فرقہ وارانہ تشدد میں بلیک واٹر کا کردار

قادر خان  جمعـء 10 اکتوبر 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے باوجود سی آئی اے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، ہم اگر اس خواب وخیال کی دنیا میں رہتے ہیں کہ نئی افغان حکومت بننے کے بعد افغانستان سے چلی جائے گی  تو یہ یقینی طور پر بہت بڑی غلط فہمی نہیں بلکہ بیوقوفی ہوگی  ۔سی آئی اے کے چیف لیون پینٹا نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ سی آئی اے پاکستان میں اپنی کارروائیاں بند نہیں کرے گی اور مشتبہ افراد کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی ۔

امریکی عہدیداروں نے پاکستانی حکام کو آگاہ کردیا تھا کہ ایسی کسی کارروائی کو نہیں روکا جائے گا جس سے امریکی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہو ۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق  پاکستانی حکام  نے لیون پینٹا سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا تھا  اور امریکی سی آئی اے ایجنٹوں اور اسپشل آپریشنز آپریٹرز پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے انھیں نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔امریکا نے اپنے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنا سیکھا ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں امریکا کی بدنام زمانہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی بازگشت بلند ہوتی رہی ۔

جس پر پوری دنیا میں امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ان ایجنسیوں میں سب سے زیادہ بد نام زمانہ نجی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر ہے جس نے اپنا نام بدل کر ٹام زی سے تبدیل کرکے اکیڈمی رکھ لیا۔بلیک واٹر عراق میں شہریوں کے قتل عام میں ملوث رہنے کی وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنی رہی ہے۔ جس پر ظاہری طور پر عالمی دباؤ کے پیش نظر بلیک واٹر کا نیا نام ایکس ای یا زی سروسز ایل ایل سی رکھا گیا۔کمپنی کے صدر اور چیف ایگزیکٹو ٹید رائٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ زی اب اکیڈمی کے نام سے اپنا کام جاری رکھے گی ، ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی مستقبل میں امریکا کے قومی مزاج کا تعین کرنے کے لیے دانشوروں اور جنگجوؤں کو تربیت دے گی۔

بلیک واٹر کے اراکین عراق جنگ میں فلوجہ ، نجف اور بغداد میں غیر قانونی طور پر عام شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں ، اس کے کچھ اہلکاروں پر سترہ عراقی شہریوں کے قتل کا مقدمہ بھی امریکا میں چلایا گیا تھا ۔ اس تنظیم کے واضح مقاصد ہیں کہ امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کا تحفظ اور یہ تنظیم ایسے کاموں میں استعمال ہوتے رہنا ہے جو امریکا ، عالمی دباؤ کے پیش نظر خود نہیں کرنا چاہتا۔پاکستان میں جب بلیک واٹر کی موجودگی کی گونج سنائی دی تو ہمارے حکمرانوں نے فوری تردید کرنا شروع کردی ۔

پاکستان کے امریکا میں تعینات سابق سفیر  کا کہنا تھا کہ ’’بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے ، بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے ۔ عوام ان افواہوں پر کان نہ دھریں ۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے ۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔‘‘حیرت ناک بات یہی تھی کہ پاکستان کے بچے بچے کو علم تھا کہ بلیک واٹر پاکستان میں اپنے مذموم مقاصدکے لیے موجود ہی نہیں بلکہ غیر قانونی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے لیکن اُس وقت کی حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔

افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ پاکستان ہے۔حالانکہ وزارت داخلہ نے 2007 میں خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن بد قسمتی سے اس پرکوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلی ہیں۔بلیک واٹر کے آفسز پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں ۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں 700افراد کی رہائش کے لیے200 سے زائد گھر کرائے پر حاصل کیے گئے تھے، اس کے علاوہ صرف کراچی کے مختلف علاقوں میں500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طور پر ملک کے مختلف حصوں میںٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔

19اگست 2012 کو اخبارات میں ہیوی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ شایع ہوئی تھی کہ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں ۔ اس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔امریکی اخبار’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے مطابق بلیک واٹر نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں اب یہ محض ایک امریکی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیوٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار کرچکی ہیں ۔بالکل اس طرح جب جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بد نام زمانہ تنظیم’’ فری میسن‘‘ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی اور ان کے دفاتر سیل کیے گئے تو یہ پڑوسی ممالک میں جا چھپے ، پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں’’ فری میسن‘‘  کا دفتر ہوا کرتا تھا۔

کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا ، بلیک واٹر کی سرگرمیاں بھی اسی طرح دھڑلے سے جاری ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔اس سے زیادہ خطرناک بات کیا کہی جاسکتی ہے کہ اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں گھر کرایے پر حاصل کیے گئے ، جب کہ سیکٹر ای سیون میں دو ، جی سکس میں 43،ایف سیون میں47، ایف ایٹ میں 45،ایف ٹین میں20،ایف گیارہ میں25،اور آئی 18میں 9اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ۔کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں جس طرح مساجد اور فرقے کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس سے اندازہ لگانے میں کوئی غلطی نہیں کی جاسکتی کہ گزشتہ چند سالوں میں اپنا انفراسٹرکچر مضبوط بنانے والی بد نام زمانہ بلیک واٹر ان واقعات میں ملوث ہوسکتی ہے۔

ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے کئی مفتیوں اور جید علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ کر کے ہلاک کیا گیا ۔ ان واقعات میں متعدد شدت پسند گروپ، کچھ سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیم کی آڑ میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ملک شام ، عراق میں جس طرح فرقے کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے اور اس پر مسلمانوں کی خاموشی شرم کا مقام ہے ۔

کراچی میں خصوصی طور ان واقعات کا مقصد پوری ملک کے معاشی نظام کو مفلوج کرنا ہے ۔بلیک واٹر سے وابستہ اسلام آباد میں ایک شخص  کے بنگلے پر چھاپے میں61رائفلیں اور 9پسٹل بر آمدکیے ۔ برآمد ہونے والا تمام اسلحہ امریکی ساختہ تھا ، امریکی ترجمان کے مطابق انٹر رسک کے ساتھ2009 میں معاہدہ کیا گیا تھا۔ کراچی میں فرقے کے نام پر جید علما ء اور مشائخ کا قتل ایک بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اسی طرح  کراچی یونی ورسٹی روڈ سے ڈینئل پرل کیس میں ملوث قاری عبدالحی عرف اسد اللہ ، جو کہ ائیر پورٹ کے قریب امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے میں بھی پایا گیا اسی طرح شوکت سردار عرف عثمان عرف اسامہ، انعام اللہ عرف بارود ، توکل عرف وزیر ، سمیت لشکر جھنگوی کے امیر ، امیر خالد سمیت اہم افراد کی گرفتاریاں ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے۔اسی طرح کوئٹہ میں عثمان کردگروپ ،قاری عطاالرحمان عرف نعیم بخاری ،امان اللہ عرف مفتی الیاس، قاری رضوان اور قاری عبد ،کمانڈر آصف عرف چھوٹو اور حافظ قاسم رشید عرف گنجا گروپ بھی شدت پسندی کے واقعات میں ملوث پائے گئے اور ان کی گرفتاریاں کراچی سے ہوئیں۔

ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کراچی بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کی سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ تنظیم کا اس میں ملوث ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔ خاص طور فرقہ واریت کے نام پر بلیک واٹر کی غیر قانونی سرگرمیاں حکومت کے لیے ایک چیلنج رکھتی ہیں۔فرقہ وارنہ دہشت گردی صرف تین شہروں کا مسئلہ نہیں بلکہ انٹرنیشنل سازشی ایجنڈا ہے ۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ تشدد عالمی سازش کے تحت کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔