بھارتی فلمیں چور دروازے سے پاکستان آرہی ہیں

سید بابر علی  اتوار 12 اکتوبر 2014
پنجابی فلموں کے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

پنجابی فلموں کے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

تعارف:

پاکستان خصوصاً پاکستانی پنجابی فلموں کے لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ساڑھے چھے سو سے زاید فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے مصطفیٰ قریشی نے زمانۂ طالب علمی ہی میں فلم ’لاکھوں میں ایک‘ سے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ تاریخ اسلام میں ایم اے کی سند رکھنے والے مصطفیٰ قریشی کا مقصد اداکاری نہیں تھا، لیکن قسمت کی دیوی نے خود ان کے در پر دستک دی۔ ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں بننے والی فلم ’’مولاجٹ‘‘ کے کردار نوری نت نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ایکسپریس نے مصطفی قریشی سے ملاقات کا اہتمام کیا، جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش ہے۔

ایکسپریس: آپ نے پاکستان کی فلمی صنعت کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، اس صنعت کی تباہی کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کی زیادہ تر ذمے داری حکومت ہی پر عاید ہوتی ہے۔ اس مسئلے پر میری آصف علی زرداری سے اُن کے دورِ حکومت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ گورنر ہائوس پنجاب میں ان سے ملاقات میں اپنے ساتھ ریما، بہار بیگم، اسلم ڈار اور غلام محی الدین کو بھی لے گیا تھا۔ ہم نے انہیں فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے کئی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے بہت عزت و احترام سے ہماری تجاویز کو سنا۔ میں نے انہیں کچھ دستاویزات بھی پیش کیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان سب باتوں پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

ایکسپریس: فلمی صنعت کی بحالی کے لیے انفرادی اور حکومتی سطح پر کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

مصطفی قریشی: حال ہی میں میری ملاقات پیپلزپارٹی کے راہ نما اویس مظفر اور شرمیلا فاروقی سے ہوئی۔ میں نے فلم انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے انہیں ایک تجویز دی اور آج ایک بار پھر ایکسپریس اخبار کے ذریعے اُن تک یہ تجویز پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ تجویز یہ تھی کہ چوں کہ اب پیپلزپارٹی کی حکومت صرف سندھ میں ہے۔ وہ مرکز میں تو ’’نیٖ فڈیک‘‘ بنا نہیں سکتے تو سندھ کے حوالے سے سندھ فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (سیفڈیک) کے نام سے ادارہ قائم کریں۔ سیفڈیک کے تحت فلمیں، سنیما بنائیں جس میں نہ صرف سندھی بل کہ اُردو فلمیں بھی بنائی جائیں۔ اس تجویز کو دونوں راہ نمائوں نے بہت سراہا تھا اور شرمیلا فاروقی نے تو ڈائریکٹر جنرل ثقافت کو ہدایت بھی کی تھی کہ یہ اچھی تجویز ہے۔ آپ اس کی سمری بنا کر وزیر اعلی قائم علی شاہ کو بھیجیں۔

اُس کے بعد نہیں پتا کہ سمری بھیجی گئی یا نہیں بھیجی گئی، جس طرح میں نے سندھ میں SEFDEC بنانے کی بات کی اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی اسی طرح کے ادارے بنائے جائیں۔ دوسرے اداروں کی طرح فلم انڈسٹری کے لیے بھی بجٹ میں رقم مختص کی جائے۔ اس انڈسٹری کی تو سنہری تاریخ ہے۔ انڈسٹری میں بننے والی فلمیں کچھ ہی عرصے میں اس سے زیادہ کما کر دے دیں گی جتنی لاگت آئی ہے۔ ہمارے ٹیکنیشنز، ہدایت کاروں اور دیگر افراد کو فلم میکنگ میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے لیے پاکستان اور بیرون ملک تربیت دی جائے۔ انہیں جدید کیمرے اور پروڈکشن کے آلات دیے جائیں تو جلد ہی ہماری فلم انڈسٹری کا شمار بھی دنیا کی بہترین فلمی صنعتوں میں ہوگا۔

ایکسپریس: فارمولا فلموں کو آپ شوبز انڈسٹری کی زبوں حالی میں کس حد تک ذمہ دار قرار دیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: برصغیر میں تو شروع سے یہی طریقہ چلا آرہا ہے کہ فلم ایک مخصوص فارمولے پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں کچھ گانے، لڑائی، مزاح اور رومانس دکھائی دیتا ہے اور یہ فارمولا ہمارے ناظرین نے قبول بھی کر رکھا ہے۔

ہمارا المیہ یہ رہا کہ نام ور فن کار اپنا فن دوسروں کو منتقل کیے بغیر اس دار فانی سے کو چ کرگئے۔ انہوں نے اپنے جانشین تیار نہیں کیے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے فن کو اس طرح فروغ نہیں دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔

ایکسپریس: پچھلے چند برسوں میں بڑے پردے پر کچھ فلموں کی کام یابی سے پاکستانی فلمی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود سرمایہ کار اس صنعت میں پیسہ لگانے پر کیوں تیار نہیں؟

مصطفیٰ قریشی: دیکھیں پاکستان میں حال ہی میں جو فلمیں کام یاب ہوئیں اُن میں سے زیادہ تر ’’کسی ادارے‘‘ کے تعاون سے تیار کی گئی تھیں۔ ہر پروڈیوسر کروڑوں روپے کے بجٹ سے فلم نہیں بناسکتا۔ خصوصاً ان حالات میں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا مستقبل روشن نہیں ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور میڈیا ہمارے فن کاروں کی حوصلہ افزائی کرے، تو پھر یقیناً سرمایہ دار بھی پیسہ لگانے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس: فلم مولا جٹ کے ولین کے کردار ’’نوری نت‘‘ نے آپ کو زبردست کام یابی دی۔ یہ کردار قبول کرتے وقت آپ کو اندازہ تھا کہ یہ لازوال بن جائے گا؟

مصطفیٰ قریشی: کسی بھی اداکار کو اپنا کردار قبول کرتے وقت اندازہ نہیں ہوتا کہ ہٹ ہوگا یا نہیں۔ یہ تو عوام کی رائے ہوتی ہے کہ وہ اس کو پاس کرے یا فیل کرے۔ ہمارے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کسی اداکار کو اپنا کردار سمجھ میں نہیں آیا اور اسی کردار نے دوسرے اداکار کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریلیز ہونے والی ’’مولاجٹ‘‘ میں عوام کو سیاسی صورت حال کا عکس نظر آیا تھا، اور حکم راں اس فلم سے خائف ہوگئے تھے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: ضیا دور میں فلم انڈسٹری کو بڑا نقصان پہنچا۔ بہت پابندیاں تھیں۔ نہ صرف فلم بل کہ ٹی وی ڈراموں پر بھی بہت سختی تھی۔ میری فلم ’مولاجٹ‘ بھی اُسی دور میں بنی تھی۔ ضیاء الحق نے اس فلم کو دو تین بار دیکھنے کے بعد پابندی لگا دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ فلم ’وائلینس‘ پیدا کر رہی ہے، جب کہ سب سے بڑا ’وائلینٹ‘ وہ خود تھا۔ فلم کے پروڈیوسر سرور بھٹی نے ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا جس کے بعد ساڑھے تین سال تک یہ فلم چلتی رہی۔ اس فلم اور نوری نت کے کردار پر مجھے پاکستان اور پاکستان سے باہر سینکڑوں ایوارڈ ملے۔

ایکسپریس: آپ ہمیشہ مختلف کردار ادا کرنے کے خواہش مند رہے لیکن فلم سازوں نے آپ کو ایک جیسے کرداروں کی پیش کش کی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: ایسا نہیں ہے۔ میں نے فلموں میں مختلف کردار بھی ادا کیے۔ فلم’ آبرو‘ میں، میں محمد علی کا چچا بنا، حالاںکہ وہ مجھ سے عمر میں بڑے اور اداکاری میں بھی مجھ سے کافی سنیئر تھے۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اگر کوئی کردار ہٹ ہوجائے تو پھر فلم ساز اس اداکار کو اُسی نوعیت کے کرداروں کی آفر کرتے ہیں اور مولاجٹ کی کام یابی کے بعد میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ شائقین میرے کردار کو نہیں مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ میرا فرض ہے کہ میں اُن کی امیدوں پر پورا اتروں۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے سنیما انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع ملا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

مصطفیٰ قریشی: بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے ایک مخصوص طبقے کے لیے تو پُرآسائش سنیما بنائے گئے ہیں لیکن چھوٹے سنیما آج بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ایک زمانے میں ساڑھے نو سو سنیما ہال ہوتے تھے، جن میں سے اکثر کو توڑ کر شاپنگ مال بنادیے گئے۔ کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بہت سے دیہات اور چھوٹے شہروں میں ایک سنیما بھی نہیں ہے۔

کسی زمانے میں حیدرآباد میں 33 سنیما تھے آج دو یا تین ہیں۔ آج ایک غریب آدمی اس سستی تفریح سے محروم ہے۔ اس گُھٹی ہوئی فضا میں ان کے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کا موثر طریقہ فلم ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ ملک کے چند بڑے شہروں میں سینی پلیکس سنیما بنائے گئے ہیں لیکن اُن کا ٹکٹ صرف طبقۂ اشرافیہ ہی افورڈ کر سکتا ہے اور یہ سنیما پاکستانی فلمیں نہیں لگاتے، میری اُن تمام سنیما مالکان سے گذارش ہے کہ وہ پاکستانی فلمیں لگا کر اپنی حب الوطنی کا اظہار کریں۔

ایکسپریس: آپ بھارت کے ساتھ فلم ڈپلومیسی کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف ہیں۔ اسے ہم کیا کہیں؟

مصطفیٰ قریشی: بھارت کے ساتھ ہمارے نہ صرف فلم بل کہ دوسرے تعلقات بھی استوار ہونے چاہییں، لیکن برابری کی بنیاد پر۔ میں نے حکومت پنجاب سے کئی بار گزارش کی کہ وہ بھارتی پنجاب میں پاکستانی فلموں کو فروغ دینے کے لیے کام کرے، کیوں کہ نہ صرف وہاں کے عوام بل کہ حکومت کی بھی خواہش ہے کہ پاکستانی پنجابی فلمیں وہاں آئیں۔ لیکن حکومت نے کبھی اس تجویز پر غور نہیں کیا۔ میرے نزدیک فلم کیا پاکستان میں بننے والی ہر چیز، اور اس دھرتی کی مٹی میرے لیے بہت مقدس ہے۔ آج کل جو بھارتی فلمیں آرہی ہیں ان کا کو ئی قانون نہیں ہے۔ یہ چور دروازے سے آرہی ہیں۔

یہ کاغذات میں خانہ پری کرتے ہیں کہ لندن، دبئی سے امپورٹ کی گئی ہیں۔ ہم بھارتی فلموں سے خائف نہیں ہیں۔ وہ کروڑوں روپے میں فلم بناتے ہیں۔ ہم لاکھوں روپے میں فلم بناتے ہیں۔ ماضی میںہم نے ثابت کیا ہے کہ ان کی میگا بجٹ فلموں کے باوجود ہماری فلمیں ہٹ ہوئیں۔ ہماری فلمیں اُن کی فلموں کے سامنے سلور جوبلی کرتی تھیں۔ بھارتی فلمیں بے شک آئیں، لیکن ہمیں حکومتی سپورٹ چاہیے۔

پاکستانی سرمایہ کار چاہییں جو کروڑوں روپے دوسرے کاروبار میں لگاتے ہیں۔ محب وطن سرمایہ دار فلمیں بنائیں، پاکستانی فن کاروں اور ثقافت کو دنیا میں روشناس کرائیں۔ ہم اپنی فلموں کے ذریعے دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گرد نہیں امن پسند قوم ہیں۔ ہم محبت وامن کے متوالے ہیں۔ امن کی آشا کی خواہش ہماری بھی ہے لیکن امن کی آشا امن کا تماشا نہیں ہونی چاہیے۔

امن و محبت ایک طرفہ نہیں ہوتی۔ آج جو امن کی آشا چل رہی ہے وہ یک طرفہ ہے۔ بھارت نے اپنی فلموں سے ہم پر ثقافتی یلغار کی ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کا وقار، اپنے فن کاروں کا روزگار ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ مجھے پاکستانی میڈیا سے بھی شکایت ہے کہ جتنا فروغ وہ بھارتی فلموں، بھارتی فن کاروں، بھارتی پروگرامز کو دیتا ہے اتنا پاکستانیوں کو نہیں دیتا۔ ہمارا میڈیا ہیڈلائنز میں خبر دیتا ہے کہ امیتابھ بچن کے پیٹ میں درد ہوگیا، ریکھا 55 سال کی ہوگئیں، پریانکا چوپڑا کا فلاں سے افیئر چل رہا ہے۔ ہمارے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے فن کاروں کی خبر کہیں نظر نہیں آتی۔ اُن کے مر جانے کے بعد رسم پوری کرنے کے لیے مختصر سی خبر چلا دی جاتی ہے۔ یہ پاکستان سے محبت کا اظہار نہیں ہے، یہ حب الوطنی نہیں ہے۔

ایکسپریس:کئی فلمی اداکار بڑے پردے سے ٹیلیویژن اسکرین کی طرف آئے۔ ان میں جاوید شیخ اور ندیم بھی شامل ہیں۔ آپ نے بھی چھوٹی اسکرین کا تجربہ کیا۔ دونوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں اور یہ تجربہ کیسا رہا؟

مصطفیٰ قریشی: سنیما اور ٹیلی ویژن دونوں کا اسکوپ یکسر مختلف ہے۔ سنیما میں فلم دیکھنے کے لیے لوگ اپنا قیمتی وقت نکال کر، گرمی، سردی میں لائنوں میں کھڑے ہوکر تین گھنٹے کی فلم دیکھنے کے لیے پیسے خرچ کر تے ہیں۔ فلم کے فن کاروں کو اسکرین پر دیکھنے کے لیے لوگ خود آتے ہیں، جب کہ ٹی وی میں جو فن کار کام کرتے ہیں وہ خود ٹی وی سیٹ کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ ٹی وی ڈراما دیکھنے کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے دوسرے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے معاشرے پر فلم کے اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ اور ناظرین پر ٹی وی ڈراموں کی نسبت فلم کا اثر زیادہ عرصے تک رہتا ہے۔

ایکسپریس: پاکستانی ڈراموں کا مستقبل روشن ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی یکسانیت کا شکار ہورہے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: پاکستانی ڈراموں کا مستقبل ہی نہیں حال بھی بہت روشن ہے۔ ہمارے یہاں انوکھے اور اچھوتے موضوعات پر ڈرامے بن رہے ہیں۔ نئے آنے والے اداکار، ہدایت کار بہت اچھا کام کر رہے ہیں، لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے ڈرامے یکسانیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ بیرون ملک سے فلم میکنگ اور ٹی وی پروڈکشن کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بے شک اچھے اور منفرد ڈرامے اور فلمیں بنا رہے ہیں۔ میں اُن کی کام یابی کے لیے دعا گو ہوں۔

ایکسپریس: پاکستان میں تھیٹر زوال پذیر ہے۔ اس بارے میں کچھ کہیں۔

مصطفیٰ قریشی: کسی زمانے میں ہمارے ہاں بہت اچھا تھیٹر کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ہم اصل تھیٹر کو چھوڑ کر جگت بازی کی طرف چلے گئے ہیں۔ اگر تھیٹر کو آرٹس کونسل کی سرپرستی میں دے دیا جائے تو اس دم توڑتے کلچر کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ بس اسے پرکھنے اور فن کاروں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: کئی پاکستانی فن کار خصوصاً فلمی دنیا کے لوگ بھارتی فلموں میں کام کررہے ہیں۔ کیا آپ کو وہاں سے کوئی آفر ہوئی؟

مصطفیٰ قریشی: بھارت میں ہمارے فن کاروں کو اُن کا فن دیکھ کر بلوایا جاتا ہے اور وہ ہم پر کوئی احسان نہیں کرتے، کیوں کہ وہ ہمارے فن کاروں کی وجہ سے کروڑوں روپے کماتے بھی ہیں۔ جہاں تک وہاں کام کرنے کی آفر کی بات ہے تو تقریباً ہر فن کار کو بھارت میں کام کرنے کی آفر ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھارت میں کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن قومی وقار کی قیمت پر نہیں۔ قومی وقار کو قائم رکھتے ہوئے آپ بھارت کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں کام کرسکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کا نام بھی روشن ہوگا۔

اگر میں بھارت میں کام کرنے کی آفر قبول کرتا ہوں تو اس بات پر انہیں فخر ہونا چاہیے کہ میں نے اُن کی آفر کو قبول کیا۔ وہ ہمارے فن کاروں کو وہ عزت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہاں کے ہیرو کو وہ ایکسٹرارول میں لیتے ہیں، تو میں ایسے کام پر لعنت بھیجتا ہوں۔ عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فن کاروں کی سرحد نہیں ہوتی۔ میں اس بات سے متفق نہیں، فن کاروں کی سرحد ہوتی ہے۔ یہ سرحد اپنے ملک سے وفاداری ہے، لیکن فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر لتا کو ہم بچپن سے سن رہے ہیں۔ کبھی دیکھا نہیں کبھی ملاقات نہیں، لیکن وہ فن کے ذریعے ہمارے پاس ہیں۔

ایکسپریس: پاکستانی کے موجودہ سیاسی حالات اور دھرنے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

مصطفی قریشی: میں ان دھرنوں کی حمایت کرتا ہوں۔ جب قانون کے مطابق انصاف نہ ملے تو احتجاج اور مطالبات پیش کرنے کا یہی طریقہ رہ جاتا ہے۔ معیشت کو نقصان دھرنوں کی وجہ سے نہیں حکومت کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ لوگ تو پُرامن طریقے سے ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، جس دن عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر امریکا کو للکارا، اُس دن مجھے اُس میں بھٹو کی روح نظر آئی۔ بھٹو نے بھی پنڈی کے راجا بازار میں اسی طرح امریکا کو للکارا تھا ۔ اسی پاداش میں انہیں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے قائدین و کارکنان کو چاہیے کہ عمران خان کا ساتھ دیں۔ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو دو بھائیوں نے قید کیا ہوا ہے۔ ان دو افراد کو بچانے کے لیے پوری قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

یہ لوگ دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، جمہوریت کے لیے قربانی دینے کی باتیں کرتے ہیں تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عوام کے لیے یہ چھوٹی سی قربانی بھی دے دیں۔ آئین اور قانون وہ اپنے لیے تو سمجھتے ہیں دوسروں کے لیے نہیں۔ میں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو سنتا رہا ہوں ۔ آئین کی کتاب اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کچھ ہی لوگوں نے پڑھی ہوگی۔ میں نے خود نہیں پڑھی۔ لیکن اس دھرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب ڈاکٹر صاحب آئین کی شقیں پڑھ کر سناتے اور سمجھاتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ آئین کیا کہتا ہے اور ہو کیا رہا ہے۔ ان کے مطالبات بالکل جائز ہیں ۔ پارلیمینٹیرینز جمہوریت کو خود ڈی ریل کر رہے ہیں۔

ستر فی صد پارلیمینٹیرینز منفی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ چور دروازے سے آئے ہیں۔ منفی سیاست کرنے والے سیاست داں بہت شاطر ہوتے ہیں۔ ہوا کے رُخ پر چلتے ہیں۔ ہمارے پارلیمینٹرینز پُر آسائش زندگی کے عادی ہیں۔ اب آپ سیلاب کی مثال ہی لے لیں کہ محکمۂ موسمیات کے انتباہ کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہیں پتا ہے کہ ہر سال سیلاب آتا ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ موٹر وے، میڑو ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں روپیہ ضایع کرنے کے بہ جائے چھوٹے چھوٹے ڈیم بناتے۔ سیلاب بھارت میں بھی آتا ہے لیکن وہ اسی سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

انہوں نے تو اپنی شوگر ملیں، زمینیں بچانے کے لیے بند توڑ دیے، کئی بستیوں، دیہات کو ڈبو دیا ہے۔ یہ حکومت کی ناکامی ہی نہیں بل کہ نا اہلی ہے۔ ان کا سارا زور اپنی حکومت بچانے پر ہے انہیں عوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ہے۔ موٹر وے بے شک بنائیں لیکن ہر کام کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے پہلے آپ تعلیم اور صحت کے مسائل کو حل کریں۔ میٹرو بس سے پہلے بھی لوگ سفر کر ہی رہے تھے، لیکن اس کام میں اربوں روپے کمیشن مل رہا ہے۔ اس معاملے میں عدالت کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کا پاکستان پیپلزپارٹی سے قریبی تعلق رہا ہے۔ آپ ذوالفقار بھٹو کے حامی رہے، بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کیا، اس وقت کی پیپلز پارٹی اور آج کی پیپلز پارٹی میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟

مصطفیٰ قریشی: میں زمانۂ طالب علمی ہی سے ذوالفقارعلی بھٹو کا بہت بڑا مداح تھا۔ میں اس وقت ریڈیو میں کام کرتا تھا، جہاں اکثر میر رسول بخش تالپور آیا کرتے تھے۔ ان سے ہمارا خاندانی تعلق بھی تھا۔ ایک دن وہ مجھے حیدرآباد ٹھنڈی سڑک پر واقع ایک ہوٹل میں لے گئے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک میٹنگ تھی۔ اُس وقت تک پاکستان پیپلزپارٹی وجود میں نہیں آئی تھی۔ میں نے میٹنگ کی ساری کارروائی بڑے انہماک سے سنی، بھٹو کو قریب سے دیکھا اور اُن کی پارٹی کے منشور کو جانا۔ ہم تو پہلے ہی بھٹو کے عاشق تھے۔

پاکستان اور جمہوریت کے حوالے سے اُن کے خیالات نے بھی بہت متاثر کیا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد جب میں نے اُن سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میر صاحب نے بھٹو مرحوم سے کچھ اس طرح میرا تعارف کروایا ’’بابا! ریڈیو فن کار‘‘ یہ سن کر بھٹو صاحب نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ اُس گلے لگانے کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں اور تاحیات میں اُسے نہیں بھول سکتا۔ پھر پنجاب میں ڈاکٹر مبشر کے گھر پر پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور ہم تمام تحریکوں اور جلسے جلوسوں میں بھٹو صاحب کے ساتھ رہے۔ جہاں تک بات ہے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کی تو وہ ایک انقلاب تھا، ظلم و بربریت کے خلاف، آمرانہ حکومتوں کے خلاف، اُس کے بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی رہا۔

انہوں نے مجھے پاکستان پیپلزکلچرل ونگ کا چیئر مین بنایا۔ لیکن بعد میں سابق چیئر مین کو دوبارہ یہ عہدہ دے دیا گیا اور مجھے پیپلز کلچرل ونگ پنجاب کا چیئر مین بنایا گیا، جو میں آج تک ہوں۔ یہ کلچرل ونگ ایک طرح سے دانش وروں، فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کے لیے ایک تھنک ٹینک تھا، جس کے تحت ہم مختلف موضوعات پر سیمینار منعقد کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی سال چلتا رہا لیکن بی بی کی شہادت کے بعد حالات تبدیل ہوگئے۔ جب میں نے دیکھا کہ میری کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہے تو خاموشی اختیار کرلی۔

پیپلز پارٹی سے میرا تعلق آج بھی ہے، لیکن مجھے آج کی پیپلزپارٹی سے کچھ تحفظات ہیں۔ میری جتنی پذیرائی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کرتی تھیں وہ اہمیت بعد میں نہیں دی گئی۔ جہاں تک بلاول بھٹو کی بات ہے تو میری ابھی تک اُن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی میں اس خوش فہمی میں ہوں کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ البتہ دوسرے راہ نما ضرور مجھے جانتے ہیں اور پیپلزپارٹی کے نئے قائد سے میرا تعارف کروانا اُن کا کام ہے۔ حال ہی میں بلاول ہائوس میں فلم انڈسٹری کے مسئلے پر ایک میٹنگ کروائی گئی جس میں ’’ڈھائی‘‘ آرٹسٹ شامل تھے۔

جاوید شیخ کا تو فلم سے گہرا تعلق ہے، اسی طرح زیبا بختیار نے بھی فلمیں بنائی ہیں اور ایک دو فلموں میں کام بھی کیا ہے۔ اسی طرح ہمایوں سعید نے دو فلمیں بنائی ہیں اور ایک دوفلموں میں کام کیا ہے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اس میٹنگ میں ’’ڈھائی‘‘ آرٹسٹ شریک تھے۔ میٹنگ کروانے والو ں کو سوچنا چاہیے تھا کہ ندیم، مصطفی قریشی، سنگیتا، سید نور، گلاب چانڈیو، صلاح الدین تینو، قیصر نظامانی جیسے سنیئر فن کار بھی کراچی میں ہیں۔

فلمی صنعت کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے کچھ پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر ز بھی کراچی میں ہیں۔ انہیں بلاول بھٹو کے شایان شان میٹنگ کروانی چاہیے تھی۔ بلاول، بھٹو شہید کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا ہے۔ میرے نزدیک میٹنگ کروانے والوں نے بلاول بھٹو کی توہین کی ہے۔ فلم انڈسٹری کے مسائل پر ہونے والی میٹنگ میں اس صنعت کے لیے خدمات سر انجام دینے والے فن کاروں کو ضرور بلانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج و زوال دونوں دیکھا ہے۔

ایکسپریس: ذوالفقارعلی بھٹو نے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیفڈیک) قائم کی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارہ بند نہیں ہوتا تو آج فلم انڈسٹری کا شمار پاکستان کی منافع بخش صنعتوں میں ہوتا؟

مصطفی قریشی: ذوالفقارعلی بھٹوکو ثقافت سے دل چسپی تھی۔ پاکستان میں قائم کیے گئے تمام آرٹس کونسل بھٹو صاحب ہی نے بنائے تھے۔ لوک ورثہ، اکیڈمی آف لیٹرز، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا قیام بھی بھٹو صاحب کی کوششوں سے عمل میں آیا۔ انہوں نے پاکستان میں فلمی صنعت کے فروغ کے لیے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیفڈیک) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے تحت کچھ فلمیں بھی بنائی گئیں۔

اس ادارے کے تحت فلمی صنعت میں اچھی کارکردگی کے حامل افراد کو ہر سال نیشنل ایوارڈ دیے جاتے تھے۔ وہ فلم انڈسٹری کے عروج کا دور تھا۔ بعد میں آنے والوں نے اتنے اچھے ادارے کو غیرفعال قرار دے کر محض اس لیے بند کردیا کیوں کہ یہ بھٹو کا بنایا ہوا ادارہ تھا۔ اگر نیفڈیک کو ختم نہیں کیا جاتا تو یقیناً آج فلمی صنعت اپنے عروج پر ہوتی۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں۔ جو فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے کام کریں۔ فلم انڈسٹری تو ہمیشہ منافع بخش صنعتوں میں شمار ہوتی ہے، جس دور میں سالانہ ڈیرھ سو دو سو فلمیں بنتی تھیں ریونیو کی مد میں حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے جاتے تھے۔

فلم میں کام کرنے والے ٹیکنیشنز، اداکار، ہدایت کار، ڈسٹری بیوشن سمیت 32 شعبوں میں کام کرنے والے سب لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے تھے۔ آج بھی دو چار فلمیں جو بن رہی ہیں وہ بھی حکومت کو ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔ کئی بار یہ بات حکومت کے علم میں لائی گئی ہے۔ اس صنعت کی تباہی سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، ہمارے کئی فن کار کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرچکے ہیں۔ اپنے عروج کے دور میں فلم انڈسٹری نے دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت کروائی تھی۔

ایکسپریس: کبھی خود فلم بنانے کا خیال نہیں آیا؟

مصطفیٰ قریشی: بھٹو کے دور میں ’ندیا کے پار‘ کے نام سے ایک فلم پروڈیوس کی تھی۔ یہ مغلیہ دور کے پس منظر کی میوزیکل فلم تھی، جس میں ایک طرف تان سین ہے جو درباری گویا ہے، نو رتنوں میں سے ایک رتن ہے۔ دوسری طرف جان خان، سورج خان ہیں جو بہت اچھے لیکن غریب گائک ہیں، عوامی فن کار ہیں۔ اس فلم میں عوامی فن کار اور درباری فن کار کے درمیان چپقلش دکھائی گئی تھی۔ اس فلم میں پاکستان کے تما م نام ور کلاسیکل فن کار اور اداکار شامل تھے، لیکن ریلیز کے لیے غلط تاریخوں کا انتخاب اور کچھ لوگوں کے دھوکے کی وجہ سے یہ فلم ناکام رہی اور مجھے نقصان ہوا۔ دوبارہ کئی بار فلم بنانے کا ارادہ کیا، لیکن مصروفیات کی وجہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہناسکا۔

ایکسپریس: آپ نے سلطان راہی کے ساتھ ایک عرصہ کام کیا۔ انھیں آپ نے کیسا انسان پایا؟

مصطفیٰ قریشی: فلم کے کردار میں تو ہم ایک دوسرے کے دشمن تھے، لیکن حقیقت میں بہت، دوستی، محبت، ادب آداب تھا۔ وہ مجھ سے سنیئر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ ملک خصوصاً پنجاب میں تشدد کو بڑھاوا دینے میں پنجابی فلموں نے بھی کردار ادا کیا۔ آپ اس رائے سے کس حد تک متفق ہیں۔

مصطفیٰ قریشی: یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ پاکستان میں تشدد کو فلموں نے بڑھاوا دیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں اس بات سے قطعی متفق نہیں۔ فلم معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیا کا ہر رائٹر اطراف میں پیش آنے والے واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ ہمارا رائٹر بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ ہیرو نیکی کی اور ولین بدی کی علامت ہے۔ نیکی اور بدی کی جنگ تو ازل سے چلی آرہی ہے اور ابد تک رہے گی ۔ جب سنیما کا وجود بھی نہیں تھا، جب دنیا قائم ہوئی تھی، اس وقت بھی ہابیل قتل ہوا تھا۔

ہمارے یہاں برادریوں اور قبائل میں جدی پشتی دشمنیاں چلی آرہی ہیں۔ تو وہ انتقامی جذبہ ہوتا ہے اور ہمارے یہاں اسی موضوع پر پنجابی میں زیادہ فلمیں بنی ہیں، جن کے آخر میں یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اس انتقام سے دونوں طرف قتال ہوتا ہے۔ اس سے گُریز کیا جائے۔ نیکی و بدی، خیرو شر کی ایک جنگ جاری ہے۔ نیکی اجاگر کرنے کے لیے آپ کو بدی دکھانا پڑے گی۔ ہمارا رائٹر یہاں ہونے والی ناانصافی، ظلم و بربریت پر کہانی لکھتا ہے۔ وہ اپنے قلم سے معاشرے میں ظلم کرنے والے جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ داروں کے اصل چہرے سامنے لاتا ہے۔ جب قانون مظلوموں کا ساتھ نہیں دیتا تو پھر ہمارا ہیرو باغی ہوجا تا ہے اور گنڈاسا اٹھا لیتا ہے۔ بقول قتیل شفائیِ

دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

تو ہم فلم کے ذریعے معاشرے کے بُرے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہم ولین کا انجام بُرا دکھا تے ہیں۔ اس سے لوگوں کا ذہن تبدیل ہوتا ہے۔ فلم تو ایسا میڈیم ہے جس سے آپ پوری دنیا کو اپنے ملک کا روشن چہرہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ بھارت میں ہم سے زیادہ غربت ہے لیکن وہ اپنی فلموں میں دکھاتے ہیں کہ ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ لوگ ہنس رہے ہیں، گارہے ہیں، غریبی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ وہ اپنی فلموں میں بھارت کو حسین ترین دکھاتے ہیں۔ ہمارا ملک تو بھارت سے ہر لحاظ سے بہت اچھا اور دنیا کا حسین ترین ملک ہے، لیکن یہ ہم فلم کے ذریعے ہی دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ ہماری فلموں کے موضوعات بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، ان میں انسانیت، احترامِ آدمیت اور امن کا پیغام ہی ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ کی اہلیہ روبینہ قریشی سندھی کی معروف گلوکارہ رہی ہیں۔ وہ آپ کی زندگی میں کیسے آئیں؟

مصطفیٰ قریشی: روبینہ سے میری ملاقات حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن میں ہوئی۔ وہ شعبہ موسیقی میں تھیں اور میں ڈرامے کے شعبے میں تھا۔ وہیں ہماری ذہنی ہم آہنگی ہوئی۔ دونوں کی پسند پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا اور گھروالوں کی رضامندی سے ہم نے شادی کرلی۔ میں آپ کو بتائوں کہ روبینہ بہت ہی باصلاحیت فن کارہ ہیں۔ بھٹوصاحب اِن کے مداح تھے۔ اس زمانے میں جب بھی غیرملکی سربراہان پاکستان کے دورے پر آتے تو وزیراعظم ہائوس یا لاڑکانہ میں المرتضی ہائوس میں ایک گھنٹے کا صوفیانہ کلام پر مشتمل موسیقی کا پروگرام منعقد کیا جاتا، جس میں روبینہ کی شرکت لازمی تھی۔

روبینہ کو بھٹو صاحب نے سرکاری وفود کے ساتھ ترکی، انڈونیشیا اور چین بھیجا، جہاں انہوں نے ان ممالک کی سرکاری زبان میں گانے گا کر دوستی کے رشتوں کو مضبوط کیا۔ وہ پاکستان کی تقریباً ہر علاقائی زبان میں ہزاروں گانے گاچکی ہیں، انہیں ’’بُلبُلِِ مہران‘‘ کا خطاب ملا تھا، لیکن آج تک اُنہیں ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ نہیں ملا۔ آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں مسلسل تین سال پرائڈ آف پرفارمینس کے لیے اُن کی سی وی منگوائی گئی، لیکن ہر بار اُن کا نام نہیں آیا، جس سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ’’اب اگر میرے مرنے کے بعد بھی پرائڈ آف پرفارمینس دیا جائے تو اسے کوئی وصول نہ کرے۔ یہ میری وصیت ہے۔ یہ ایک فن کار کی بے عزتی ہے۔‘‘

اسی طرح میرے بیٹے عامر قریشی کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ اُس کو وہ اہمیت نہیں مل رہی جس کا وہ حق دار ہے۔ عامر تین سال انگلینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آیا ہے۔ متعدد ڈراما سیریلز کے ٹائٹل سونگ اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔ کئی پاکستانی ڈراموں اور بی بی سی کے زیراہتمام بننے والی ایک فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاچکا ہے۔ فلم ’سایۂ ذولجلال‘ میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ موسیقی ماں سے اور اداکاری کی صلاحیتیں مجھ سے ملی ہیں۔ لیکن وہ گروہ بندیوں کا شکار ہے۔

ایکسپریس: آپ کے پسندیدہ ادیب اور شاعر۔

مصطفیٰ قریشی: پسندیدہ ادیب منٹو اور کرشن چندر ہیں جب کہ فیٖض احمد فیض اور پروین شاکر کو بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔

ایکسپریس: پسندیدہ گلوکار، گلوکارہ۔

مصطفیٰ قریشی: پاکستانی گلوکاروں میں نور جہاں، مہدی حسن جیسا کوئی نہیں اور بھارتی فن کاروں کی بات کی جائے تو لتا اور محمد رفیع کا جواب نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔