خواتین کی تعلیم…

مہوش روشانی  پير 10 نومبر 2014

پاکستان اپنے قیام سے ہی مختلف مسائل کا سامنا کررہا ہے، جس کا نتیجہ ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں مستقل نااہلی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اگر ہم گہرائی میں جاکر اصل مسائل کا تفصیلی جائزہ لیں تو صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے۔

یونیسکو کی جانب سے شایع ہونے والی حالیہ ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ (ای ایف اے جی ایم آر) کے مطابق پاکستان نائیجیریا کے بعد دوسرا ملک ہے جہاں اسکول تک رسائی نہ رکھنے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 7 سے 15 سال کی 62 فیصد لڑکیوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں بالترتیب 9 فیصد اور 30 فیصد لڑکیوں کے اسکول نہ جانے کے مقابلے میں پاکستان سے متعلق اعداد و شمار نہایت اہم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکول میں اپنی زندگی کا کل وقت گزارنے والی نوجوان خواتین سے متعلق نچلی درجہ بندی میں پاکستان دنیا کے دس ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکول جانے والی 17 سے 22 سال کی لڑکیاں اسکول میں اوسطاً مجموعی طور پر ایک سال کا وقت گزارتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے اسکولوں میں لڑکیوں کا کل گزارا ہوا اوسط وقت بالترتیب 2.9 سال اور 4.4 سال ہے۔ پاکستان کا جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ موازنہ بہت اہم ہے جہاں مجموعی طور پر ثقافت اور سماجی و معاشی ترقی ملتی جلتی ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا: ’’دنیا میں دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار ہے اور دوسرا قلم ہے۔ ان دونوں کے درمیان شدید مسابقت اور رقابت ہے۔ ان دونوں سے زیادہ طاقتور ایک اور قوت بھی ہے اور وہ خواتین ہیں۔‘‘ لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی بلامقابلہ ڈھالنے والی طاقت ہے۔ لڑکیوں کو علم کی فراہمی کے علاوہ یہ لڑکیوں میں اپنی مکمل مہارت کا احساس دلاتی ہے اور اعتماد کے ساتھ بااختیار بناتی ہے تاکہ انھیں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں مدد ملے۔ خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے غربت میں کمی، صحت مند رہنے کے لیے بنیادی سہولیات سے آگاہی، ملازمتوں کے بڑھتے ہوئے مواقع اور معاشی خوشحالی میں زیادہ مدد ملتی ہے۔

حقیقت میں خواتین کا بااختیار ہونا معاشی طور پر مضبوط ممالک کی بنیاد ہے۔ جب زیادہ خواتین کام کرتی ہیں تو افرادی قوت بڑھنے سے معیشت ترقی کرتی ہے اور اسی طرح کھپت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یونیسکو کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کم آمدن والے ممالک میں تمام طالبات اسکول سے محض پڑھنے میں مہارت حاصل کرلیں تو 17 کروڑ 10 لاکھ افراد خطہ غربت سے باہر آجائیں گے جس کے باعث عالمی سطح پر غربت میں 12 فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح عالمی بینک کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی اوسط سے بڑھ کر پرائمری تعلیم کا ہر اضافی سال لڑکی کی اجرت میں 10 سے 20 فیصد اضافہ کرتا ہے۔

بدقسمتی سے نصف کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر اسکول موجود ہونے کے باوجود بھی لڑکیوں کے داخلے میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بعض والدین ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال سے خوف زدہ ہیں اور وہ اپنی بچیوں کی تعلیم یہ سوچ کر روک لیتے ہیں کہ یہ اتنی اہم نہیں کہ اس کے لیے خطرہ مول لیا جائے۔ بعض یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ہر لڑکی نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تو پھر کیا ہوگا، جب کہ بعض اپنی بچیوں کی تعلیم استطاعت نہ رکھنے کے باعث منقطع کروا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے قطع نظر لوگوں کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت بجٹ میں اس کی لازمی اہمیت کو نظر انداز کرکے اس مسئلے کی نشاندہی میں بار بار ناکام ہوچکی ہے۔ تعلیم کے شعبے سے حاصل ہونے والا ٹیکس ریونیو قومی مجموعی پیداوار کا محض 10 فیصد ہے۔ یونیسکو کے مطابق اگر حکومت 2015 تک ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرکے 15 فیصد جی ڈی پی تک لے آئے اور تعلیم کے شعبے میں اس کا پانچواں حصہ مختص کردے تو وہ فنڈز میں مناسب اضافہ کردے گی جس کے باعث پاکستان کے تمام بچے اور نوجوان اسکول جاسکیں گے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریتی آبادی 2 ڈالر یومیہ پر گزر بسر کرتی ہو، تعلیم عام آدمی کی صف اول کی ترجیحات سے بہت آگے ہے، بالخصوص جب اسے روزانہ کھانے پینے کی مشکلات درپیش ہوں۔ اس کے نتیجے میں مدرسہ کلچر پروان چڑھتا ہے کیونکہ یہ غریب گھرانوں کے لیے قابل گنجائش ہے، جب کہ بعض مدارس طالب علموں کے لیے رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں روایتی اسکول کی تعلیم کے حصول پر مذہبی بنیادوں پر لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

حکومت تعلیم سے متعلق منصوبے بناتی ہے اور اپنی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے لیکن اس وقت بنیادی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے جو لڑکیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے پڑھائی جاری رکھنے کا اچھا موقع فراہم کرے۔ اس حوالے سے نجی شعبے نے نئے اسکول کھولے اور بچوں بالخصوص لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر عوامی آگہی پیدا کی۔ مختلف تنظیمیں جیسے ٹیچ فار پاکستان (Teach for Pakistan)، سٹیزن فاؤنڈیشن (The Citizen Foundation) اور کیئر فاؤنڈیشن (Care Foundation) طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔

ایسی ہی ایک تنظیم داؤد فاؤنڈیشن بھی ہے جو داؤد پبلک اسکول کے ذریعے پاکستان میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے عزم کے ساتھ لڑکیوں کا ایک سب سے بڑا اسکول چلا رہی ہے تاکہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے اور ان کی استعداد بڑھا کر انھیں ملک کا مفید اور کارآمد شہری بنایا جائے۔ اس اسکول نے تعلیمی نتائج کے حصول میں اپنی ساکھ قائم کرلی ہے، جہاں تمام سہولیات سے آراستہ لیبز اور کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامینیشنز (سی آئی ای) سے سند یافتہ ایک آرٹ اسٹوڈیو بھی موجود ہے۔ تعلیمی مہارت کے ساتھ ساتھ داؤد پبلک اسکول غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے لڑکیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے جس سے طالبات کو اپنی ذہنی و جسمانی مہارتیں نکھارنے میں مدد ملتی ہے۔

ہماری جدوجہد ایک بہتر پاکستان کے لیے ہے اور اس تبدیلی کے لیے ہے جس کو ہم سب دیکھنے کی امید کررہے ہیں لیکن اس وقت تک نامکمل ہے جب تک ہماری خواتین اس عمل میں مساوی طور پر کافی حد تک تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔