کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

اقبال خورشید  جمعرات 16 اکتوبر 2014

غریب تو ہم ہیں ہی، مگر عجیب بھی کم نہیں۔

خود کو تباہ کر لیا، پر ملال کا ذکر ہی کیا، یہاں تو اپنی کوتاہیوں کے اعتراف کا بھی رواج نہیں۔ نرگسیت ہی بلا کی ہے اور یہ خود پسندی عظیم کارناموں کی دَین نہیں، نہ ہی یہ تکبر اُن بزرگوں کی تحقیق و جستجو کی عطا، جنھیں آج ہم سینہ ٹھوک کر اپنا محسن ٹھہراتے ہیں، مگر جب وہ بزرگ زندہ تھے، تو کف اڑاتے، تہمت لگاتے ہوئے اُن کا تعاقب کیا کرتے تھے۔ ماہرین نفسیات سے پوچھ لیجیے، اِس بے بنیاد تفاخر کے پیچھے احساس کمتری ہی کی سیاہی ہے، جسے چھپانے کو ہم اپنے ہر سورما اور راہ نما کے نام کے ساتھ اعلیٰ ترین صفت چسپاں کرنے لگے۔ بڑھکیں مارنے کے کھیل کو ثقافتی رنگ دے دیا۔ دلیل اور منطق رد ہوئے۔ غل غپاڑا ہمارا وظیفہ ٹھہرا۔

علامہ اقبال، جنھیں ہم شاعر مشرق کہتے ہیں، اور کہنا بھی چاہیے کہ ان کے اشعار اتنے متنوع اور زرخیز کہ کیا رجعت پسند، کیا روشن خیال، اِدھر کے کمیونسٹ، اُدھر کے کیپٹلسٹ؛ سب ہی برتتے ہیں۔ صوفی بھی اقبال کو دہراتا ہے، مزارات کو شرک کے مراکز ٹھہرانے والا بھی علامہ ہی کے اشعار یاد دلاتا ہے۔ تو اقبال نے کہا تھا؛ کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور۔

بے شک دونوں پرواز ایک ہی آسمان میں کرتے ہیں، مگر ہوتے الگ الگ دنیاؤں کے باسی ہیں۔ گدھ کی نظر مردار پر، شاہین کی چٹانوں پر۔ اُس کا مقصد پرواز، نئے جہانوں کی کھوج۔ جیسے ہماری ملالہ۔ ایک معصوم روح۔ ایک آزاد پنچھی۔ جس کے پروں کو نوچنے کی کوشش کی گئی۔ اُسے گھاؤ لگے۔ حملہ آور اُسے قید کرنا چاہتے تھے؛ مگر وہ شمع کیا بجھے، جسے روشن خدا کرے۔ وہ زندہ ہے، تابندہ ہے، اور یہی علم دشمنوں کی موت ہے۔

سوچا تھا، آج قنوطیت کچھ دیر تج کر جشن منائیں گے کہ قوم کی بیٹی امن کے نوبیل انعام کی حق دار ٹھہری۔ وہ انعام، جس کی بابت ہمارے حقیقت پسند خواب میں بھی سوچنے سے منع کیا کرتے تھے۔ ادب کے نوبیل انعام سے متعلق بھی بڑوں کی یہی رائے۔ اور کچھ ایسی غلط بھی نہیں کہ اقوام عالم میں سوائے دہشت گردی، بدعنوانی اور آلودگی کے ہمارا کوئی حوالہ نہیں۔ پھر جسے مغرب نے سراہا، وہ ہمارے ہاں راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ مثالیں کئی ہیں۔

اور پھر ملالہ کے ساتھ کیا ہوا۔ اس پر حملہ کیا گیا۔ سہیلیاں گواہ۔ حملہ آوروں نے ذمے داری قبول کی، مگر ’’سازشی نظریات‘‘ کے عشق میں مبتلا ہماری قوم نے اِس واقعے کو مان کر نہیں دیا۔ لگا، جیسے اِن بے چاروں، لاچاروں کو عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی کوئی خبر ہی نہیں کہ اگر خبر ہوتی، تو اِس معمولی اہدافی حملے پر یوں تذبذب سے خود کو ہلاک نہ کر ڈالتے۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں، یہاں کی مٹی میں کچھ ہے۔ جذباتیت رگوں میں بھری ہے۔ منطق اور دلیل کا بے توقیر ہونا طے ہے۔

چلیں، اگر ہم جیسے اَن پڑھ ملالہ کی علم اور امن دوستی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے، اِس پر حملے کو سازش ٹھہراتے، تب بھی غنیمت تھا۔ مگر یہاں تو پڑھے لکھوں نے، داناؤں نے، اُن قلم کاروں نے، جنھیں ’’مصلح قوم‘‘ سے کم کوئی لقب قبول نہیں، اس واقعے کو ڈراما ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جوں جوں ملالہ کو پزیرائی ملتی گئی، جیسے جیسے عالمی راہ نما اِس باہمت بچی کو سراہتے، اُس کا حوصلہ بڑھاتے گئے، ہماری بے چینی بڑھتی گئی۔

کوئی پوچھے، صاحبو کیوں تلملاتے ہو، کیا ملالہ نے وہاں جا کر اپنی ثقافت ترک کر دی؟ وہ تو جب بھی نظر آئی، دوپٹے میں نظر آئی۔ پورے بازو کی قمیص۔ نہ سرخی نہ پاؤڈر۔ کہیں اسی پر تو اعتراض نہیں؟ اس نے انتہائی اعتماد کے ساتھ بین الاقوامی شخصیات سے ملاقات کی، عالمی اداروں میں، شستہ انگریزی میں تقریریں کیں۔ شاید یہ آپ کی ناراضی کا سبب رہا ہو؟ یا پھر یہ شکایت ہے کہ اس نے ہر محاذ پر پاکستانیوں کو امن پسند قرار دیا؟

لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ ، جو کھڑکی میں کھڑے ہوں، تو ان کی نظر تاروں بھرے آسمان پر ٹھہرے، اور دوسرے وہ، جنھیں فقط سڑک پر کھڑا کیچڑ نظر آئے۔ اور جو کیچڑ دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں، وہ خود بھی کیچڑ ہو جاتے ہیں۔

اب ملالہ کو نوبیل انعام مل گیا، تو ہمیں نیا غم کھانے لگا کہ عبدالستارایدھی جیسے درویش کو یہ ایوارڈ کیوں نہیں ملا۔ بدتہذیبی ہو گی، مگر پوچھنا چاہوں گا؛ آپ کے ہمارے ایدھی صاحب تو مہان ہیں، لیکن کیا کبھی ڈاکٹر رُتھ فاؤ کا نام سُنا ہے؟ جانتے ہیں کہ اس نیک روح نے کتنے پاکستانیوں کی زندگی بچائی؟ کراچی میں مقیم اس نن کی خدمات کسی طور مدرٹریسا سے کم نہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ جذام سے لڑنے والی اس عظیم ہستی کے وجود سے اکثریت لاعلم ہے۔

اب مدر ٹریسا کو تو نوبیل ملا، مگر ڈاکٹر رتھ فاؤ کو کمیٹی نے اہم نہ جانا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مدر ٹریسا کو نوبیل سے نوازا جانا غلط تھا؟ اگر تُرک ادیب، یشار کمال کو نوبیل نہیں ملا، اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اورحان پامک کو بھی نوبیل نہیں ملنا چاہیے تھا۔ اور ایدھی صاحب کو نوبیل نہ ملنے کی وجہ کوئی اور نہیں، ہم خود ہیں ۔ ہم نے دنیا کے سامنے کبھی اپنی مثبت شبیہ پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کبھی ایدھی صاحب کے کارناموں کا چرچا کیا ہوتا، ذاتی دوروں پر کروڑوں خرچ کرنے والے سیاست دانوں نے کبھی اُن کے لیے مہم چلائی ہوتی، تو آج ملالہ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے دوسری پاکستانی ہوتی۔

یہی ظلم ہم نے اردو ادب کے ساتھ کیا۔ اپنے ادب کا بیرونی زبانوں میں ترجمہ کرنا افراد کا نہیں، اداروں کا کام ہے۔ اپنے کلاکاروں، شعرا اور فکشن نگاروں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا حکومت کی ذمے داری۔ وہی تو آپ کی ثقافت کے حقیقی نمایندے ہیں۔ مگر یہاں ثقافت کی کسے پروا۔ بلکہ اس کے قتل کے درپے۔ بٹوارے کے بعد نئی ثقافت تشکیل دینے کا بیڑا اٹھایا۔ نتیجہ سامنے ہے۔

جانے دیجیے، اپنے ہم وطنوں کو سمجھانا دیوار پر سر مارنے کے مترادف ہے۔ بہتر ہے، انسان پیر عبداﷲ کا طریقہ اپنا لے۔ اِس تضادات میں گھرے معاشرے میں وقت کاٹنے کا یہی آسرا ہے۔ پیر عبداﷲ کی کہانی کو پھر کبھی پر رکھتے ہیں۔

آخر میں دختر پاکستان، ملالہ یوسف زئی کو سلام۔ دعا کہ تم جیو ہزاروں سال۔ اور اپنی متذبذب نوجوان نسل کے لیے پیغام کہ خودی کو کر بُلند، اتنا کہ ایک روز خود اپنی تقدیر لکھنے کے قابل ہو جائے۔ علامہ کا بھی سوئی ہوئی قوم کے لیے یہی پیغام تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔