یہ روز روز کی تکرار۔۔۔!

شاہدہ ریحانہ  پير 20 اکتوبر 2014
ازدواجی تلخیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ازدواجی تلخیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

بہ حیثیت انسان عورت اور مرد کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں۔ خاندان میں اپنی مختلف حیثیتوں میں ایک عورت مختلف کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔

اگر کفالت کی بنیادی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے تو بہت سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ بالکل اسی مناسبت سے عورت کی ذمہ داری گھر کے تمام کاموں کی ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک عورت اگر چاہے تو اسے حق ہے کہ وہ گھر کے کاموں کے لیے کسی ملازمہ کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔ ایک منظم دائرے میں رہتے ہوئے دونوں اپنی اپنی جگہ مختلف مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریوں کے پابند ہیں۔ اگر دونوں اپنا اپنا کرداراحسن طریقے سے نبھاتے رہیں، تو کوئی جھگڑا ہی باقی نہ رہے۔

عورت مرد جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں، تو انہیں اس نئے رشتے کے باعث کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی اٹھانی پڑتی ہیں۔ زوجین ایک دوسرے کے دوست، غم گسار، سکھ دکھ کی ساتھی اور ہم راز بھی ہوتے ہے۔ ایک دوسرے کی تمام خوبیوں سے اور خامیوں سے آگاہ۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی اہمیت اور مقام سے آگاہ ہوں تو وہ گھر دنیا میں سکون کا نمونہ بن جاتا ہے، جب مرد بیوی کو صرف اپنے تابع، ماتحت اور فقط خواہشات پوری کرنے والی چیز سمجھنے لگتا ہے، تو وہیں اس رشتے میں دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔

مرد وعورت چاہیں، تو مل کر اپنے گھر کو جنت بنا سکتے ہیں یا پھر اپنے رویوں سے اسی گھر کو جہنم بھی بنا سکتے ہیں۔ مردوں کو کہا گیا ہے کہ بیوی تمہاری ’’نصف بہتر‘‘ ہے اور نصف بہتر کا مطلب یہی ہے کہ وہ تمہارا ہی حصہ ہے، لہٰذا وہ بھی اتنی محبت پیار، خلوص، عزت و حیثیت کی حق دار ہے، جتنا کہ آپ خود۔

اکثر خواتین سارا سارا دن گھر کے کاموں، بچوں کے جھمیلوں اور شوہر کے حقوق، آرام و آسائش وغیرہ میں مصروف رہتی ہیں، اور بدلے میں صرف شوہر کی خوشنودی، اعتراف اور محبت کی طلب گار ہوتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ شوہر حضرات چاہیں، تو اس بندھن کو اعتماد اور محبت سے مضبوط اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ صرف شوہر ہی تمام تر عزت، مان، مرتبے، آرام و آسائش کا حق دار ہے، کیوں کہ اسے گھر کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ کما کر لاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک غیر منصفانہ اور دقیانوسی سوچ ہے۔ حقیقت میں مرد تو اپنا فرض ادا کر رہا ہوتا ہے اور بیوی اپنے حصے کی ذمہ داریاں سر انجام دیتی ہے۔ کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے، کوئی احسان نہیں، جب کہ بیوی گھر کی دیکھ بھال اور اہل خانہ کی خدمت کر کے احسان کرتی ہے، کیوں کہ بیوی ساس نندوں کی خدمت کرنے کی پابند نہیں ہے، مگر وہ تمام ذمہ داریوں میں شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہے۔

بیوی صبح سویرے ناشتا بنا کر دیتی ہے، آپ کو دفتر اور بچوں کو اسکول بھیجتی ہے۔ اس کے بعد گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، بچوں کو اسکول سے لانا، ان کو نہلانا دھلانا، کھانا، پینا اور علاج معالجہ وغیرہ بھی کراتی ہے۔۔۔ گھر میں ساس، سسر، نندیں اور دیور وغیرہ ہیں، تو ان کا بھی خیال رکھنا۔ یہ سارے کام کرنے کے بدلے میں وہ اپنے شوہر اور خاندان والوں سے صرف عزت پیار اور احترام مانگتی ہے۔ اس کے باوجود اگر اسے شکایت ہے، تو پھر ازسر نو جائزہ لینا چاہیے کہ قصور کس کا ہے؟

گھر میں شوہرحضرات  اس بات کا ادراک کریں کہ اگر وہ سارا دن غم روزگار میں ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں، تو ان کی نصف بہتر بھی گھر میں سارا دن مشقت میں رہی ہے، تو انہیں ان کی تھکان کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔ آپ جب اپنے عمل اور گفتگو سے اس بات کا اظہار کریں گے، تو یقیناً اس سے بیوی کا بھی حوصلہ بڑھے گا۔ مثلاً صبح کبھی باورچی خانے میں آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو بیوی کا ہاتھ بٹانے میں پس وپیش سے کام نہ لیں۔

کبھی ضرورت پڑے، تو بچوں کا بستہ اور انہیں اسکول کے لیے تیار کرنے میں مدد کر دیں۔ اس طرح کام جلد مکمل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ چھٹی کے روز گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دینا نہایت  اچھا تاثر دیتا ہے۔ بالخصوص دسترخوان بچھانا، کھانا لگانا یا برتن سمٹوادینا، کبھی کھانے کے ذائقے میں کوئی کمی بیشی ہو جائے، تو اس پر درگزر سے کام لینا آپ کے ازدواجی تعلقات پر نہایت خوش گوار اثرات مرتب کرے گا اور یہ اثرات روز مرہ کی کسی بھی تلخی میں صورت حال کو زیادہ بگڑنے سے روکے گی اور معاملات جلد ہی سلجھ جائیں گے۔ اس سے زندگی پہلے سے کہیں زیادہ مطمئن اور پرسکون گزرے گی اور زوجین ایک دوسرے کے دل میں اپنے لیے عزت و مقام پیدا کر سکیں گے۔

مرد حضرات دفتر سے واپسی پر ہلکے پھلکے انداز میں بیوی اور بچوں کا حال احوال پوچھیں، یا بیوی اپنے شوہر کی خیریت لے۔ یاد رکھیں، سارے دن کی تھکان کا بدلہ دوسروں پر نکالنے سے تھکان نہیں اترتی، بلکہ دوسروں کا موڈ بھی خراب ہو جاتا ہے۔

اگر وقت کم ہو اور شوہر صرف ’’دیر ہو رہی ہے، دیر ہو رہی ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے رہیں، تو یہ ایک اکیلی خاتون سے نا انصافی ہو گی کہ وہ تین چار افراد کو بہ یک وقت ناشتا دے اور ساتھ ہی دفتر اور اسکول جانے کے لیے ناشتے دان یا لنچ بکس بھی تیار کرے۔ خاوند اگر جلد بازی کے بہ جائے بیوی کی مدد کرے تو اس سے گھر کے ماحول میں مزید شیرینی گھل جائے گی اورکام بھی خوش اسلوبی سے بروقت انجام پائے گا۔ ورنہ صبح، صبح گھر کا ماحول کشیدہ ہوگا۔ میاں، بیوی کا سارا دن خراب گزرے گا۔ اس لیے دونوں کے لیے چیخنے چلانے اور جرح کرنے سے بچنا ہی عقل مندی ہے۔

بیوی اور شوہر ایک دوسرے کو ہمیشہ اچھے لفظوں سے مخاطب کریں، ایک دوسرے کی محنت کو سراہیں۔ شکریہ ادا کریں اور جس کی غلطی ہو، وہ معافی مانگ لے یا وقتی طور پر ایک فریق خاموشی اختیار کر لے، تو گھر کے ماحول کو خرابی سے بچایا جا سکتا ہے۔

میاں بیوی لڑائی جھگڑوں میں بچوں کو فریق نہ بنائیں اور نہ ہی ان کی طرف داری کریں۔ اکثر گھرانوں میں ماں بچوں کو ڈانٹتی ہے، تو باپ، یا باپ بچوں کو ڈانٹتا ہے تو ماں حمایت کرتی ہے، یوں بچوں کی جگہ میاں بیوی آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ خاص طور پر ماں کو چاہیے کہ جب باپ بچوں کو تنبیہہ کرے، تو وہ ہرگز ان کی وکیل صفائی نہ بنے ورنہ بچوں کے بگڑنے کا ڈر ہوتا ہے۔ بچے ضدی اور خود سر ہو جاتے ہیں اور ماں باپ کا کہنا نہیں مانتے یا پھر کسی ایک کو دوست اور دوسرے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔

اگر بیوی سے غلطی ہو جائے یا وہ کوئی کام وقت پر مکمل نہ کر سکے۔ کھانا پکانے، صفائی ستھرائی میں کوتاہی ہو جائے، تو اس کا سبب تلا ش کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کریں، پھر بیوی کو پیار سے سمجھائے، وہ آپ کی بات ضرور سمجھے گی۔

بچوں کی پرورش پڑھائی لکھائی پر توجہ دیں۔ بچوں کے مسائل سنیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ گھر کی فضا کو خوش گوار بنانے کی کوشش کریں اور اس کے لیے دونوں ہی تو تو، میں، میں کے بہ جائے اپنے نصف بہتر کا خود سے زیادہ خیال رکھیں تاکہ نصف بہتر ’’نصف بدتر‘‘ نہ بن جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔