، غیر قانونی تقرریاں اور بھرتیاں اور بلدیاتی اداروں کے فنڈ پر اختیار ختم ہوجائے گا۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مالی حالت دیگر صوبوں سے زیادہ خراب ہے۔ گزشتہ 6 سالوں میں محکمہ بلدیات میں رشوت ستانی، کرپشن، لاقانونیت اور من مانیاں عروج پر رہی ہیں، لاکھوں روپے رشوت پر بلدیاتی افسروں کے تقرر و تبادلوں کی خبریں عام ہیں۔ رشوت دے کر عہدے لینے والے افسروں کی کوئی میعاد مقرر نہیں اس لیے روزنامہ ایکسپریس کی خبروں کے مطابق افسران جلد سے جلد اپنی دی گئی رقم بمع منافع وصول کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

بلدیاتی ادارے گزشتہ کئی سالوں سے وقت پر اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے رہے البتہ ٹھیکیداروں کے بل کہیں نہ کہیں سے ضرور دے دیے جاتے ہیں کیونکہ ان پر کمیشن ملتا ہے جب کہ ملازموں کی تنخواہیں بغیر کمیشن کے جاتی ہیں۔ اسی لیے سالوں سے ملازمین احتجاج کرتے آرہے ہیں مگر ادائیگی میں تاخیر پر تاخیر ہو رہی ہے اور یہ تاخیر جمہوری دور میں شروع ہوئی۔ دور آمریت میں عملے کو وقت پر تنخواہ ملتی تھی اور ترقیاتی کام بھی ہوتے تھے اب تعمیری و ترقیاتی کام ارکان اسمبلی کے فنڈ سے ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی ادارے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے تباہ کرکے رکھ دیے ہیں ہر ادارہ مالی بحران کا شکار ہے اور ان کی یہ حالت دور آمریت میں نہیں جمہوریت کے چھ سالوں میں ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔