(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - بُک ریویو؛ ’’استفسار‘‘

رفیع اللہ میاں  ہفتہ 1 نومبر 2014

سرحدی کشیدگیوں کے اس موسم میں جے پور، راجستھان سے اردو ادب کے میدان میں کتابی سلسلے ’استفسار‘ کی آمد ایک اور خوشگوار جھونکے کی مانند ہے ، اور شعروادب کی سطح پر اس معتبر سلسلے کو مزید تقویت دے رہا ہے جو اردو ادبی رسائل نے دونوں طرف سے قائم کیا ہوا ہے۔پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے سیاسی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم فن و ادب کی سطح پر دیکھا جائے تو درمیان میں کوئی پردہ نظر نہیں آتا۔ خصوصاً دونوں ممالک میں اردو ادبی رسائل بلا امتیاز دونوں طرف کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات چھاپتے ہیں۔ پاکستان سے بھی ایسے کئی نمایاں ادبی رسائل نکلتے ہیں جن میں کراچی سے احسن سلیم کی ادارت میں چھپنے والا ادبی کتابی سلسلہ ’اجرا‘ بھی شامل ہے۔

جے پور سے شائع ہونے والے اس ادبی جریدے میں مضامین اور شعریات و غزلیات کے انتخاب کے حوالے سے بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اس کتابی سلسلے کا تیسرا شمارہ (جون 2014) ہے لیکن نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی تیزی سے پذیرائی پارہا ہے۔ اس رسالے کا گیٹ اپ بہت صاف ستھرا ہے جسے دیکھ کر پڑھنے کی خواہش جاگتی ہے۔ لیوٹالسٹائی کے مضمون ’فن کیا ہے؟‘ کے ایک اقتباس کے ترجمے (ڈاکٹر جمیل جالبی) کو اداریے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس رسالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے شعرا و ادبا کو بالخصوص جگہ دی گئی ہے۔ استفسار کے اس تیسرے شمارے میں یاد رفتگاں کے عنوان کے تحت جدید اردو نظم کے نمایاں شاعروں میں سب سے ممتاز شاعر مجید امجد کی پیدائش کے سو سال مکمل ہونے کے حوالے سے خصوصی اہمیت دی گئی ہے ،اور مدیر عادل رضا منصوری کے اپنے مضمون ’سو سال کے مجید امجد‘ کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا کا مضمون ’مجید امجد: توازن کی ایک مثال‘ اور مجید امجد کی چند نظمیں اور غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ راشد جمال فاروقی نے عتیق اللہ کی غزل کے حوالے سے ان کے چونکادینے والے لہجے سے قارئین ادب کو متعارف کرانے کی بہت اچھی کوشش کی ہے۔ یہ اشعار دیکھیں؛

یہ دیکھا جائے وہ کتنے قریب آتا ہے
پھر اس کے بعد ہی انکار کرکے دیکھا جائے
ہزاروں کام ادھورے پڑے ہوئے ہیں ابھی
بہت ضروری ہوا تب ہی مرکے دیکھا جائے

اردو تنقید کے میدان میں پاک و ہند کی سطح پر جوان نقادوں کی ایک کھیپ سامنے آرہی ہے جو اردو ادب کے لیے نہایت خوش آئند ہے۔ ان میں ایک ہندوستانی نقاد معید رشیدی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون ’نئی نسل اور اقبال کا معاملہ؛ چند باتیں‘ میں علامہ اقبال کی شاعری کے حوالے سے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ان کی زندگی کے تینوں ادوار کی شاعری کے اصل مخاطب اور محرک نوجوان ہیں، لیکن آج کی نوجوان نسل ان کی شاعری سے لاتعلق کیوں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ وہ اندھی عقیدت اور اقبال کو مختلف طبقات کے ہاتھوں مختلف خانوں میں بانٹا جانا قرار دیتے ہیں۔ اقبال کی شاعری ایک نظام فکر پر مبنی ہے اس لئے اس پر بھی سوالات قائم کئے جاسکتے ہیں، چنانچہ کسی پہلو پر تنقید معاشرے میں معیوب نہیں سمجھاجانا چاہیے۔ معید رشیدی نے جو سوال اٹھایا ہے میرے خیال میں اس کا بہتر جواب صلاح الدین درویش کی تصنیف ’فکراقبال کا المیہ‘ میں مل سکتا ہے۔

اس شمارے کا سب سے اہم مضمون پاکستان سے فائزہ افتخار کا ’اکیسویں صدی کی اردو نظم کے اہم رجحانات‘ ہے۔ اس میں پاکستان میں 2000 سے 2013 تک شائع ہونے والے مجموعوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ فائزہ نے بڑی محنت کے ساتھ بہت سارے شعرا کا کلام پڑھ کر ان کے بنیادی موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ اسلوب اور ہیئت پر صرف اشارے ہی ملتے ہیں تاہم ایک مختصر مضمون میں کئی شعرا کی نظموں کے اسلوب اور ہیئت پر بات ممکن بھی نہیں ہے۔ اسی طرح نمائندگی کے حوالے سے مزید کئی اچھے نظم گو شعرا کا تذکرہ ہوسکتا تھا۔ فائزہ نے لکھا ہے کہ اپنے عہد اور معاصر حالات سے متاثر ہونے اور اثرات قبول کرنے کا رجحان جدید نظم گو شعرا میں نمایاں ہے۔ انہوں نے اردو نظم میں لہجے، لفظیات اور مواد کی سطح پر بہت سی مماثلتوں کا انکشاف کرکے تازہ لکھی جانے والی نظم کی نقاب کشائی کی ہے۔

’غزل کی وادی سے‘ کے عنوان کے تحت 14 غزلیں شامل ہیں۔ شعرا میں ڈاکٹر نریش، عزیز پریہار، پرِتپال سنگھ بیتاب، حبیب کیفی، راشد طراز، شمشیر حیدر (پاکستان)، خالد کرار، کاشف حسین غائر (کراچی، پاکستان) اور الیاس بابراعوان (پاکستان) شامل ہیں۔ ’کھڑکی میں خواب‘ کے تحت بھی عمر فرحت کی دو غزلیں اور پاکستان سے عارفہ شہزاد کی دو نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ ’بک شیلف‘ کے عنوان سے پاکستان سے ڈاکٹر عشرت رومانی نے اقبال متین کے افسانوں کے مجموعے ’شہرآشوب‘ پر مطالعے کے بعد تاثرات قلم بند کئے ہیں۔ استفسار میں خطوط کے سلسلے کی کمی محسوس ہوتی ہے جو ادبی جرائد کا ایک اہم سلسلہ ہے۔

’افسانہ اور میں‘ کے عنوان کے تحت دو منتخب افسانے شامل ہیں جن میں سے ایک ہندوستان کے اچھے افسانہ نگار ابرار مجیب کا اور ایک پاکستان سے رفیع اللہ میاں (راقم الحروف) کا ہے۔ ’نروان سے پرے‘ ابرار مجیب کا ایک ایسے آرٹسٹ کا فسانہ ہے جو ’زندگی کا مسلسل اپنے آپ کو دہرائے جانے کی آگہی‘ کا شکار ہوگیا تھا اور وہ خالی الذہن ہوکر کسی نئی تخلیقی لہر کا متلاشی تھا۔ یہ تلاش اور انتظار آخرکار اسے تخلیقی دیوانگی کی طرف لے گئی۔ افسانے کا موضوع اچھا ہے لیکن بیانیے میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔ راقم الحروف کے افسانے کا عنوان ’چاندنی‘ ہے جس پر تبصرے کا میں اہل نہیں۔

اس کے علاوہ اس شمارے میں ندا فاضلی کے دوہے اور ’اَن سنی نظموں‘ کے عنوان تلے افتخار حیدر (کراچی) کی ایک اور شہرام سرحدی کی چھ نظمیں شامل ہیں۔ ’جہان دیگر‘ کے تحت شین کاف نظام نے معروف ہندی شاعر کیدار ناتھ سنگھ کا تعارف اور تین نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔ امریکہ سے احمد سہیل نے نوبل انعام یافتہ ہسپانوی شاعر وائسنٹ الیگڑنڈر کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وائسنٹ کی نظمیں تنہائی، موت اور افسردگی کے احساسات کے دائرے سے نکلتی ہوئی پراسرار اور طلسماتی فضا میں کائنات کی خوابیدگی کو سماجی سطح پر بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے چھ نظموں کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا ہے جس کے بارے میں وہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ یہ تراجم اردو میں منتقل ہوکر اپنی تازگی برقرار نہیں رکھ سکے ہیں۔ انگریزی ہو‘ ہسپانوی یا دیگر مغربی زبانیں، جب اردو میں ان کی نظمیں منتقل کی جاتی ہیں تو ترجمہ عموماً لفظی ہوتا ہے۔ جس طرح غالب کے شعر کے لفظی ترجمے کے بعد شعر غارت ہوجاتا ہے اسی طرح یہ نظمیں بھی اردو میں منتقل ہونے کے بعد بے ہنگم لفظوں کا ایک ڈھیر رہ جاتا ہے۔ ترجمہ نگاروں کو اس ضمن میں احتیاط اور خصوصی توجہ برتنے کی ضرورت ہے۔

اس کتابی سلسلے کے مدیران شین کاف نظامی اور عادل رضا منصوری ہیں۔ 96 صفحات پر مشتمل اس رسالے کی قیمت صرف 35 روپے ہے۔ رابطہ کے لیے پتا ہے 413، مہیما ہیریٹج، سینٹرل اسپائن، ودیا دھر نگر، جے پور (راجستھان)۔ پاکستان و خلیجی ممالک کے لیے سالانہ زرتعاون 800 روپے ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Rafi Allah Mian

رفیع اللہ میاں

ادیب و شاعر اور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ادبی میگزینز میں تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں کالمز کے ساتھ ساتھ بلاگز بھی لکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔